اعترافِ جرم۔۔۔معاذ بن محمود

شروع میں وہ صرف گھورا کرتا تھا۔ میں آتی جاتی اپنے کام سے کام رکھنے کی کوشش کرتی۔ وہ مجھے کن انکھیوں سے گھورتا رہتا۔ اس کی گڑتی ہوئی نظریں میرے بدن پہ پسینے کی ٹھنڈی بوندوں کا باعث بن جاتیں۔ میرے دل کی دھڑکنوں کی رفتار گویا تیز سی ہو جاتی۔ خوف اور خوشی کے درمیان کہیں کوئی جذبات میرے سینے میں دہکنے سے لگتے۔ پر مجھے کہیں لاشعور سے پیغام آتا کہ اس کا مجھ میں دلچسپی رکھنا غلط ہے۔ میں اپنے وقار سے واقف تھی۔ احساس تھا کہ ایک عمر کے باوجود اب بھی میرے بارے میں سوچ کسی کی سانسیں بے ترتیب کر سکتی ہے۔ واقف تھی کہ ایک جوابی نظر کسی کے دل میں غلط فہمیوں کا ہیجان برپا کر سکتی ہے۔

مگر اک خوف تھا۔ میرے مسیحا میرا خیال کرنے والے وہ لوگ جو ہر بار گرنے پہ مجھے سہارا دیتے آئے، کیا میں کوئی بھی قدم اٹھانے کے بعد ان سے نظریں ملا پاؤں گی؟ وہ جو مجھ پہ اندھا بھروسہ کرتے ہیں، کیا میں ان کے سوالیہ نشانوں کا بوجھ اٹھا پاؤں گی؟ کیا میں ان اپنوں کا قرض ادا کر پاؤں گی جنہوں نے ہر بار میرے زخموں پہ مرہم رکھے؟ کیا میں ہر کمزور لمحے میں اپنا ساتھ دینے والوں کا ساتھ دے پاؤں گی؟ میرے پاس ان تمام سوالات کے جوابات نہ ہوتے۔ یوں میری سوچ مجھے کسی بھی جانب بڑھنے سے روک دیتی۔ شاید یہی ٹھیک رہتا۔ مگر ایسا رہ نہ سکا۔

ایک دن اس نے مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی۔ میرے لئے وہ شجر ممنوعہ تھا۔ میرا اور اس کا رشتہ جائز نہ تھا۔ میری ذات، میرا وجود کبھی اس کی قربت پہ میرے دل کو معاف نہ کرتا۔ مجھے معلوم تھا کہ ایک سخت گیر جسم، نسبتاً کم فہم، درشت لہجہ اور غبار آلود ماضی رکھنے کے باوجود اس کا حال مفلوک ہے۔ پر جانے کیا بات تھی کہ اسے اپنا مستقبل تابناک دکھائی دیتا۔ جانے کیا بات تھی کہ دنیا بھر سے معتوب و مغضوب ہونے کے باوجود وہ خود کو اوّل نمبر سمجھتا۔

پھر ایک دن ۔۔۔ سب کچھ جاننے اور ماننے کے باوجود بھی میں نے اس کی بات سننے کا فیصلہ کیا۔ شاید۔۔ شاید یہی میری غلطی تھی۔ میں نے اس کی بات سنی۔ اس نے مجھے خواب دکھائے۔ جیتے جاگتے خواب۔ حسین خواب۔ نایاب خواب۔ سہانے خواب۔ خوبصورت خواب۔ وہ خواب جن میں میرا مستقبل حسین تھا۔ اس نے مجھے یقین دلایا کہ وہ مجھے اپنی بانہوں میں کس کر یوں محفوظ کر لے گا جیسے کوئی کڑیل شہزادہ کسی نازک شہزادی کو تھام لیتا ہے۔ اس نے مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مجھے ہر طرح کی محبت دے گا، مجھے ہر طریقے سے خوش رکھے گا اور میری تمام خواہشات پوری کرے گا۔

میں نے یقین کر لیا اور اس کی بانہوں میں جا پہنچی۔

اور پھر۔۔۔ اس نے مجھ سے میری سب سے قیمتی شے کو ضرورت کے نام پہ لوٹنے کا مطالبہ کر ڈالا۔ وہ کہتا تھا آج اپنی عزت میری طاقت کے سامنے جھکا دو، میں ایک بہترین کل کا وعدہ کرتا ہوں۔ اس نے قسمیں کھائیں۔ مگر مجھے یقین نہ تھا۔ میں چاہنے کے باوجود ایک اچھے کل پہ یقین نہ کر پائی۔ یہ وہی تو تھا جس نے جانے کتنوں کا ماضی داغدار کیا، جانے کتنوں سے وعدے کر کے ہمیشہ مکرتا رہا اور جانے کتنوں کو ایسی ہی محبت اور مستقبل کا دعوہ کر کے ان کی عصمت تار تار کرتا رہا۔

میں تیار نہیں تھی۔ مگر پھر اس نے مجھے اپنی طاقت، اپنی مضبوطی اور مردانگی کسی اور کو بھنبھوڑ کر دکھائی۔ اب میں خوفزدہ تھی۔ میں اس کے حصار سے بھاگنا چاہتی تھی مگر شاید تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ اب میں اس کی قید میں تھی۔ اس نے مجھے یقین دلایا کہ میں کسی طرح جان چھڑا بھی لوں تو بھی وہ مجھے اتنا بدنام کر دے گا کہ میں کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہوں گی۔ میں نہتی تھی، کمزور تھی، وہ ہتھیاروں سے لیس، طاقت سے بھرپور۔ مجھے فتح کرنا اس کے لیے ناجائز تھا مگر وہ اپنی طاقت کے نشے میں چور تھا۔ اس کے لیے جائز ناجائز، حرام حلال، قانونی غیر قانونی سب حدیں بے نام تھیں بے کار تھیں۔ اس کی آنکھوں میں فقط ہوس تھی۔

اور پھر اس نے مجھے استعمال کر ڈالا۔ اب میں لٹ چکی تھی۔۔۔

اب تو یہ سب روز کا معمول بن چکا ہے۔ اب تک میرا سر تا پا اس پر کھل چکا ہے۔ وہ بلاتا ہے اور میں چلی جاتی ہوں۔ وہ جس انداز سے چاہتا ہے اپنی مرضی پوری کرتا ہے۔ ایک بار دبے الفاظ میں انکار کی کوشش کی تو اس نے میرے منہ کالا کرنے کے ثبوت میرے منہ پہ مارتے ہوئے دنیا کے سامنے رکھ دینے کی دھمکی دے ڈالی۔

میں اس کی مرضی ماننے پہ مجبور ہوں۔ دنیا کو ابتدا میں میرے چال چلن میری باتوں سے شک ہوا۔ میری بدکرداری کا یہ شک اب یقین میں بدل چکا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ وہ ہر روز میری عزت سے کھیلتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ وہ میرے وجود پہ قبضہ کر چکا ہے۔ میری زبان میرا قلم میرا برتاؤ اب میرا نہیں فقط اس کا ہے۔

میں آج اعتراف کرتی ہوں کہ میں نے اپنوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی اور ان کے بھروسے کا خون کیا۔ میں اپنے کیے پہ نادم ضرور ہوں البتہ وقار بہادر کے نظریہ ضرورت کے آگے لیٹنے پر مجبور ہوں۔

فقط

آپ کی اپنی۔۔۔

Advertisements
julia rana solicitors

انصاف کی دیوی!

Facebook Comments

معاذ بن محمود
انفارمیشن ٹیکنالوجی، سیاست اور سیاحت کا انوکھا امتزاج۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply