میری زباں،میری مرضی۔۔رضوان اکرم

مارچ اور یہ نعرہ جس نے پچھلے دو سالوں سے عروج پایا اور مسلسل موضوع ِ بحث رہا، 2 سال ہونے والے عورت مارچ   میں ایک عورت مختلف خواتین کو  جمع  کرکے ایک ریلی نکالتی ہے اور اس طرح کی ریلیاں  ہر بڑے شہر سے نکلتی ہیں ۔  بلکہ یوں انکی محفل سجائی جاتی ہے کہ ، جب عورت باہر آنا چاہتی ہے تو کہا جاتا ہے یہ مرد کی غیرت کا معاملہ ہے ،لیکن یہی عورت جب  لباس کے معاملے میں لاپرواہی برتتی ہے، تو یہ معاشرے کی غیرت کا معاملہ ہے۔ کوئی بھی معاشرہ کبھی دو انتہاؤں کے درمیان نہیں جی سکتا ہر معاشرے کی  کچھ اقدار ہوا کرتی ہیں۔

مگر افسوس کہ  خلیل الرحمان قمر صاحب کی ایک پروگرام میں ماروی سرمد سے ہونے والی گفتگو کسی طور بھی ایک شریف عزت دار انسان چاہے وہ مرد ہو یا عورت کو زیب نہیں دیتی۔
ہمارا معاشرہ عورت کا ہر روپ میں بہت احترام کرتا ہے ، چاہے وہ اسکی اپنی ماں بہن بیوی یا بیٹی ہو یا کسی اور کی۔ معاشرہ ہمیشہ اس کے سر پر   ایک چادر تان کے رکھتا ہے ،اگر عورت چادر اتارنا چاہے اس کو بیچ بازار تار تار کرنا چاہے تو معاشرے کا وجود ختم ہو جائے گا، مرد اگر چہ عورت کے بغیر رہ سکتا تھا، بعینہ اسلام کے مطابق حق حضرت آدم علیہم کو اکیلے ہی جنت میں رکھا جاتا اگر عورت مرد کے بغیر رہ سکتی تو جنت میں عورت کو پیدا نہ کیا جاتا ،جتنے  دلائل ہم نے آج تک سُنے ہیں کہ عورت کو مرد  کی ٹیڑھی پسلی سے پیدا کیا گیا، اب اس کو سیدھا کرنے چاہیں تو وہ ٹوٹ سکتی ہے مگر سیدھی نہیں ہوسکتی ،لہذا اسی ٹیڑھی پسلی کے ساتھ زندگی گزاریں۔ ہر مرد کا کام ہے کہ عورت کیساتھ  محبت عزت اور احترام سے پیش آئے اور اس کے بدلے  عورت کا فرض بنتا ہے  ہ مرد  کوبھی وہی لوٹائے جو اسکو دیا جارہا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہر  شخص کے کچھ حقوق فرائض ہوتے ہیں، جب تک ہم ان حقوق و فرائض کی  ادائیگی کے لئے تیار نہ ہوں  گے، تب تک معاشرہ ظلم کی بنیاد پر چلتا رہے اگا ، اور حضرت علی نے فرمایا کوئی بھی معاشرہ کفر پر چل سکتا  ہے مگر ظلم پر نہیں چل سکتا۔
وہ خواتین جو حقوق لینے کیلئے آج سڑکوں پر نکل رہی ہیں   خدارا اپنے فرائض پر دھیان دیں ، اور اگر آپ چاہتی   ہیں کہ آپ کو حقوق ملیں   تو اپنے بیٹوں کو اس کی تربیت  دیں  کہ وہ ہر عورت کو اس کا حق دیں ، اس کو عزت دیں ،  تاکہ اُسے اپنے حقوق مانگنے کے لیے کبھی بھی سڑکو ں پر آکر کسی مارچ کا حصہ نہ بننا پڑے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply