ہمیں بچاؤ

ہمارے لہجوں میں سختی، ہمارے دلوں میں کدورت اور ہماری آنکھوں میں اجنبیت بڑھتی جارہی ہے. یہ لہجوں میں سختی زمانے اور حالات کی وجہ سے ہے ہر طرف اتنی دہشت گردی اتنا تناؤ ہے کہ خود بخود رویوں میں درشتگی آرہی ہے. ماحول کی خوب صورتی اور دل گدازی ختم ہو کر رہ گئی ہے. کوئی اخبار اٹھائیں اس میں دہشت ناک خبریں، حادثات، اتنے مرگئے اتنے زخمی ماحول کے اس بھیانک رخ سے ہمارے رویئے بھی بدلتے جارہے ہیں- ہر چہرہ پریشان ہے ہر ایک کو اگلے پل کی فکر ہے کوئی کسی کا ہمدرد نہیں کوئی کسی کا غم گسار نہیں کیونکہ پہلے اپنے غموں سے تو چھٹکارا حاصل کر لیں. ہر شخص اندیشوں میں گھرا ہے کہ نہ جانے اگلا پل اس کے لیے کیا لے کر آئے، یہ ہمارے معاشرے میں جو افراتفری ہےاس کی وجہ سماجی اور سیاسی حالات ہیں. ہر طرف لوٹ مار کا بازار گرم ہے بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگلنے کو تیار بیٹھی ہے اچھائی برائی کے پیمانے بدل گئے ہیں کل تک جو چیز بری تصور کی جاتی تھی وہ اب اچھی بن کر دل کو لبھا رہی ہے.
کہاں گئے وہ سادا دن و رات جب چاندنی راتوں میں ٹہلنے نکلتے تھے، آپس میں محبتیں تھیں، خلوص تھا لحاظ تھا یہ قدریں کیا ہوئیں، گلی محلے، پڑوس کا دکھ سانجھا ہوتا تھا، محلہ کا غنڈا بھی اپنی گلی میں نظر جھکا کر گذرتا تھا، ماں بہنوں کا لحاظ تھا، آنکھوں میں شرم اور چہروں پہ حیا تھی. گلی کے کسی بچے کو غلط کام کرتے دیکھتے تو کوئی بھی بزرگ ڈانٹ ڈپٹ کر کے سزا دے دیتا اور ماں باپ کو برا بھی نہیں لگتا تھا بچہ بھی سدھر جاتا تھا اس بزرگ کا احترام ہوتا تھا . اپنی ثقافت تھی لڈی، بھنگڑا، جھومر ہر خوشی کے موقعہ پہ ہوتا تھا اب اس کو برا سمجھا جارہا ہے نیاز نذر فاتحہ سب ختم ہوتا جارہا ہے کیونکہ ہمارے اوپر نام نہاد مہر لگائی جارہی ہم جس خطہ کے رہنے والے ہیں وہاں کی ثقافت سے ہمیں دور کیا جارہا ہے اور اپنے انداز میں ڈھالا جارہا ہے۔ امن وسکون کے زمانے خواب ہوئے، نیکی اور اچھائی کے زمانے گئے. رشوت کے بغیر کام نہیں ہوتا ایمان کی دولت اٹھتی جارہی ہے، دہشت گردوں سے ہاتھ ملایا جارہا ہے کیونکہ انکا مفاد اپنا مفاد پوشیدہ ہے. ہم ان ڈھائی سو بچوں کو بھول گئے جو اسکول پڑھنے گئے تھے اور شہید کردیے گئے، آئے دن بازار، پارک، مسجد، امام بارگاہ، بسوں پر دہشت گرد حملے کرتے ہیں اور کئی افراد جان سے جاتے ہیں اگر ایک دفعہ بھی انھیں پکڑ کر سر عام پھانسی دیں اور عبرت کا نشان بنا دیں تو شائد کچھ بات بنے لیکن محفوظ راستہ فراہم کرکے معاف کیا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں روئیے بدل رہے ہیں، ہر ایک خود انصاف لینا چاہ رہا ہے، معمولی جھگڑوں میں ایک دوسرے کی جان لینے پر تیار ہیں۔ معمولی سے جھگڑوں مین جان لینے پر تیار ہیں۔ برداشت کا مادہ ختم ہوتا جارہا ہے کوئی ہے جو یہ مسائل حل کرکے معاشرے میں سکون اور اطمینان لائے نہیں کیونکہ ہمارے ارباب اختیار یہ نہیں چاہتے انھوں نے دورنگی پالیسی اپنائی ہوئی ہے، نہ ہی کھل کر مذمت کرتے ہیں نہ ہی کھل کر ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ ان حالات میں جو نسل بڑی ہو رہی ہے وہ کنفیوز ہے کیا کرے کس کا ساتھ دے، کس کو صحیح مانے کس کو غلط؟ اس لیے ہر فرد اپنا فیصلہ خود کرنے لگا ہے، اپنامفاد پہلے، دوسرا چاہے گڑھے میں جائیں، یہ خطرناک صورت حال ہے .
ہم کہاں سے چلے تھے کہاں آگئے ہیں۔ کیا ہم نے اپنا الگ ملک پاکستان اس لیے بنایا تھا کہ وہاں ہر ایرا غیرا آکر اپنا حکم نافذ کردے، ہم اپنی پہچان بھول کر اس کے پیچھے چل پڑیں؟ یاد رکھیں جو قومیں اپنی پہچان اپنا تشخص بھول جاتی ہیں وہ برباد ہو جاتیں ہیں۔ خدارا ہمیں برباد ہونے سے بچاؤ! اسی میں بھلائی ہے.

Facebook Comments

شاہانہ جاوید
لفظوں سے کھیلتی ہوئی ایک مصنف

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply