• صفحہ اول
  • /
  • ادب نامہ
  • /
  • تبدیل ہوتے سماجی اقدار کے تناظر میں ہندی ناول، نکی میل۔۔ عامر صدیقی

تبدیل ہوتے سماجی اقدار کے تناظر میں ہندی ناول، نکی میل۔۔ عامر صدیقی

تبدیل ہوتے سماجی اقدار کے تناظر میں ہندی ناول’’گلِگڈُو‘‘: عمر رسیدگی کے مسائل کے خصوصی تعلق کے حوالے سے
نکی مِیل

’’بوڑھوں کے ساتھ لوگ کہاں تک وفا کریں
بوڑھوں کو بھی جو موت نہ آئے تو کیا کرے‘‘
اکبر الہ آبادی!

آزادی کے بعد کے ہندوستانی سماج کی ترقی کی جب ہم بات کرتے ہیں تو ایک مقام پر مارکیٹ ازم اور لیبرلائزیشن ہمیں کہیں کہیں انسانوں کے مفاد کی بات لگتی ہے۔ ایک مہذب معاشرے میں انسان جسمانی راحتوں کا حقدار ہے، یہ بات ایک حد تک تو درست ہے، لیکن یہ ساری ترقی جس انسان کے مفاد کی بات کرتی ہے، وہی انسان زندگی کے آخری پڑاؤ میں آکر نظرانداز، لاچار اور بے کس ہوکر رہ جاتا ہے۔ سائنسی ترقی کے ساتھ جہاں انسانوں کی اوسط عمر بڑھتی جا رہی ہے، وہیں بڑھاپے کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں۔ جدید دنیا میں، صنعتی ترقی کے اس دور میں عمر رسیدہ افراد خود کوبے حد فالتو اور بیکار چیز سمجھتے ہوئے ایک نوع کے اکیلے پن اور مجرمانہ غفلت کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ جبکہ صحیح معنوں میں عمر بڑھنے کا مطلب غیر فعال ہونا ہرگز نہیں ہے، بلکہ معاشرے اور ملک کیلئے زیادہ مفید بن کر بامعنی اور متحرک زندگی گزارنا ہے۔ آج ہماری تشویش کا موضوع عمررسیدہ افراد کی زندگی کو سہل اور آسان بنانے سے متعلق ہے، پھرخواہ وہ بزرگ خواتین ہوں یا بزرگ حضرات۔

Advertisements
julia rana solicitors

نسائیت اور انسانی ترقی سے منسلکہ مسائل پراپنے تخلیقی کارناموں کے ذریعے ثقافتی تال میل بٹھانے والوں میں ہندی زبان کی نامور مصنفہ چترا مدگل کا نام بہت ممتاز ہے۔ انہوں نے اپنے ہندی ناولوں’’آواں‘‘،’’ایک زمین اپنی ‘‘، اور ’’گلگڈُ و‘‘ کے ذریعے نسائیت اوربالخصوص نظرانداز کئے جانے والے بزرگوں کے مسائل کو اجاگر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ فی الحال عمر رسیدگی کے مسئلے کو فوقیت دے رکھ کر کافی ہندی ادب تخلیق ہو رہا ہے اور اسی سلسلے کی ایک کڑی کے روپ میں چترا مدگل کا لکھا ناول گیا ’’گلگڈُو‘‘ سن دو ہزار میں منظرِ عام پر آیا۔ اس میں بڑھاپے کا درد، گھر میں نظر انداز کیا جانے والا رویہ اور دربدر کی ٹھوکریں کھاتے، گھر سے باہر نکالے جانے والے عمررسیدہ افراد کی زندگی کے کرب کو بہت موثر طریقے سے اجاگر کیا گیا ہے۔ یہ ناول گو کہ ضخامت میں قلیل ہے،لیکن کئی حساس موضوعات کااحاطہ کرتا ایک عظیم خزانہ ہے۔ اس میں تیرہ دنوں پر محیط ومبنی کہانی کے ذریعے ناول کے مرکزی کردار ریٹائرڈ سول انجینئر بابو جسونت سنگھ اور ریٹائرڈ کرنل سوامی (وشنو نارائن سوامی) کی زندگیوں کا ایک مکمل سانچہ ہی بیان نہیں ہوا ہے، بلکہ آج کے بدلتے سماجی اقدار کے تناظر میں گھر اور خاندان میں بوڑھوں کے حقیقی مقام کی عکاسی بھی بڑی بیباکی سے ہوئی ہے۔ اس ناول میں خاص طور پر مشترکہ خاندانی نظام کا بکھرنا، خاندان میں بزرگوں کے کردار اور موجودہ خاندانی ماحول میں ان کی حقیقی حالِ زار کو کئی انداز سے اجاگر کیا گیا ہے۔
’’گلگڈُو‘‘ ساؤتھ انڈین زبان ملیالم کا لفظ ہے، جس کے معنی ہے’’چڑیوں‘‘کے ہیں، لیکن ناول میں مصنفہ نے ’’گلگڈُو‘‘ لفظ کا استعمال ناول کے بزرگ کردار کرنل سوامی کی جڑواں پوتیوں کیلئے کیا ہے۔’’گلگڈُو‘‘ کی کہانی، دو ایسے بزرگوں کی کہانی ہے، جو گھر بار اور اقتصادی طور پر خوشحال ہوتے ہوئے بھی اکیلے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں بوڑھوں کے تین طبقات عام ہیں۔ایک وہ ہیں جن کا کوئی گھر بار نہیں ہے، اس لئے لامحالہ اکیلے رہنے پر مجبور ہیں، دوسرے وہ جو گھربار ہوتے ہوئے بھی اکیلے رہنے پر مجبور ہیں اور تیسرے وہ ہیں جو گھر میں رہ کر بھی اکیلے ہیں۔ اس ناول میں تینوں طرح کے طبقات موجود ہیں۔ ناول کے کردار مسٹر اور مسز شری واستو جن کاذکر ناول کے آخر میں بہت ہی معمولی وقت کیلئے ناول کے کردار کرنل سوامی کے پڑوسی کے روپ میں ہوا ہے، وہ دونوں اس لئے اکیلے رہ رہے ہیں، کیونکہ ان کی اپنی کوئی اولاد نہیں ہے۔ لیکن کرنل سوامی کی حالتِ زار کو دیکھ کر ان کو اس بات کا کوئی ملال نہیں ہے کہ ان کی اپنی کوئی اولاد نہیں ہے۔ مسز شری واستو کہتی ہیں۔’’ایسی قصائی اولادوں سے تو آدمی بے اولاد بھلا۔ ہمیں اس بات کا کوئی غم نہیں کہ ہماری کوئی اپنی اولاد نہیں۔۔۔۔‘‘۲۔ وہیں کرنل سوامی جن کا بھرا پوراگھربار ہے،جو اقتصادی طور پر بھی خوشحال ہیں، پھر بھی بیوی کی موت کے بعد اکیلے رہنے پر مجبورہیں، اگرچہ وہ خود اس بات کو کبھی کسی کے سامنے ظاہر نہیں ہونے دیتے ہیں۔ اس بات کا انکشاف ان کی موت کے بعد انکے پڑوسی بابو جسونت سنگھ کرتے ہیں، تبھی قارئین اس بات سے واقف ہو پاتے ہیں۔ اسی طرح ناول کے تیسرے کردار بابو جسونت سنگھ ہیں جو کہ گھر میں رہتے ہوئے بھی اکیلے ہیں، کیونکہ خاندان کیلئے اب وہ ایک اضافی بوجھ بن چکے ہیں، ان کی کوئی معنویت اب باقی نہیں رہی ہے۔
ہمارے معاشرے کا کتنا بڑا المیہ ہے کہ وہ شخص جو زندگی بھر کام کرتے ہوئے گھر والوں کی سبھی ضروریات کا خیال رکھتا تھا اور ان کی قیادت کرتا تھا، عمر رسیدہ ہو جانے پر اور کام چھوٹ جانے پر اسی کے گھر کے وہی لوگ جو کسی وقت اس پر انحصار کرتے تھے، اب اس پر توہین آمیز تبصرے کرنے سے بھی نہیں چوکتے ہیں۔ بابو جسونت سنگھ کے بیٹے نریندر اور بہو سُنینا کا ان کے تئیں رویہ اتنا سخت ہے کہ وہ دونوں انکو ذلیل وحقیر کرنے کے کسی بھی موقع سے نہیں چوکتے اور یہی وجہ تھی کہ بابو جسونت سنگھ کو کبھی یہ احساس نہیں ہوتا ہے کہ یہ ان کا اپنا گھر ہے۔ اس ناول میں بابو جسونت سنگھ کے ذریعے بڑھاپے میں رہائش کے مسئلے کو بخوبی اجاگرکیا گیا ہے،انسان سماج میں رہتے رہتے اس میں شامل ہو جاتا ہے اور جب کبھی سماج سے الگ ہوجانے کے بارے میں سوچتا بھی ہے تو اسی لمحے اسکی سماجی موت ہو جاتی ہے۔ ایسے میں بزرگوں کو خوف رہتا ہے کہ نئی جگہ پر وہ ذہنی اور حسی سطح پر کسی سے کتنا جڑ پائیں گے۔ یہی مسئلہ بابو جسونت سنگھ کے ساتھ بھی تھا۔ وہ بیوی کی موت کے بعد کانپور چھوڑ کر دہلی نہیں جانا چاہتے تھے، لیکن آخر کار مجبور ہو کر انہیں جانا پڑتا ہے۔ اس سلسلے میں مصنفہ رقم طراز ہیں۔ ’’دہلی ،بابو جسونت سنگھ نے نہ کبھی آنا چاہا نہ آنے کے بعد کوئی دن گزرا کہ وہ لمحہ بہ لمحہ دہلی سے اچاٹ نہ ہوئے ہوں۔‘‘ ۳
موجودہ حالات میں آخر یہ کیسی بدقسمتی ہے کہ ایک باپ کو اپنے ہی گھر میں، اپنے ہی بیٹے بہو سے خوف محسوس ہورہا ہے اور وہ بھی اتنا کہ وہ اپنے دوست کرنل سوامی کو ایک کپ کافی پر بھی نہیں بلا پاتے۔ بابو جسونت سنگھ کو خوف رہتا ہے کہ کہیں انکی بہو سُنینا، چائے کافی تو دور کی بات کہیں انکی بے عزتی ہی نہ کر دے۔ ’’گیٹ کے قریب پہنچ کر بابو جسونت سنگھ کی خواہش ہوئی کہ اجنبی کو گھر چل کر ایک کپ کافی پینے کی دعوت دیں۔ لیکن دعوت دینے کی ہمت نہیں پڑی۔۔۔۔۔کانپور سے دہلی آئے انہیں عرصہ ہو گیا۔ گھر کی چوکھٹ میں داخل ہوتے ہی وہ خود کو اجنبیوں کی مانند گھستا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ کیسے کہیں! ‘‘۴۔ لیموں چائے پینے والے سسر کے سامنے بغیر لیموں کی کتھئی چائے کا گلاس رکھتے ہوئے ان سے پوچھا جاتا ہے۔ ’’دلیے کاڈبہ خالی پڑا ہوا ہے۔سانجھ سے پہلے نہیں آ سکتا۔ ناشتے میں کیا بابوجی چیلا کھانا پسند کریں گے؟ ‘‘۵۔ اس طرح بات بات پر نظر انداز ہونے پر بابو جسونت سنگھ کو کبھی بھی یہ نہیں لگتا ہے کہ یہ ان کااپنا گھر ہے۔ وہ اپنا موازنہ گھر کے کتے سے کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’اس گھر میں ایک نہیں دو کتے ہیں،ایک ٹومی، دوسرا ریٹائر سول انجینئر جسونت سنگھ! ٹومی کی حیثیت بلاشبہ انکی نسبت بہت مضبوط ہے۔ اِسکے چاہنے،نا چاہنے کی پرواہ میں بچھا رہتا ہے پورا گھر۔ ان کیلئے کسی کو بچھے رہنا ضروری نہیں لگتا۔ ٹومی بہترین نسل کا کتا ہے۔ سوسائٹی میں ان کے گھر کا رتبہ بڑھاتا ہے۔۔۔ اُن کی وجہ سے ان کا رتبہ داغدار ہوا ہے۔داغدار ہوکر چندن کیوں چڑھائیں؟ ‘‘۶ ۔
بابو جسونت سنگھ کی حالت دیکھ کر لگتا ہے کہ ندا فاضلی نے ٹھیک ہی کہا ہے۔
’’پہلے ہر چیز تھی اپنی،
مگر اب لگتا ہے،
اپنے ہی گھر میں کسی
دوسرے کے گھر کے ہم ہیں۔ ‘‘
بڑھاپے میں انسان تنہا، کمزور اور بے بس ہو جاتا ہے۔ کام کرنے کی صلاحیت کمزور ہونے کی وجہ سے اپنے روز مرہ کے کاموں اور اپنی دیکھ بھال کیلئے دوسروں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یہ انحصار انکے لئے مسائل کا سبب بن جاتا ہے۔ بابو جسونت سنگھ کو بیماری کی وجہ سے پاجامے میں خون لگ جانے پر بہو سُنینا ملامت کرتے ہوئے کہتی ہے۔’’انکے پاجامے اور چڈّی میں لگے خون کے دھبے واشنگ مشین میں نہیں چھوٹتے۔ ان کے باتھ روم میں رِن کی بٹی رکھ دی گئی ہے۔ کپڑے دھونے ڈالنے سے پہلے وہ خود دھبوں کو ذرا رگڑ دیا کریں۔‘‘۷
کہتے ہیں کہ زندگی میں اعتماد بہت بڑی چیز ہوتی ہے۔ اگرکسی پر اپنوں کا بھروسہ نہیں رہتا ہے تو وہ پوری طرح ٹوٹ جاتا ہے اور اگر اپنوں کا ساتھ ہو تو انسان ہر رکاوٹ کو پارکر جاتا ہے۔ ناول کے کرداربابو جسونت سنگھ کو بواسیر کی پرانی شکایت تھی اورپاجامہ کھول کر مسوں میں ہڈِنسا ٹیوب لگا رہے تھے تو غلطی سے کھڑکی کھلی رہ جاتی ہے، جس کی وجہ سے پڑوس میں رہنے والی عورت کو غلط فہمی ہوتی ہے کہ بابو جسونت سنگھ ان کی بیٹی کو دیکھ کر پاجامہ کھولتے ہیں، اس پر وہ ان کی شکایت ان کی بہو سُنیناسے کرتی ہے۔ بہو سُنینا ان پر آگ کے گولے کی طرح برس پڑتی ہے۔ ’’آخر بابوجی اس ایلیٹ سوسائٹی میں ان کی عزت خاک میں ملانے پر کیوں آمادہ ہیں؟ اپنی عمر کا لحاظ کیا ہوتا۔ اب بھی جوانی کا جوش باقی ہو تو دقت کیسی؟ چلے جایا کریں ریڈلاٹ ایریا۔ کون سی پنشن کم ملتی ہے انہیں کہ موج مستی میں ہاتھ بندھے ہوئے ہوں؟ کم سے کم اڑوس پڑوس کی نوخیزلڑکیوں پر تو نظر نہ ڈالیں۔ منہ دکھانے کے قابل رکھیں انہیں سوسائٹی میں۔‘‘۸۔ بہو سُنینا کا کہا سنا تو بابو جسونت سنگھ کسی طرح جیسے تیسے برداشت کر لیتے ہیں، لیکن اپنے بیٹے نریندر کی طرف سے روکنا ٹوکنا ان کو بہت چبھتا ہے۔ اپنی منزل کی لفٹ کھلی چھوڑ کر بھول جانے پر جب نریندر انہیں ٹوکتا ہے ،تو اداس ہوکر وہ کہتے ہیں۔’’اس گھر میں بچوں کی شکایتیں نہیں آتیں۔ بڈھوں کی آتی ہیں۔ اس سوسائٹی کے لوگ شاید کبھی بوڑھے نہیں ہوں گے۔ نہ ان کی طاقت کم ہو گی نہ یادداشت۔ ایسے اجر امر پیدا ہوئے ہیں، نہ کبھی کوئی تکلیف اٹھائیں گے نہ دکھ بیماری۔‘‘۹
بوڑھوں کی حالتِ زارکے بارے میں معروف ہندی ادیبہ کشما شرما رقم طراز ہیں۔’’اپنوں کی جانب سے ٹھکرائے جانے کا جو ملال ہوتا ہے، اسکا کیا کوئی علاج ہے؟ اس اکیلے پن اور توہین کے احساس کا کیا، جو ان کے قریبی لوگ انہیں کراتے ہیں؟ وہ بار بار یہ احساس دلاتے ہیں کہ ان کی ضرورت اب گھر میں تو کیا اس دھرتی پر ہی نہیں رہی۔ انہوں نے جن کیلئے اپنی ساری عمر اور اپنے سارے وسائل لگا دیئے، وہ ہی دووقت کی روٹی کے لئے دھتکارتے ہیں۔ ‘‘۱۰
والدین اپنے سپنوں کو بالائے طاق رکھ کرکے اپنے بچوں کا مستقبل سنوارنے میں لگے رہتے ہیں، یہ سوچ کر کہ ایک دن ان کے بچے کامیاب ہوکر ان کے خوابوں اور خواہشوں کو پورا کریں گے۔ اسی احساس کو لے کر ناول کے کردار بابو جسونت سنگھ نے،اپنے بیٹے نریندر کی جانب سے کئے ہوئے وعدے کو کہ وہ اپنی ماں اور بابوجی کو بدری ناتھ اور کیدارناتھ کی یاترا کروائے گا، کو دل میں سجا کر رکھا تھا۔ ’’نریندر نے بہت پہلے کہا تھا۔ بابوجی اور اماں کی بدری ناتھ اور کیدارناتھ جانے کی خواہش وہ ضرور پوری کرے گا۔ ان کے بغیر وہ خود کبھی بھی کیدارناتھ درشن کو نہیں جائے گا۔ ‘‘۱۱۔اسی انتظار میں نریندر کی ماں کا تو انتقال ہو گیا تھا اور جب وہ دن آیا تو نریندر کا فرمان سن کر بابو جسونت سنگھ کو اپنے کانوں پر یقین نہیں ہوا، ان کو سننے کیلئے یہ ملا۔ ’’دوستوں کے ساتھ اس کا اچانک کیدارناتھ جانے کا پروگرام بن گیا ہے۔اپنی گاڑی سے سبھی دوست بمعہ اہل و عیال جائیں گے۔ بچوں کی چھٹی کرانی ہوگی۔ انہیں ساتھ لے جانے کا فیصلہ کرکے بھی دوستوں کا مشورہ اسے ماننا پڑ رہا۔ اس عمر میں انہیں کیدارناتھ لے جانامحفوظ نہیں۔‘‘۱۲
بوڑھوں کی اپنی ہی دنیا ہوتی ہے، جہاں انہیں اپنائیت کا احساس ہوتا ہے، کیونکہ گھر والوں کے پاس نہ ان کیلئے وقت ہے اور نہ ہی اُن کی دنیا میں اِن کیلئے کوئی مقام۔ اس ناول کے کردار مسٹر بھٹ ،بابو جسونت سنگھ کو بتاتے ہیں کہ۔’’کافی پہلے آس پاس کی سوسائٹیوں کے بوڑھوں نے مل کر ۔۔۔ ایک’’لافنگ کلب‘‘بنایا تھا۔ صحت کو درست رکھنے کے مقصد سے۔ ۔۔۔پارک میں صبح کی سیر کرنے والے جوانوں کو لٹکتی ہوئی کھالوں اور نقلی بتیسی والے بوڑھوں کی جناتی ہا، ہا، ہا، برداشت نہیں ہوئی۔۔۔۔پارک عوامی مقام ہے۔ کل یہاں ایک آواز ہوکر وہ رونا شروع کر دیں گے کہ رونا صحت کیلئے فائدہ مند ہے،کیسے سہا جا سکتا ہے؟ بوڑھے ڈر گئے۔ اگلی صبح وہ ملے ضرور لیکن ہنستے نہیں تھے۔‘‘۱۳۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی دنیا میں یہ بزرگ ایک دوسرے کے اوپر کافی گہری نظر بھی رکھتے ہیں۔ شاید سماجی ہونا اسے ہی کہتے ہیں کہ ہم اکیلے ہو کر بھی ایک دوسرے کو نظر انداز کرکے نہیں جی سکتے۔ ناول کے کردار کرنل سوامی کو جب بابو جسونت سنگھ ملتے ہیں تو وہ ان کا اکیلا پن بھانپ لیتے ہیں اور ہر طرح سے ان کی مدد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ بابو جسونت سنگھ شہر میں نئے تھے اورسبھی جگہوں سے انجان بھی، انکے پاس سیر پر جانے کے جوتے نہیں تھے۔ کرنل سوامی نے ان کو جوتے خریدنے کی ہدایت کی، لیکن ان کو پتہ تھا کہ وہ نہیں خرید پائیں گے، اس پر کرنل سوامی کہتے ہیں۔ ’’معلوم تھا، جوتے کی دکان تلاش کرنے نہیں جا سکیں گے۔ میں لے آیا، دیٹس آل۔ اور یہ بھی معلوم تھا دوست! آرنیکا بھی نہیں منگا پائے ہوں گے۔ پینٹ کی جیب سے کرنل سوامی نے ایک پتلی سی شیشی نکالی اور ان کے کرتے کی جیب میں سرکا دی۔ ‘‘۱۴ ۔جب کرنل سوامی نے انہیں یاد دلایا کہ سیر کیلئے کرتے پاجامے کی جگہ ’’لکس کوٹسوُول‘‘ خرید لینے چاہئیں تو بابو جسونت سنگھ کو دل ہی دل میں بہت اچھا لگا کہ۔’’کوئی تو ہے جو انہیں سردی سے ہی نہیں بچانا چاہ رہا، انہیں چست درست بھی دیکھنا چاہ رہا ہے۔‘‘۱۵
کرنل سوامی ہمیشہ من گڑھت کہانیاں بنا کر بابو جسونت سنگھ کو سناتے رہتے ہیں کہ ان کے بھرا پوراگھر ہے، وہ اپنی پوتیوں گلگڈُو کے ساتھ خوب مستی کرتے ہیں، ان کے بہو بیٹے ان کا بہت خیال رکھتے ہیں ،جبکہ حقیقت میں ان کی زندگی اس کے بالکل برعکس تھی۔ بہو سُنیناکی جانب سے ذلیل ہوکر جب اس کی شکایت وہ کرنل سوامی سے کرتے ہیں تو کرنل سوامی انہیں سمجھاتے ہوئے کہتے ہیں۔ ’’زندگی مڈبھیڑوں سے ہی جی جاتی ہے مسٹر سنگھ!‘‘۱۶۔ ہم دیکھتے ہیں کہ بوڑھوں کی ایک مخصوص روٹین اور سوچ بن جاتی ہے اور وہ ایک دوسرے کو دیکھ کراپنا موازنہ بھی کئی بار کرتے ہیں۔ کرنل سوامی کا مذکورہ بیان سن کر اور اس سے خود کا موازنہ کرتے ہوئے بابو جسونت سنگھ سوچتے ہیں۔’’کتنی مڈبھیڑیں کوئی جھیل سکتا ہے؟ کرنل سوامی ہی ایسا محسوس کر سکتے ہیں اور کہہ سکتے ہیں۔ دراصل نظراندازی کے عذاب اور طعنوں کے چیرتے تیروں سے وہ کوسوں دور ہیں۔ بیٹوں، بہوؤں،پوتوں، پوتیوں نے انہیں ہاتھوں ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ گھر کی دیواریں چہچہاہٹ سے گل و گلزار ہیں۔ ایک وہ ہیں ۔ خوابوں میں سپنے بُنتے ہی رہ گئے کہ کانپور والے گھر میں ان کے پوتے پوتیاں دھما چوکڑی مچائیں۔ دیواروں پر آزادانہ کھود کھود کر لکھیں۔ سینکوں سے ہاتھ پاؤں والے آدمی بنائیں۔ درخت پودے بنائیں، جن میں بھرا گیا رنگ باہر پھیل پورے گھر کو چھینٹ دے۔ خالی ہاتھ گھر میں گھستے ہی روہانسے بچوں کے پھولے گالوں انہیں واپس بازار دوڑا دیں۔۔۔۔ ‘‘۱۷
من گڑھت کہانیاں بنا کر خود کو حوصلہ دینے والے کرنل سوامی ، کتنا ہی خوش نظر آنے کی کوشش کرتے ہیں،پر تنہائی کی مار تو انہوں نے بھی کم نہیں جھیلی۔ بھرا پوراگھر ہونے کے باوجود بیوی کی موت کے بعد وہ آٹھ سالوں سے ایکدم اکیلے ہو گئے تھے ،کیونکہ بیوی کے نہ ہونے پر ان کے ساتھ رہنے والا کوئی نہیں تھا۔ شریکِ حیات کی موت بڑھاپے کو اور زیادہ تکلیف دہ بنا دیتی ہے، کیونکہ زندگی کا لمبا عرصہ ایک ساتھ گزارنے کے بعد زندگی کے آخری وقت میں ماضی کی یادیں اور سکھ دکھ ساجھا کرنے والے قریبی ساتھی کا نہ ہونا کسی عذاب سے کم نہیں ہوتا ہے۔ کرنل سوامی کو اپنی جڑواں پوتیوں کمدنی اورکاتیاینی سے بہت زیادہ لگاؤہوتا ہے، لیکن انکو ان سے ملنے کی چھوٹ نہیں ہوتی ہے تو وہ چھپ چھپ کر ان سے ہوسٹل میں ملنے جاتے تھے۔
اسی طرح جب کرنل سوامی مسلسل تین چار دن گزر جانے کے باوجود بھی سیر پر نہیں آتے ہیں تو بابو جسونت سنگھ کا دل بے چین ہونے لگتا ہے اور پریشان ہوکر وہ خود بیماری کی حالت میں بھی کرنل سوامی کو دیکھنے انکے بتائے ایڈریس پر انکے گھر پہنچ جاتے ہیں۔ اس بڑھاپے میں انہیں لگتا ہے کہ اگر ان کا کوئی سچا ساتھی ہے تو وہ کرنل سوامی ہی ہے۔ نامساعد حالات کا شکارہونے کا احساس اور تنہائی کی چبھن سے بچنے کیلئے انہیں کرنل سوامی کا ساتھ حاصل ہوتاہے لیکن وہ بھی زیادہ دن قائم نہیں رہ پاتا۔ کرنل سوامی کے گھر پہنچنے پر پڑوسی مسز شری واستو سے انہیں پتہ چلتا ہے کہ کرنل سوامی اب اس دنیا میں نہیں رہے تو بابو جسونت سنگھ کا دہلی میں رہنے کا مقصد ہی ختم ہو جاتا ہے اور اسی لمحے وہ دہلی چھوڑ کر کانپور جانے کا فیصلہ کر لیتے ہیں۔ اب ہم یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ آخر کرنل سوامی سے بابو جسونت سنگھ کا کیا رشتہ تھا؟ کہ صرف چند دنوں کے تعلق سے وہ انہیں اپنا سمجھ بیٹھے۔ بابو جسونت سنگھ اور کرنل سوامی کا باہمی تعلق ، اس بات کا پختہ ثبوت ہے کہ بزرگوں کو نوجوان نسل سے اور کچھ نہیں چاہئے صرف تھوڑاسا اپنا پن چاہئے۔ یہ اپنا پن اگر انہیں گھر میں ملے گا تو اس کی تلاش میں انہیں در در نہیں گھومنا پڑے گا۔
عصرِحاضر میں عمر رسیدہ افراد کی حفاظت اور مدد کیلئے متعدد قانون بنے ہیں، لیکن ہمارے سامنے سوال یہ ہے کہ کتنے بزرگ اپنے ہی غیرذمے دار بچوں کے خلاف قانون کی پناہ میں جائیں گے اور کتنے اپنے بچوں کے خلاف قانونی جنگ میں جیت پائیں گے؟ کرنل سوامی نے جب نویڈا والا گھر فروخت کرنے سے انکار کر دیا تو ان کے بیٹے شری نارائن نے غصے میں آکر ان پر ہاتھ تک اٹھا لیا۔ لہولہان کرنل سوامی کو پولیس کی مدد سے ہسپتال لے جایا جاتا ہے، لیکن جب ان کو ہوش آیا تو انہوں نے بیٹے کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے سے انکار کر دیا۔ یہ صرف ناول کے ایک کردار کرنل سوامی کی کہانی نہیں ہے، بلکہ حقیقی زندگی میں متعدد عمررسیدہ والدین اپنی اولاد کی مار کھانے اور اپنے ساتھ رَوا رکھے جانے والے غلط رویے کو خاموشی سے برداشت کرنے پر مجبور ہیں۔
کنزیومر ازم کی شکار اس دنیا میں منافع سب سے اہمیت کا حامل ہے۔ آج نہ صرف مارکیٹ میں بلکہ خاندانی رشتوں کی دنیا میں بھی کنزیومر ازم کے اصول غالب آ رہے ہیں۔ یعنی جب کوئی چیز مفید نہیں رہتی ہے تو اس کو پھینک دیا جاتا ہے، یہی صورتِ حال آج معاشرے میں عمررسیدہ افراد کی بھی ہیں۔ اسی سلسلے میں ناول کے کردار بابو جسونت سنگھ سوچتے ہیں کہ۔’’تم نے اگر نریندر کی اماں کی مانند پکوان بنانے میں مہارت حاصل کر لی ہوتی تو یقیناًبہو سُنینا کیلئے تمہاری کوئی افادیت ہوتی۔ بوڑھا ناکارہ اسکے کس کام کا ،جو کھانے ہگنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کر سکتا! ‘‘۱۸
اس دور میں بچے بھی کنزیومر ازم کے رجحان سے بچ نہیں پائے ہیں۔ مارکیٹ ازم اورکنزیومر ازم نے بچوں کی ایک الگ ہی دنیا تخلیق کردی ہے۔ آج کل بچے اپنا بچپن کمپیوٹر، ٹی وی، موبائیل اور انٹرنیٹ پر ڈھونڈ رہے ہیں۔ بچوں میں جذباتی رشتے نام کی چیز ہی نہیں رہ گئی ہے۔ بچوں کو شروع سے ہی اس طرح محدود رہنا سکھایا جاتا ہے کہ وہ اپنے آپ میں یا اپنے سائبردوستوں میں ہی سمٹ کر رہ جاتے ہیں۔ بابو جسونت سنگھ پوتے کو سالگرہ کی پارٹی دینا چاہتے ہیں اور جذباتی طور پر اس سے جڑنے کی کوشش کرتے ہیں ،لیکن ملیہ کا یہ کرارا جواب انکے دل کو گہری ٹھیس پہنچتا ہے۔ ’’اس کا یہ پروگرام اسکے دوستوں کے ساتھ ہے۔ گھر والے اس میں شامل نہیں ہوں گے۔۔۔۔اپنی گاڑی کیلئے پاپا اس روز دفتر سے ڈرائیور بلا لیں گے۔ نہ، نہ دادُو! اپنے ساتھ ہم کسی بھی بڑے کو نہیں لے جائیں گے ۔ پارٹی بورنگ ہو جائے گی۔‘‘۱۹۔ مصنفہ چترا مدگل اس سلسلے میں لکھتی ہے۔’’ ذہنی بالیدگی کی آڑ میں بڑی خوبصورتی سے بچوں کو انگیخت کیا جا رہا۔اتنا کہ بچے کبھی گھر والوں میں نہ لوٹ سکیں، نہ کبھی اپنا کوئی گھربار گڑھ سکیں۔‘‘۲۰
موجودہ وقت میں بزرگوں کے قابلِ رحم اور بے سہارا ہونے کی ایک اور بنیادی وجہ کمزور ماں باپ کی مضبوط اولاد بھی ہے۔ بابو جسونت سنگھ اور کرنل سوامی اپنے بچوں کو بہتر سے بہتر سہولیات دے کر، ان کی پرورش کرتے ہوئے انکی تعلیم پر خاص طور پر توجہ دے کر انہیں اعلی تعلیم یافتہ کے زمرے میں شامل کرنے کیلئے خوب دھن دولت بھی خرچ کرتے ہیں۔ خرچ کرتے وقت ہر ماں باپ اپنے بچوں سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ ہم اگر اپنے لئے کچھ بھی نہیں بچا رہے ہیں تو کوئی بات نہیں، بچہ تو بڑا آدمی بن کر ہماری دیکھ بھال کرے گا، لیکن ہوتا اسکا بالکل برعکس ہے۔ مصنفہ نے نریندر کے بچپن کی ساری کہانی دہرائی ہے، صرف یہ بتانے کیلئے کہ اسکے ماں باپ نے کتنے پیار سے اس کی تعلیم وتربیت کی، جبکہ بیٹے کے پاس نہ اب باپ کیلئے وقت ہے اور نہ پیسہ۔ اسی طرح کرنل سوامی اپنی اولاد کو لائق و فائق بناتے ہیں، لیکن اکیلے رہنے پر مجبور ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ اکیلے رہ کر بھی انہوں نے پر مسرت ہوکر جینا سیکھ لیا ہے۔
اس ناول کے ذریعے ایک اہم بات یہ بھی معلوم چلتی ہے کہ آدمی بوڑھا تن سے ہوتا ہے من سے نہیں۔ ناول کے کردار کرنل سوامی عمر کے اس پڑاؤ میں بھی انتہائی چست درست اور شدتِ احساس لئے نظر آتے ہیں۔ کرنل سوامی کو دیکھ کر لگتا ہے کہ عمر کٹھورنہیں ہے، نہ ہی بڑھاپا۔ ہماری سوچ بھی عمر کو بدلتی ہے۔ عمردراز ہوتے ہوئے بھی اس کا احساس نہ کیا جائے تو اس میں کوئی برائی نہیں، بلکہ یہ زندگی جینے کا ایک انوکھا طریقہ ہے۔ شاید خود کو اعتماد میں لے کر بڑھاپا بوجھل نہیں لگ سکتا۔ کرنل سوامی کی زندہ دلی اس وقت دیکھتے ہی بنتی ہے، جب وہ کہتے ہیں۔ ’’موت جب آئے گی، آ جائے گی۔ کسی بھی شکل میں آ جائے گی۔ رگڑے گی ہفتہ، مہینہ، سال یا اچانک جھٹکے سے اٹھا لے گی۔ اٹھا لے۔ مگر اُن کچھ ایک اذیت ناک دنوں کے تصور میں رات دن ادھ مرے ہوکر جینا کیا زندگی کا مذاق اڑانا نہیں! ‘‘۲۱
سیما دکشت رقم طراز ہیں۔’’کئی بار یہ دیکھا گیا ہے کہ بہت سے کم عمر کے لوگ بھی اپنے آپ کو بزرگ کہلانا پسند کرتے ہیں، جبکہ بہت سے لوگ جو بزرگ ہوکر بھی عمر کے چیلنجوں کو ہر لمحے مسترد کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ مسئلہ ان کا نہیں ہے، جنہوں نے عمر سے بھڑنا سیکھا، بلکہ مسئلہ ان کا ہے، جو ایک خاص مقدار کو عمر اور ایک خاص عمر کو بزرگی مان کر چلتے ہیں۔‘‘۲۲
کرنل سوامی اپنی ایک غیر حقیقی دنیا میں جیتے ہیں، اگر حالات انکے موافق رہتے تو وہ حقیقت میں ویسی زندگی جی سکتے تھے، جیسا وہ بابو جسونت سنگھ کو بتاتے ہیں۔ ان کی زندگی میں اپنوں کے اپنے پن کے علاوہ سب کچھ تھا۔ ایک عمررسیدہ شخص گھروالوں اور معاشرے سے کیا چاہتا ہے، یہ بات کرنل سوامی کے ذریعے پتہ چلتی ہے، لیکن حقیقت میں گھر باراور معاشرہ عمررسیدہ شخص کو کیا دیتا ہے، یہ بھی اس ناول میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ کرنل سوامی کی طرح کے شخص کو ، حالات کے مطابق خود کو ڈھال لینا سیکھ لینا چاہئے، تبھی وہ خوش وخرم زندگی جی سکتا ہے، ورنہ دوسری صورت میں زندگی ایک بوجھ بھررہ جاتی ہے۔ ہیوم کا حوالہ درج ہے۔’’وہ شخص سکھی ہوتا ہے، جس کے حالات اسکے مزاج یا افعال کے موافق ہوتے ہیں، لیکن وہ زیادہ بہتر ہوتا ہے، جو اپنے مزاج کو حالات کے مطابق ڈھال لیتا ہے۔‘‘۲۳۔ کرنل سوامی کی شخصیت واقعی قابلِ تعریف تھی، جو اتنی تکلیفوں، دکھوں اور اپنوں کی نفرتوں وغیرہ کو برداشت کرنے کے باوجود کبھی بھی اپنے کرب کو زبان پر نہیں آنے دیتے۔الٹا بابو جسونت سنگھ کو خوش ہوکر زندگی گزارنے کیلئے حوصلہ دیتے ہیں۔ اوشو کے کہے گئے یہ مصرعے کرنل سوامی کی شخصیت پر درست بیٹھتے ہیں۔
’’دریا کی زندگی پر صدقے ہزار جانیں،
مجھے نہیں گوارا ساحل کی موت مرنا۔‘‘
زندگی کے آخری پلوں میں جب بزرگوں کو گھر والوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے، تب انہیں اولڈ ہومز میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ کسی شخص کی تنہائی اور گھٹن بھری زندگی گزارنے سے یہ کہیں زیادہ بہتر ہے کہ وہ اولڈ ہومز میں جاکر اپنی زندگی گزارے۔ لیکن ہمارے معاشرے کی ساخت اور بناوٹ ایسی ہے کہ گھر چھوٹ جانے کی مجبوری اور کڑواہٹ ،کسی بھی بوڑھے کو، کسی بھی دوسری جگہ کو گھر ماننے کے لئے تیار نہیں ہونے دیتی۔ بے سہاروں ا ور بوڑھوں کیلئے اولڈ ہومز کا ہونا بہت بہتر ہے، لیکن بزرگوں کے تئیں اپنی ذمہ داری کو ٹالنے کیلئے اولڈ ہومز کا استعمال ہماری ثقافت اور تہذیب کے خلاف ہے۔آج کا دور مسابقت، اہلیت اور قابلیت کا دور ہے۔ نوجوانوں کو کیریئر بنانے کیلئے گھر سے باہر دیس پردیس بھی نکلنا پڑتا ہے۔ والدین اپنے آبائی گھر کو چھوڑ کر بچوں کے ساتھ یا تو جانے کیلئے تیار نہیں ہوتے اور اگر تیار ہو بھی جاتے ہیں تورہائشی جگہ کی کمی کی وجہ سے بچے انہیں اپنے ساتھ نہ رکھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ ناول کا کردار نریندر بھی جب امریکہ جانے کی سوچتا ہے تو اپنے باپ جسونت سنگھ کو اولڈ ہومز میں چھوڑنا چاہتا ہے۔ بابو جسونت سنگھ نے جب بیٹی سے اپنے ساتھ روا ہونے والے اس کٹھور رویے کی شکایت کی تو وہ بھی الٹا انہیں ہی ڈاٹنے لگی۔’’وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ ان کے رویے میں آئی تبدیلی کا سبب ہے اماں کا اچانک چلے جانا۔ تنہائی انہیں کھائے جا رہی ہے۔ مگر بھیا کی تنہا کوششوں سے توبے کلی کم نہیں ہو سکتی۔ بابوجی کو بھی اپنی کھوہ سے باہر نکلنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔بھیا تو یہاں تک سوچ رہے ہیں کہ جہاں بابوجی کا من لگے، وہیں جمے رہیں، انہیں وہیں رکھا جائے گا۔ انہوں نے پتہ لگایا ہے کہ نویڈا کے سیکٹر پچپن میں کوئی آنند نکیتن اولڈ ہومز ہے، کیوں نہ انکے رہنے کا بندوبست وہیں کر دیا جائے۔۔۔۔انہیں وہاں رکھنے کے فیصلے سے بھیا پر اخراجات کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ بھیا اسے بخوشی اٹھانے کیلئے تیار ہیں۔ ‘‘۲۴۔ بیٹی شالُو کے اس اندازِ بیان نے بابو جسونت سنگھ کی جینے کی خواہش کو ہی ختم کر دیا اور انہیں بہت تیز بخار نے آن گھیرا۔ مصنفہ آگے لکھتی ہیں۔ ’’کروٹ بھرتے ہوئے بابو جسونت سنگھ کو اپنا چھ فٹابدن ،تھرڈ ڈگری کا ٹارچر جھیل کر نکلا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ جوڑوں کی ایسی بغاوت سالوں سے نہیں جھیلی انہوں نے! خود انکی سمجھ سے باہر ہے کہ بغیر کسی سابقہ ہسٹری کے ان پر بخار کا حملہ ایکدم سے کیسے ہوگیا۔‘‘۲۵۔ انہوں نے جیسے تیسے بیماری سے نکل کر کانپور جانے کا فیصلہ لے لیا، جہاں ان کی ضرورت بھی تھی اور ان کا احترام بھی۔ ڈاکٹر نیلم صراف لکھتی ہیں۔ ’’بیٹے کی جانب سے نظر اندازکیاجانا اور بیٹی کی بے چارگی دونوں ہی بوڑھوں پر دھیان دیئے جانے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔‘‘۲۶
کنزیومر ازم سے جکڑی آج کی دنیا میں اولڈہومز کی حالت یہ ہے کہ دو سو بستروں والے اولڈہوم کیلئے تین چار ہزار تک درخواستیں آ جاتی ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اس افراتفری بھری زندگی میں انسانوں کے پاس خود اپنے لئے بھی وقت نہیں ہے، ایسے میں وہ دوسروں کیلئے وقت کیا نکال پائیں گے۔ لیکن اس کا حل یہ تو نہیں ہے کہ گھر کے بوڑھے ماں باپ کو اکیلے، کسی اجنبی ماحول کی بوریت زدہ اور مجبوری بھری زندگی گزارنے کیلئے مجبور کر دیا جائے۔ بزرگ ہمارے معاشرے کا انمول ثقافتی ورثہ ہیں، ہمارے معاشرے کی ایک ضرورت ہیں۔ اگر وہ نہیں ہوتے تو ہم بھی نہیں ہوتے، یہ بات ہمیں ہمارے ذہن میں بٹھانی ہوگی، تبھی ہمارے معاشرے کی بہتر ترقی ممکن ہے۔ وہ عمر میں ہم سے جتنے سال بڑے ہیں، اتنے ہی زیادہ زندگی کے تجربات ان کے پاس ہیں۔ بزرگ بیشک بڑھتی عمر کے ساتھ جسمانی طور پر کمزور ہو جاتے ہیں، ان کی جسمانی طاقت کے ذریعے کام کرنے کی صلاحیت کم یا ختم ہو جاتی ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ ان کے پاس موجود تجربات، معاشرے اور نوجوان نسل کو صحیح سمت متعین کرنے میں بڑا سرمایہ ثابت ہو سکتے ہیں۔ہاں وہ اپنے ان تجربات کو لے کر کسی حد تک قدامت پسند ہو سکتے ہیں، شاید کسی حد تک اڑیل بھی لیکن ناموافق کبھی بھی نہیں ہو سکتے۔ انہیں بوجھ مان کر چلنا تو ابتر ذہنیت کی ہی نشانیاں ہیں، جو ہمارے لئے بھی اتنی ہی بوجھل اور باعثِ مضرت ثابت ہو سکتی ہیں، جتنی ان کیلئے۔
آج کے زمانے میں ہم دیکھتے ہیں کہ اگر والدین میں سے دونوں ہی برسرِروزگار ہوں تو ایسی صورت میں ،وہ اپنے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کیلئے انہیں بے بی ڈے کئیر میں چھوڑ کر مطمئن ہو جاتے ہیں۔ بچوں کو دادا دادی کے پاس چھوڑنے کی بجائے انہیں غیر ہاتھوں میں سونپ کر زیادہ آزاد محسوس کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بچے نہ تو محفوظ ہیں اور نہ ہی وہ اپنے بڑوں سے اچھے طور طریقے ہی سیکھ پا رہے ہیں۔ ناول کے اہم کردار کرنل سوامی اپنی جڑواں پوتیوں گلگڈُو (کاتیاینی اورکمدنی) سے بہت زیادہ لگاؤ رکھتے تھے۔ انکی پوتیاں اپنی ماں اُنشری کا ’’ رقص گرو‘‘ کے ساتھ جاکر رہنے لگنے اور باپ کی مصروفیت کی وجہ سے ہوسٹل میں رہنے کو مجبور تھیں۔ کرنل سوامی کے ہر من گڑھت قصے میں اپنی گلگڈُو کا ذکر ہوتا تھا، ان کی دیکھ بھال کرنل سوامی آسانی سے کر سکتے تھے اور اس سے ان کی خالی زندگی میں بھی کچھ رونق آ جاتی، لیکن وہ اتنے مجبور تھے کہ انہیں پاس رکھنا تو دور کی بات، وہ چاہ کربھی ان سے مل بھی نہیں پاتے تھے، اس کیلئے انہیں چھپ کر جانا پڑتا تھا۔
پیار پانے کا احساس ایک نفسیاتی ضرورت ہے، جو ہر انسان کے دل میں ہمیشہ موجزن رہتی ہے۔ یہ ہر کسی کی زندگی کا سب سے مدھر راز ہے۔ ایک ایسی پیاس ہے جو کبھی نہیں بجھتی۔ بڑھاپے کی زندگی محبت کی مہکتی فضاؤں میں کھِل اٹھتی ہے۔ کرنل سوامی کو جب اپنوں سے کوئی امید باقی نہیں رہ جاتی ہے تو بڑھاپے میں انیماداس کے روپ میں اپنی جیون ساتھی تلاش کر لیتے ہیں اور بابو جسونت سنگھ سے انکا ذکر کرتے ہوئے وہ ایک الگ ہی دنیا میں کھو جاتے ہیں۔ کرنل سوامی اس بابت کہتے ہیں۔ ’’میں آج کل اپنی زندگی کے آخری پیار میں ڈوبا ہوں۔ خاموشی سے۔ کسی کو بھنک تک نہیں لگنے دے رہا۔ ‘‘۲۷۔آگے مصنفہ چترا مدگل لکھتی ہیں۔’’ کرنل سوامی، انیما داس کو سمجھنے میں لگے ہوئے ہیں اور انیما داس انہیں سمجھ لینا چاہتی ہیں۔ ان کے درمیان پھیلاہوا سینکڑوں میل کا فاصلہ انکی نس نس میں سمٹ رہا ہے۔‘‘۲۸۔ ناول کے اختتام تک بھی یہ نہیں پتہ چل پاتا ہے کہ کرنل سوامی کی دیگر من گڑھت کہانیوں کی طرح انیما داس کی کہانی بھی من گڑھت تھی یا پھر حقیقی اور اس خط میں ایسا کیا لکھا تھا جو کہ ا نیماداس کا خط ظاہر کرکے کر انہوں نے بابو جسونت سنگھ کو دیا تھا؟ شاید انہوں نے اپنی وصیت دوبارہ لکھواکر کچی بستی کے بچوں کی تعلیم کے نام کروا دی تھی اور اسی کا نتیجہ تھا کہ اس خط کو پڑھ کر بابو جسونت سنگھ میں ایک انقلابی تبدیلی آئی اور وہ صدیوں سے چلی آ رہی ،وراثت پر بیٹوں کے حق کی روایت کو تہس نہس کر دینا چاہتے ہیں اور اپنے جیتے جی نئی وصیت اپنے آبائی کانپور والے گھر میں کام کرنے والی سنگُنیاں کے نام لکھوانا چاہتے ہیں، اتنا ہی نہیں وہ سنگُنیاں اور اپنے رشتے کو ایک نیا نام بھی دینا چاہتے ہیں۔’’بابو جسونت سنگھ،سنگُنیاں سے کہنا چاہتے ہیں اپنے اور اُسکے رشتے کو وہ جو بھی نام دینا چاہے، انہیں قبول ہوگا۔۔۔۔وہ اب تک، سچ کہیں تو، اُسے گمنام روپ میں ہی اپنے اندر جیتے رہے ہیں۔ آگے بھی اسے شاید اسی روپ میں جیتے رہتے، اگر ان کی ملاقات اتفاقی طور انیماداس کی ایک طویل نظم سے نہ ہو جاتی۔ ‘‘۲۹
ہندومعاشرے میں ماضی قدیم سے وراثت اور آخری رسومات پر بیٹوں کے حق کی روایت چلی آرہی ہے، لیکن مصنفہ چترا مدگل نے اپنے اس ناول میں اس روایت کی دھجیاں اڑا کے رکھ دی ہیں۔ ناول کے آغاز سے لے کر اختتام تک مرکزنگاہ میں رہی سنگُنیاں کو بابو جسونت سنگھ نہ صرف اپنا جانشین مقرر کرتے ہیں ،بلکہ باقی بچی زندگی بھی عزت و احترام کے ساتھ سنگُنیاں کے ساتھ جینا چاہتے ہیں اور یہاں تک کہ اپنی آخری رسومات کا حق بھی اپنے بیٹے نریندر کو نہیں دیتے، بلکہ سنگُنیاں کے بیٹے رام رتن (ابھشیک آسرے۔ بابو جسونت سنگھ کا دیا ہوا نام) کو سونپ دیتے ہیں جو کہ اپنے آپ میں ایک بہت بڑاسماجی انقلاب ہے۔ مصنفہ لکھتی ہیں۔’’بابو جسونت سنگھ سنگُنیاں سے یہ بھی کہنا چاہتے ہیں کہ کانپور پہنچتے ہی وہ اپنی جان پہچان کے ایڈووکیٹ منا سنگھ کشواہا سے بلا تاخیر ملاقات کریں گے۔ ان سے اپنی نئی وصیت بنوائیں گے اور اسے رجسٹرڈ کروائیں گے کہ کانپور والا گھر انکی آبائی ملکیت نہیں ہے۔ بلکہ انکی ذاتی ملکیت ہے۔ انکے نہ رہنے پر اس گھر کی واحد حقدار سنگُنیاں ہوگی۔ ‘‘۳۰۔ آگے مصنفہ لکھتی ہیں۔’’سنگُنیاں سے وہ کہہ کر جائیں گے اور اسے اپنی وصیت میں واضح لکھوا بھی دیں گے کہ سنگُنیاں کا بیٹا رام رتن یا ابھیشیک آسرے ہی انکی کپال کریا کرے۔ اسے ہی وہ اپنی آخری رسومات کا حق دے رہے ہیں۔‘‘۳۱
ناول کے کردار کرنل سوامی بیوی کی موت کے بعد آٹھ سال سے اکیلے رہ رہے تھے اور وہیں دوسری جانب بابو جسونت سنگھ کو ہر بات میں اپنی بیوی کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ہندی مصنفہ کشماشرما لکھتی ہیں۔’’بزرگوں میں بھی میاں بیوی میں سے کسی ایک کے زندہ رہ جانے پر حالات اور خراب ہوجاتے ہیں۔ نہ کوئی سننے والا، نہ کوئی کہنے والا اورنہ اپنی خبر لینے والا بچتا ہے۔‘‘۳۲۔ بڑھاپا، زندگی کا ایک ایسا پڑاؤ ہوتا ہے، جہاں انسان اپنے ماضی کے ساتھ زیادہ جیتا ہے، کیونکہ اس پڑاؤ تک پہنچنے میں وہ زندگی کا ایک لمبا سفر طے کرچکاہوتا ہے۔ ماضی کے بہت سے لمحات، اچھے برے تجربوں کی دھوپ چھاؤں کی طرح یاد آتے ہیں۔ مشہور یونانی مفکر ارسطو نے اسی بارے میں لکھا ہے۔ ’’وہ توقع سے زیادہ یادوں کے سہارے جیتے ہیں۔ ‘‘اس عمر میں انسان مستقبل کے خواب دیکھنا تقریباً بند کر دیتا ہے، کیونکہ اس کا جسم انہیں حقیقت میں بدلنے کے قابل نہیں رہتا ہے۔ زندگی کے آخری پڑاؤ تک انسان اپنے متعدد قریبی لوگوں کو کھو دیتا ہے۔مثلا جیون ساتھی، والدین، بھائی بہن وغیرہ اور ایسے میں وہ جذباتی خالی پن محسوس کرتا ہے اور زندگی جینے کی خواہش تقریباً ختم ہو جاتی ہے اوروہ موت کے انتظار میں زندگی گزارنے لگ جاتا ہے۔ عظیم موجد ایڈیسن نے لکھا ہے۔’’زندگی کے اس تھوڑے سے وقت کے اتار چڑھاؤ، جوار بھاٹے، خوشیوں بھری پرانی یادوں کے دن ایک ایک کر کے آتے اور چلے جاتے ہیں ۔‘‘۳۳۔ جیون ساتھی کی موت بڑھاپے کو اور تکلیف دہ بنا دیتی ہے، کیونکہ زندگی کا لمبا عرصہ، ایک ساتھ گزارنے کے بعد زندگی کے آخری پلوں میں ماضی کی یادیں اور سکھ دکھ بانٹنے والے قریبی ساتھی کا نہ ہونا کسی اذیت سے کم نہیں ہوتا ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ بزرگ مردوں کے مقابلے میں بزرگ خواتین کم متاثر ہوتی ہیں اور وہ خود کو لے کر زیادہ حساس بھی نہیں ہوتیں۔ بابو جسونت سنگھ کی بیوی کو اپنے بہو بیٹے کیلئے اس عمر میں بھی کام کرکے خوشی ملتی تھی۔ جبکہ بابو جسونت سنگھ تمام وقت کچھ نہ کچھ کمی تلاش کرتے رہتے تھے۔ وہ وہی احترام اور عزت چاہتے تھے، جو ان کے فعال ہونے کے وقت میں ملتی تھی اور ایسا نہیں ہونے پر وہ چھوٹی سے چھوٹی بات کی شکایت بھی کرنل سوامی سے کرتے تھے ،جو خود گھربار ہونے کے باوجود اکیلے رہ رہے تھے۔ اہم فیصلوں میں خود کو نظر انداز کیا جانا وہ برداشت نہیں کر پاتے۔ گھرمیں بزرگوں کو چوبیس گھنٹے جتنا اپنی عزت کا دھیان رہتا ہے، اتنا دیگر کسی بھی چیز کا نہیں رہتا ہے۔اپنے بیٹے بہو کی شکایت کرنے پر کرنل سوامی الٹا انہیں ڈانٹتے ہوئے کہتے ہیں ۔’’سچ تو یہ ہے دوست، آپ کو رنج و غم اوڑھنے بچھونے کی عادت پڑ گئی ہے۔ عام بات ، چوٹ بن جاتی ہے۔ دراصل یہ کچھ نہیں ہے مسٹر سنگھ بوڑھوں کی حکمرانی نہ کر پانے کی مایوسی ہے۔‘‘۳۴۔ امریکہ کے فلسفی جان ڈیوی نے لکھا ہے۔’’ انسان میں نمایاں رہنے کی شدید خواہش ہوتی ہے۔‘‘۳۵
اقتصادی دباؤ کا براہ راست اثر آج جس تیزی سے ہمارے معاشرے پر پڑ رہا ہے اسے بہت عمدگی اور مہارت کے ساتھ مصنفہ نے پیش ہے۔ اگر ناول کے مرکزی کردار کرنل سوامی اور بابو جسونت سنگھ اقتصادی طور پر مضبوط نہیں ہوتے تو وہ گھر کے بجائے، نہ چاہتے ہوئے بھی اولڈ ہومز میں رہ رہے ہوتے۔ شاید بابو جسونت سنگھ کو کبھی کانپور سے دہلی نہیں لایا جاتا، بلکہ ان کو سیدھا اولڈ ہوم کی راہ دکھا دی جاتی اور وہ چاہ کر بھی انکار نہیں کر پاتے اور واپس دہلی چھوڑ کر کانپور جانے کا فیصلہ تو کبھی نہیں لے پاتے۔ اسی طرح ناول کے کردار کرنل سوامی اگر مالی طور پر مضبوط نہیں ہوتے تو کبھی بھی اپنے بیٹوں کا مقابلہ نہیں کر پاتے اور نویڈا کا مکان بیچ کر اولڈ ہوم میں رہ رہے ہوتے۔ باپ کے متعلق اسلم حسن کی ایک نظم ، بابو جسونت سنگھ اور کرنل سوامی پر ایکدم درست بیٹھتی ہے ۔
’’بچے بڑے ہو گئے
اور بونا ہو گیا ہے پِتا
گھر کا ایک بیگانہ کونا
بچھونا
ہو گیا ہے پِتا
اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے
کھیلتے بچے اور کھلونا ہو گیا ہے پِتا۔‘‘۳۶
ہم کہہ سکتے ہیں کہ موجودہ لبرلائزیشن اور گلوبلائزیشن کے دور میں انسان کی مصروفیت کی وجہ سے سمجھوتہ کرنادونوں فریقین کیلئے ضروری ہے۔ پرانی نسل کو نئی نسل کے ساتھ ہم آہنگی بٹھانی ہوگی اور نئی نسل کو پرانی نسل کے ساتھ۔ ناول کے کردار کرنل سوامی اور بابو جسونت سنگھ کی دردبھری کہانی موجودہ دور کے بزرگوں کی عمومی داستان کہتی ہے۔ بزرگوں کو اس طرح نظر اندازکرکے اور بے سہارا چھوڑ کر ہم اس مسئلے کا حل تلاش نہیں کر سکتے۔ چندرمولیشور پرساد لکھتے ہیں۔ ’’بڑھاپے کو ایک نئے نقطہ نظر سے دیکھنے کی ضرورت ہے، ایک ایسی نظر سے جس میں ہمدردی ہو اور بوڑھوں کیلئے عزت و احترام بھری زندگی دینے کی خواہش ہو۔‘‘ ۳۷۔ ہمیں اس مسئلے کا حل نکالنا ہوگا ،جس سے معاشرے میں بزرگوں پر نوازشات بڑھیں، انہیں بیکار اور فالتو نہ سمجھا جائے ،بلکہ معاشرے میں ان کی افادیت منوانی ہوں گی۔ بزرگوں کے تجربات اور فہم و فراست کا فائدہ نئی نسل کو مل سکے، اس پر حکومت، ادیبوں، سماجی تنظیموں اور ہر خاص و عام کو سوچنا ہوگا، تبھی اس مسئلے سے کسی حد تک نجات پائی جا سکتی ہے۔
***
حوالہ جات:
۱۔ بڑھاپا شاعری، اکبر الہ آبادی، ریختہ ویب سائٹ
3
۲۔ گلِگڈُو(ہندی ناول)، چترا مُدگل، سامیک پرکاشن، نئی دہلی، پہلا ایڈیشن ۲۰۰۲ ؁ء، صفحہ نمبر ۱۳۸
۳۔ ایضاً ۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۳۶
۴۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۱۴
۵۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۳۹
۶۔ ایضاً ۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۹۶
۷۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۷۱
۸۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۵۹
۹۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۶۵
۱۰۔ نمبرسنجے گپت، روزنامہ جاگرن (نیشنل ایڈیشن)، ہندی روزنامہ اخبار،’’اپنوں کی ان دیکھی کا درد‘‘۔کشما شرما، نئی دہلی، ۱۱ جون ۲۰۱۷ ؁ ء
۱۱۔ گلِگڈُو(ہندی ناول)، چترا مُدگل، سامیک پرکاشن، نئی دہلی، پہلا ایڈیشن ۲۰۰۲ ؁ء، صفحہ نمبر ۶۸
۱۲۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۶۸
۱۳۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۶۶
۱۴۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۱۸
۱۵۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۲۷
۱۶۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۶۱
۱۷۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۶۱۔۶۲
۱۸۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۳۷
۱۹۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۳۳۔۳۴
۲۰۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۳۴
۲۱۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۶۳
۲۲۔ وردھّا وستھا کی دستک (بڑھاپے کی دستک) ہندی،سیما دکشت،سامیک پرکاشن، نئی دہلی، پہلا ایڈیشن ۲۰۱۶ ؁ ء، صفحہ نمبر۱۳
۲۳۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سکھی جیون(ہندی)، ڈاکٹر رام سنگھ، ودیا وہار پرکاشن، نئی دہلی، طبع ۲۰۱۲ ؁ ء، صفحہ نمبر۵۹
۲۴۔ گلِگڈُو(ہندی ناول)، چترا مُدگل، سامیک پرکاشن، نئی دہلی، پہلا ایڈیشن ۲۰۰۲ ؁ء، صفحہ نمبر ۹۶۔۹۷
۲۵۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۱۰۱
۲۶۔ ہندی اُپنیاس ساماجک سمسیائیں(ہندی ناول۔ سماجی مسائل) ہندی، ڈاکٹر نیلم صراف، ہندی کتاب سنٹر، نئی دہلی، صفحہ نمبر۱۰۶
۲۷۔ گلِگڈُو(ہندی ناول)، چترا مُدگل، سامیک پرکاشن، نئی دہلی، پہلا ایڈیشن ۲۰۰۲ ؁ء، صفحہ نمبر ۷۳
۲۸۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۷۳
۲۹۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۱۴۳
۳۰۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۱۴۴
۳۱۔ ایضاً۔۔۔۔۔۔صفحہ نمبر ۱۴۴
۳۲۔ نمبرسنجے گپت، روزنامہ جاگرن (نیشنل ایڈیشن)، روزنامہ ہندی اخبار،’’اپنوں کی ان دیکھی کا درد‘‘۔کشما شرما، نئی دہلی، ۱۱ جون ۲۰۱۷ ؁ ء
۳۳۔ وردھّا وستھا کی دستک (بڑھاپے کی دستک) ہندی،سیما دکشت،سامیک پرکاشن، نئی دہلی، پہلا ایڈیشن ۲۰۱۶ ؁ ء، صفحہ نمبر۱۰
۳۴۔ گلِگڈُو(ہندی ناول)، چترا مُدگل، سامیک پرکاشن، نئی دہلی، پہلا ایڈیشن ۲۰۰۲ ؁ء، صفحہ نمبر۹۳
۳۵۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سکھی جیون(ہندی)، ڈاکٹر رام سنگھ، ودیا وہار پرکاشن، نئی دہلی، طبع ۲۰۱۲ ؁ ء، صفحہ نمبر۵۳
۳۶۔ وردھّا وستھا کی دستک (بڑھاپے کی دستک) ہندی،سیما دکشت،سامیک پرکاشن، نئی دہلی، پہلا ایڈیشن ۲۰۱۶ ؁ ء، صفحہ نمبر۱۲۷
۳۷۔ وردھّا وستھا ومرش( بڑھاپا مباحث) ہندی،چندرمولیشور پرساد، نمبر رشبھ دیو شرما، پری لیکھ پرکاشن، نجیب آباد، پہلا ایڈیشن ۲۰۱۶ ؁ ء
***

Facebook Comments

عامر صدیقی
لکھاری،ترجمہ نگار،افسانہ نگار،محقق۔۔۔ / مائکرو فکشنسٹ / مترجم/شاعر۔ پیدائش ۲۰ نومبر ۱۹۷۱ ؁ ء بمقام سکھر ، سندھ۔تعلیمی قابلیت ماسٹر، ابتدائی تعلیم سینٹ سیوئر سکھر،بعد ازاں کراچی سے حاصل کی، ادبی سفر کا آغاز ۱۹۹۲ ء ؁ میں اپنے ہی جاری کردہ رسالے سے کیا۔ ہندوپاک کے بیشتر رسائل میں تخلیقات کی اشاعت۔ آپ کا افسانوی مجموعہ اور شعری مجموعہ زیر ترتیب ہیں۔ علاوہ ازیں دیگرتراجم و مرتبہ نگارشات کی فہرست مندرجہ ذیل ہے : ۱۔ فرار (ہندی ناولٹ)۔۔۔رنجن گوسوامی ۲ ۔ ناٹ ایکیول ٹو لو(ہندی تجرباتی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۳۔عباس سارنگ کی مختصرسندھی کہانیاں۔۔۔ ترجمہ: س ب کھوسو، (انتخاب و ترتیب) ۴۔کوکلا شاستر (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۵۔آخری گیت اور دیگر افسانے۔۔۔ نینا پال۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۶ ۔ دیوی نانگرانی کی منتخب غزلیں۔۔۔( انتخاب/ اسکرپٹ کی تبدیلی) ۷۔ لالٹین(ہندی ناولٹ)۔۔۔ رام پرکاش اننت ۸۔دوڑ (ہندی ناولٹ)۔۔۔ ممتا کالیا ۹۔ دوجی میرا (ہندی کہانیوں کا مجموعہ ) ۔۔۔ سندیپ میل ۱۰ ۔سترہ رانڈے روڈ (ہندی ناول)۔۔۔ رویندر کالیا ۱۱۔ پچاس کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۵۰ء تا ۱۹۶۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۲۔ ساٹھ کی دہائی کی بہترین ہندی کہانیاں(۱۹۶۰ء تا ۱۹۷۰ء) ۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۱۳۔ موہن راکیش کی بہترین کہانیاں (انتخاب و ترجمہ) ۱۴۔ دس سندھی کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۵۔ قصہ کوتاہ(ہندی ناول)۔۔۔اشوک اسفل ۱۶۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد ایک ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۷۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۸۔ ہند کہانی ۔۔۔۔جلد سوم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۱۹۔ہند کہانی ۔۔۔۔جلد چہارم ۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۰۔ گنگا میا (ہندی ناول)۔۔۔ بھیرو پرساد گپتا ۲۱۔ پہچان (ہندی ناول)۔۔۔ انور سہیل ۲۲۔ سورج کا ساتواں گھوڑا(مختصرہندی ناول)۔۔۔ دھرم ویر بھارتی ۳۲ ۔بہترین سندھی کہانیاں۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۴۔بہترین سندھی کہانیاں ۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۲۵۔سب رنگ۔۔۔۔ حصہ اول۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۶۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ دوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۷۔ سب رنگ۔۔۔۔ حصہ سوم۔۔۔۔(مختلف زبانوں کی منتخب کہانیاں) ۲۸۔ دیس بیرانا(ہندی ناول)۔۔۔ سورج پرکاش ۲۹۔انورسہیل کی منتخب کہانیاں۔۔۔۔ (انتخاب و ترجمہ) ۳۰۔ تقسیم کہانی۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۱۔سورج پرکاش کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۲۔ذکیہ زبیری کی بہترین کہانیاں(انتخاب و ترجمہ) ۳۳۔سوشانت سپریہ کی کہانیاں۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۴۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۵۔منتخب پنجابی کہانیاں ۔۔۔۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۶۔ سوال ابھی باقی ہے (کہانی مجموعہ)۔۔۔راکیش بھرامر ۳۷۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ اول۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۸۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ دوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) ۳۹۔شوکت حسین شورو کی سندھی کہانیاں۔حصہ سوم۔۔۔۔(انتخاب و ترجمہ) تقسیم کہانی۔ حصہ دوم(زیرترتیب ) گناہوں کا دیوتا(زیرترتیب ) منتخب پنجابی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) منتخب سندھی کہانیاں حصہ سوم(زیرترتیب ) کبیر کی کہانیاں(زیرترتیب )

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply