تھر کا سفر۔۔۔محمد احمد/پانچویں ،آخری قسط

جب تھر کے سفر کا ارادہ بنا تو کچھ احباب نے خصوصی فرمائش کی اور اپنی بھی ذاتی خواہش تھی تھر میں جو قادیانیت کے فروغ کی باتیں ہورہی ہیں اس کی حقیقت کیا ہے۔ہم مقامی علماء کرام سے بھی پوچھ رہے تھے انہوں نے بتایا مسلمان علائقوں میں قادیانی مشینری اتنی سرگرم نہیں جنتی ہندو اکثریتی علائقہ جات مثلا ًمٹھی ،ننگر پارکر اور اسلام کوٹ وغیرہ وہاں کا بنیادی مسئلہ افلاس،غربت اور بھوک بدحالی ہے۔اس وجہ سے مغربی این جی اوز اور قادیانی مشینری نے تھری لوگوں کو اپنا آسان ہدف اور شکار سمجھا ہے۔اس حوالے سے مستند اور درست معلومات کی انفارمیشن کے لیے  ہمارا رابطہ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے ضلع تھرپارکر کے مبلغ نوجوان عالم دین مولانا حنیف سیال صاحب سے ہوا ،وہ تین سال سے اس عظیم خدمت پر اس پسماندہ علاقے  میں مامور ہیں جو عند اللہ ماجور ہوگا( ان شاء اللہ)

مولانا صاحب نے ہمیں بتایا تھرپارکر میں قادیانی مشینری 1965 سے سرگرم عمل ہے ان کے مٹھی،ننگر پارکر اور اسلام کوٹ میں اپنے مراکز اور ہاسپٹل ہیں۔
اسلام کوٹ میں مزید کجھ عمارتیں بنوارہے ہیں۔ہم نے جب پوچھا کہ واقعی اس حکومت کے آنے کے بعد قادیانی مشینری مزید فعال ہوگئی ہے اور حکومت کی سرپرستی اور آشیرباد حاصل ہے؟ تو مولانا صاحب کا جواب نفی میں تھا کہ ان کی سرگرمیاں معمول کے مطابق جاری ہیں۔ان کا فرمانا تھا کہ البتہ ابھی حال ہی میں ہمیں رپورٹ ملی تھی کہ وہ  سکولز میں اپنا نصاب پڑھا رہے ہیں تو ہم نے  ڈی سی صاحب اور دیگر انتظامیہ کو خط لکھا جس پر فوراً  نوٹس لیا گیا اور کتابیں پڑھانی بند کردی گئی ہیں۔
مولانا صاحب فرمارہے تھے کہ یہ جو اخبارات میں رپورٹیں شائع ہوئی ہیں یہ سب میری تیار کردہ ہیں جو کہ قدیم ہیں اب ان کو حالیہ حکومت کی طرف سے منسوب کرکے چلایا گیا ہے۔جب ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ کے تین سال میں کوئی ایسا واقعہ کہ کوئی مسلمان قادیانی(العیاذباللہ ) ہوئے ہوں؟

ان کا جواب مکمل نفی میں تھا پورے تین سال میں کوئی ایسا واقعہ رپورٹ نہیں ہوا ہاں ماضی میں ایک دو واقعے ضرور ہوئے ہیں لیکن ایسے واقعات کی مثالیں بہت کم ہیں۔تھر میں قادیانیت کا شکار ہندو ہیں مثلاً  بھیل،میگھواڑ اور کولھی یہ لوگ ان کے پیسے اور نوکریوں کی لالچ میں قادیانیت قبول کررہے ہیں لیکن وہ بھی بس پیسے اور نوکری کی حد تک، اس  کے  بعد وہ واپس اپنے مذہب کی طرف پلٹ جاتے ہیں ہاں اپنی برادری کے نام ساتھ قادیانی کا لاحقہ ضرور لگاتے ہیں تاکہ ایڈ ملتی رہے۔ باقی تھر میں قادیانیوں کو پانچ سئو ایکڑ زمین کی الاٹمنٹ سے مولانا صاحب لاعلم تھے ان کا کہنا تھا ہم نے معلومات لی ہے ہمارے ذرائع کہتے ہیں یہ خبر مصدقہ نہیں ہے، تھر میں کہیں بھی قادیانیوں کو اتنی بڑی زمین الاٹ نہیں کی گئی ۔یہ جو آپ  نے ساری داستان ملاحظہ فرمائی ایک طرف خوش آئند ہے کہ مسلمان غربت اور مفلسی کے باوجود اپنے ایمان کی حفاظت کررہے ہیں۔اداروں،تنظیموں ،ٹرسٹوں کو چاہیے وہ اپنے نادار بھائیوں کی ضرورتوں کو پورا کرے اور وہاں مکاتب اور مدارس کا جال بچھائے ،ساتھ میٹھے کنوؤں اور خوراک کا بندوبست کرے،۔

ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے تھری بھائیوں کی ضرورتیں پوری کریں، کافی ادارے اور ٹرسٹ  کام کررہے  ہیں لیکن مزید   کام کی  بھی ضرورت ہے۔

مکالمہ ڈونر کلب،آئیے مل کر سماج بدلیں

تھر کا سفر۔۔۔محمد احمد/قسط1

تھر کا سفر۔۔۔ محمد احمد/2

تھر کا سفر۔۔محمد احمد/قسط3

Advertisements
julia rana solicitors

تھر کا سفر۔۔محمد احمد/قسط4

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply