میرے آصف صاحب۔۔دانیال گھلو

آصف صاحب اور میرا تعلق بڑا عجیب سا تھا۔ وہ بیک وقت میرے دوست بھی تھے اور میرے حریف بھی۔۔ میرے محبوب بھی تھے تو میرے رقیب بھی۔۔ کبھی بے حد مشفق اُستاد محسوس ہوئے تو کبھی سرد مہری کی انتہا کر دی۔کہیں وہ میرے رہنما بنے تو کبھی اُنہوں نے ہی میرا راستہ روکا۔ الغرض حبیب یونیورسٹی میں داخلے کے بعد سے میری تمام تر محبتوں, رقابتوں اور نفرتوں کا محور و مرکز آصف صاحب کی  ذات رہی۔

2015 کے اوئل کی بات ہے جب میں نے حبیب یونیورسٹی کا پہلا اُردو لٹریڑی کلب ‘آرائشِ خیال’ کے نام سے شروع کرنے کا ارادہ کیا۔۔ اِس ضمن میں مجھے ایک سرپرست کی ضرورت تھی۔ میں اُن دِنوں آصف صاحب سے واقف نہ تھا اِس لئے کلب کی سرپرستی کی درخواست لئے سب سے پہلے میں نعمان نقوی صاحب کے پاس پہنچا۔ نعمان صاحب نے میرا مُدعا سُنا اور کہا کہ حبیب یونیورسٹی میں ایک اُردو کلب کا ہونا نہایت  ضروری ہے مگر اِس کی سرپرستی کے لئے آصف فرخی صاحب کے ہوتے ہوئے میں کسی بھی طور پر موزوں نہیں ہوں۔ اِس لئے آپ پہلے آصف صاحب سے اِس بابت بات کیجیے۔ خیر میں آصف صاحب کے پاس پہنچا, اُنہیں اپنا تعارف کروایا۔ جب اُنہیں پتہ چلا کہ میرا تعلق مُلتان سے ہے اور وزیر آغا قزلباش سے بھی تعلق داری ہے تو وہ کافی دیر تک مُلتان کی مختلف ادبی شخصیات کے متعلق باتیں کرتے رہے۔ کال پر بہاوالدین زکریا یونیورسٹی کے اُردو ڈیپارٹمنٹ کے ہیڈ جناب اسلم انصاری کا نمبر مِلا کر بات کروائی اور یوں اُس پہلی مُلاقات کا انجام اِس نہج پر ہوا کہ وہ میرے کلب کی سرپرستی کے لئے بخوشی راضی ہو گئے۔۔ اور یوں حبیب یونیورسٹی کے پہلے اُردو لٹریری کلب ‘آرائشِ خیال’ کی بُنیاد پڑنے کے ساتھ ساتھ آصف صاحب سے میرے منفرد نوعیت کے اِس تعلق کی شروعات ہوئی۔

آصف صاحب میرے محسن تھے۔ مجھ جیسے دبو اور شرمیلے انسان کے اندر کے سوشل ہمزاد کو آصف صاحب نے ہی جگایا۔ مُجھے آج بھی وہ دِن یاد ہے کہ جب 2015 کے کراچی ادبی میلے کے لئے والنٹیئر بھرتی کئے جا رہے تھے اور میں نہ جانے کس وجہ سے انٹرویو نہ دے پایا۔ ادبی میلے کے پہلے دِن میں یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں دوپہر کا کھانا کھا رہا تھا کہ آصف صاحب چلے آئے۔ آتے ہی اپنے مخوص انداز میں دریافت کیا ‘ارے تُم لٹریچر فیسٹیول پر کیوں نہیں گئے۔۔ میں نے جواب دیا کہ آصف صاحب میں انٹرویو نہیں دے پایا اِس وجہ سے میرا اب فیسٹول میں جانے کا جی نہیں چاہ رہا۔۔ آصف صاحب نے یہ سُن کر میرے سر پر ہلکی سی چِت لگائی اور کہا کہ تُم کل صبح 9 بجے مجھے بیچ لگژری کے ریسپشن پر مِلو۔ اگلے دِن میں مقررہ وقت پر بیچ لگژری کے ریسپشن پر تھا, تھوڑی دیر کے بعد مجھے آصف صاحب آتے دِکھائی دئیے۔ آتے ہی مُجھے بازو سے پکڑ کر ہُما بقائی صاحبہ کے پاس لے گئے اور کہا کہ اِسے والنٹیئر کی شرٹ اور کارڈ دے دیں۔۔ اسکے بعد پورے ادبی میلے کے دوران آصف صاحب کی کوشش رہی کہ مجھے ہر بڑے ادیب اور شاعر سے مِلوایا جائے اور باقاعدہ تعارف کروایا جائے۔۔ میں وہ وقت زندگی بھر نہیں بھول پاؤں گا کہ جب ادبی میلے کے اختتام پر ضیاء محی الدین صاحب نے جانے کا قصد کیا تو آصف صاحب نے درجنوں والنٹیئرز کے ہوتے ہوئے مجھے    سٹیج پر بُلایا اور کہا کہ ضیاء صاحب کو تُم گاڑی تک چھوڑ کر آؤ۔۔ پھر وہ میرے قریب ہوئے اور سرگوشیانہ انداز میں کہنے لگے کہ میں چاہتا ہوں کہ تُم ضیاء صاحب سے کچھ سوالات بھی کرو۔۔۔

آصف صاحب کے توسط سے بے شُمار کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا۔۔ بہت بار ایسا ہوا کہ راہ چلتے ہوئے اُنہوں نے کوئی کتاب پکڑا دی۔اِسی طرح کوئی نئی کتاب آئی تو سرسری سا پوچھ لیا۔۔ ہاں دانیال تُم نے وہ کتاب پڑھ لی؟ مہینوں تک مسلسل میری یہ عادت رہی کہ  بے دھڑک اُنکے کمرے کا دروازہ بجانا اور کہنا کہ آصف صاحب یہ پُرانی کتابیں رکھیے، میں پڑھ چکا اور کوئی نئی کتابیں عنایت کیجیے۔۔ یہ سُن کر آصف صاحب اُٹھتے اور اپنے کتابوں کے ڈھیر میں ہاتھ ڈال کر آدھ درجن کتابیں تھما دیتے۔۔

میری ایک بہت عجیب سی عادت ہے کہ جب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ کوئی میرے بہت زیادہ قریب ہو رہا ہے اور مہربان ہے تو میں اِس بات کے پیشِ نظر کہ کہیں روز کا مِلنا اہمیت گھٹا نہ دے, خود ہی اُس سے دوری اختیار کر لیتا ہوں۔ آصف صاحب کے معاملے میں بھی یہی کچھ ہوا۔ آہستہ آہستہ یہ فاصلے بڑھتے گئے اور ہمارے تعلقات میں سرد مہری آتی گئی۔ میں نے اُن کے دفتر میں جا کر کتابیں مانگنا موقوف کر دیا اور لمبی لمبی ادبی بحثیں قصہِ پارینہ بن گئیں۔ ایسے میں حاسدین نے موقع غنیمت جانا اور میرے خلاف آصف صاحب کے کان بھرنا شروع کر دئیے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب آصف صاحب نے مُجھے یکسر نظرانداز کر دیا۔ اُنہوں نے اُردو کے پرچے رومن میں لکھنے والوں کو مجھ پر فوقیت دینی شروع کر دی۔ ایک طویل عرصے تک آصف صاحب کی شفقت اور توجہ کا مرکز رہنے کے بعد یہ بے رُخی میرے لئے ناقابلِ برداشت تھی۔۔ میں نے  بارہا مختلف طریقوں سے اِس بات کا اظہار بھی کیا مگر تعلقات کی بہتری کی کوئی صورت نہ نکلی۔

جیسا کہ میں پہلے بتا چُکا کہ میرے اور آصف صاحب کے تعلقات کی شروعات آرئشِ خیال کلب تھا اور حُسنِ اتفاق دیکھیے کہ اختتام کا باعث بھی یہی کلب بنا۔ شروع شروع میں جب یہ کلب بنا تو ہمارے بیچ میں ایسے لوگ کم ہی تھےجو اُردو ادب سے شغف رکھتے تھے اور پھر بعد میں جب طلباء کی تعداد بڑھی تو آصف صاحب اور میرے باہمی تعلقات کی خرابی کے باعث اُنہوں نے میرے ساتھ کام کرنے میں دلچسپی نہ لی اور یوں اس تمام عرصے میں یہ کلب غیر فعال ہی رہا۔ پھر جب چھٹے سمسٹر میں نئے بیچ کی آمد ہوئی تو اُس میں کافی لوگ ایسے تھے جو ادب سے شغف رکھتے تھے۔ جب مجھے اِس بابت پتہ چلا کہ یہ نئے لوگ ایک نیا اُردو کلب شروع کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں تو میں نے سوچا کہ ایک نیا کلب شروع کرنے سے بہتر ہے کہ یہ آرائشِ خیال کو ہی فعال کر لیں۔۔ میں نے اُنہیں یہ تجویز دی اور وہ لوگ میری بات مان گئے۔ مگر اِس امر میں ایک آئینی رکاوٹ یہ تھی کہ پہلے سمسٹر کے طالبعلم کلب کو چلانے کے اہل نہیں ہوتے۔ میں نے بانیِ کلب کے طور پر کلب کے آئین میں تبدیلی کی اور تمام تر اختیارات جونئیرز کو منتقل کر دئیے اور خود کلب کے انتظامی عہدے سے علیحدہ ہو گیا۔ اب چونکہ میں کلب کا باقاعدہ حصہ نہیں رہا تھا تو ایسے میں آصف صاحب نے بھی کلب کے معاملات میں دلچسپی لینی شروع کر دی۔۔ اور یوں دیکھتے ہی دیکھتے آرائشِ خیال کلب حبیب یونیورسٹی کا سب سے فعال ترین کلب بن گیا۔ کلب کو پروان چڑھتا دیکھ کر میں خوش تھا مگر دُکھ اُس وقت ہوتا تھا جب کلب کی تاریخ ہی نئے بچوں سے شروع کی جاتی۔۔ ہر ایونٹ کے آغاز پر کلب کے لئے لکھی گئی میری نظم پڑھ کر بھی سُنائی جاتی مگر کسی کو یہ نہ بتایا جاتا کہ اِسکا شاعر کون ہے۔۔

آصف صاحب کے دِل میں میرے لئے تلخی روز بروز بڑھتی گئی۔۔ کتنے ہی ایسے ایونٹ گُزرے کہ جن کی نظامت آصف صاحب کی تجویز پر مُجھ سے چھین کر کسی دوسرے کو دے دی گئی۔۔ میں اتنا دلبرداشتہ ہوا کہ شکایت تک کرنا چھوڑ دی۔ میں نے اپنے طور پر اِس ناانصافی کا حل یہ نکالا کہ کلب کے  پروگراموں  میں شرکت کرنا ہی ترک کر دیا۔

فیکلٹی میں میرے بہت سے مہربان ہیں۔ اُنہوں نے آصف صاحب اور میرے پہلے کے تعلقات کو دیکھتے ہوئے اِس حالیہ سرد مہری کو محسوس کیا اور مصالحت کے اسباب پیدا کرنے شروع کر دئیے۔ ایک دِن ایک پروفیسر نے مجھے اپنے دفتر میں بُلایا اور اِس بابت دریافت کیا کہ میں نے کونسی ایسی گستاخی کی ہے جو یوں راندہِ درگاہ ٹھہرا ہوں۔۔ میں نے اُنہیں اپنے دِل کی کتھا کہہ سُنائی۔۔ اُنہوں نے مُجھے مشورہ دیا کہ اگر تُم اِس دوری کو واقعی ختم کرنا چاہتے ہو تو تُم آصف صاحب سے جا کر اِس بابت سوال کرو اور اُنہیں کہو کہ اگر تُم سے کوئی کوتاہی سرزد ہوئی ہے تو تمہیں بچہ سمجھ کر معاف کر دیں۔۔ میں نے ایسا ہی کیا اور ایک دِن آصف صاحب کے دفتر پہنچ گیا۔۔ میری بات سُن کر آصف صاحب ہنسنے لگے اور کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے, تُم مجھے ہمیشہ سے عزیز تھے اور رہو گے۔۔ اگرچہ اِس واقعے کے بعد سے ہمارے تعلقات میں کچھ بہتری تو آئی مگر پہلے جیسی گرم جوشی بہرحال نہ آ سکی۔

آصف صاحب ہی نے مُجھے یہ احساس دِلایا تھا کہ انجینئرنگ سے آگے جہان اور بھی ہیں۔۔ مگر پھر جب میں نے ان انجینئرنگ سے سوشل سائینسز میں انتقال کروایا تو آصف صاحب نے ہی اسے میری نالائقی گردانا اور گاہے بگاہے اِس کا اظہار کرتے رہتے تھے۔ مجھے اِس بات کا اقرار کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ آصف صاحب کے مجھے یوں نظرانداز کرنے کے بعد سے ہی میں نے اُنہیں غلط ثابت کرنے اور کراچی کے سوشل حلقوں میں نام بنانے کے لئے ایکٹوزم شروع کی۔۔ میں پاکستان پیپلز پارٹی سے وابستہ ہوا, ریڈ یوتھ نام کی ایک تنظیم کی بُنیاد رکھی۔۔ اس سب کی تحریک آصف صاحب کو کُچھ کر کے دِکھانا تھا اور اپنے بارے میں اُنکی رائے کو تبدیل کرنا تھا۔

فروری میں ہونے والا آخری ادب فیسٹول آصف صاحب اور مجھے ایک بار پھر سے قریب لے آیا۔ میں ہمیشہ کی طرح آصف صاحب سے دوری برقرار رکھے  ہوئے تھا کہ اُن کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ دور سے مجھے اشارہ کر کے دریافت کیا کہ تُم کاہے چُھپے پھر رہے ہو۔ اُس وقت معروف شاعرہ شاہدہ حسن کو اُنکا ادب فیسٹول کا بیگ نہیں مِل رہا تھا۔ آصف صاحب نے پہلے کی طرح اُنہیں میرا تعارف کروایا اور پھر مجھے کہا کہ اِنہیں میں تمہارے سپرد کر رہا ہوں۔۔ انہیں اندر سے انکا بیگ لا کر دو۔۔ اِس کے بعد پورے فیسٹیول کے دوران وہ وہی میرے شروع کے دِنوں والے آصف صاحب رہے۔۔۔ اور وہی اُن سے میری آخری مُلاقات تھی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

دو روز پہلے  جب فیس بُک  آیا تو احمد شاہ صاحب کی وال پر یہ اندوہناک خبر پڑھنے کو مِلی کہ آصف فرخی اب ہم نہیں رہے۔۔ مُجھے اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔۔ میں نے فوراً اُنکا نمبر مِلایا جو بند تھا۔۔۔ میرے لئے یہ یقین کرنا ممکن نہ تھا کہ آصف صاحب چلے گئے ہیں۔۔ ابھی کل ہی تو میں نے ایک افسانہ لکھا تھا جو میں اُنہیں بھیجنے کا ارادہ رکھتا تھا۔۔ کل سے رہ رہ کر آصف صاحب کی ایک ایک بات یاد آ رہی ہے۔۔ اُن کا اُٹھنا بیٹھنا۔۔ اُن کا بولنے کا انداز۔۔ عینک کو ماتھے پر ٹکا کر کتاب پڑھنا۔۔ تین بار واہ واہ واہ کہہ کر داد دینا۔۔ انکا وہ شرارتی انداز میں چلتے پھرتے فقرے اُچھالنا۔۔ آہ۔۔ سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہے۔۔ نہیں ہیں تو بس میرے آصف صاحب نہیں ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply