میں بھی آ گیا ہوں۔۔۔ مولوی فضل اللہ

میں بھی آ گیا ہوں۔۔۔ مولوی فضل اللہ

Advertisements
julia rana solicitors

رات کا نجانے کون سا پہر تھا کہ آنکھ کھل گئی۔ کانی آنکھ سے اردگرد دیکھا تو نور کا ایک ہالہ تھا۔ بس تراہ کے ساتھ چیخ بھی نکلنے کو تھی کہ حضرت نے مسکراتے ہوئے لبوں پر انگلی رکھی اور خاموشی کا اشارہ دیا۔ ڈرتے ڈرتے اٹھ بیٹھا تو دیکھا حضرت چار زانو بیٹھے ہیں، مسکرائے جاتے ہیں اور اک نور کا ہالہ ہے جو چہرے کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ دل نے گواہی تو دی مگر دماغ نے ثبوت مانگا۔ اٹکتے ہوے کہا کہ آپ۔۔۔؟ ارشاد ہوا “ہاں ہم مولوی فضل اللہ۔”
دھڑکتے دل اور کانپتی ٹانگوں سے ان کے سامنے بیٹھا اور عرض کی ادھر کدھر؟ بولے “وظیفہ پڑھ رھا تھا سوچا تم سے ہی مل آوں۔ انٹرویو دینے کا دل تھا۔” عرض کی جناب اتنی دور جو آئے پاکستان میں ہی نوفل ربانی یا اوریا مقبول جان کو مل لیتے۔ ارشاد کیا کہ “نہیں میں چاہتا ہوں میری بات کو سنجیدہ لیا جائے”۔ عرض کی کہ میرا تو صحافتی تجربہ بھی کچھ خاص نہیں، میرے دوست وسی بابا شاید مناسب رہیں، ویسے بھی وہ آجکل ملاقاتیں فرما رہے ہیں۔ چہرے پر ایک ناگواری آئی اور بولے “اس کی پہنچ جہاں تک تھی وہ پہنچ گیا۔ ویسے بھی کیا پتہ سال دو سال بعد کوئی مزاحیہ قصہ نا بنا دے۔ تو کفران نعمت نا کر، انٹرویو کر۔”
حضرت کے چہرے پر کچھ کرختگی تھی سو میں نے مزید الجھنا مناسب نا سمجھا۔ اور تو کچھ نہ سوجھا سو سوال کیا کہ آخر آپ اتنے سخت گیر اور دہشت پسند کیوں ہیں۔؟ لبوں پر تبسم آیا ، کشادہ پیشانی کا تناؤ کم ہوا اور ارشاد کیا کہ “کس نے کہا میں سخت اور دہشت پسند ہوں؟ میں تو طالبان کا لبرل ہوں۔” یا حضرت، حیران ہو کر میں بولا کہ یہ طالبان لبرل کیا ہے؟ بولے “اگر لبرل طالبان ہو سکتا ہے تو طالبان لبرل کیوں نہیں؟ میں تصویر اترواتا ہوں، ریڈیو استعمال کرتا ہوں، ہمیشہ مسکراتا ہوں، حتی کہ گردن کاٹتے وقت بھی، تو طالبان لبرل ہوں۔ باقی رہا دہشت پسندی کا سوال، تو میں تو ہمیشہ سے عوامی اور جمہوری ذہن رہا ہوں۔ سوات میں میں نے عوامی ریڈیو قائم کیا، لوگوں کو عوامی طریقے سے اپنے ساتھ ملایا، انکو ساتھ ملا کر ایک مظبوط حکومت قائم کی اور انکی مرضی کے مطابق حکومت کی۔ میرے دور میں امن تھا، شیر بکری ایک گھاٹ پر پانی پیتے تھے اور عورتوں کی عزت حفاظت سے تھی”۔ مگر حضرت اخبارات تو کچھ اور کہتے ہیں؟ ارشاد ہوا کہ “اخبارات لبرل طالبان کے نمائندے ہیں۔ وہ ہماری بات کو مکمل سچائی سے بیان نہیں کرتے، پاکستان کی عوام کو نیا بیانیہ بنانا ہو گا اور ایسے شدت پسند میڈیا سے جان چھڑانی ہو گی”۔
ڈرتے ڈرتے سوال کیا کہ آپ کے ہاتھوں پر ان گنت بے گناہوں کا لہو ہے۔ حضرت کے چہرے پر ناگواری آئی اور ارشاد کیا کہ “وکیل ہوتے ہوے بھی ایسی بات؟ وہ بے گناہ کیسے تھے؟ کیا کسی عدالت نے انکو بے گناہ کہا؟ جب تک وہ بے گناہ ثابت نہیں ہوتے انکو بے گناہ کیسے کہ سکتے ہو؟” مگر حضرت انکا قتل تو ہوا۔ بولے “ہاں قتل تو ہوئے۔ مگر حالات بدلے ہیں۔ جب سے میں آیا ہوں، دیکھو ایسے واقعات میں کیسی کمی آئی ہے۔ میں اکثر اپنے ساتھیوں کو سمجھاتا رہتا ہوں۔ حکومت حیران ہو جاتی ہے کہ انکے اقدامات کے باوجود طالبان میں وہ شدت کیوں نہیں رہی۔ وہ نہیں جانتے کہ اس سب کی وجہ میرا تدبر اور متانت ہے جو ساتھیوں کا غصہ تھنڈا کر دیتی ہے۔” ڈرتے ہوے عرض کی کہ مگر ان واقعات میں کمی کا کریڈٹ تو فوج اور حکومت کو جاتا ہے شاید جو مسلسل آپ کے پیچھے ہیں۔ چہرے پر بیزاری آئی اور بولے،” کی نا پھر لبرل طالبان والی بات۔ بھلا حکومت کی کیا اوقات ہے۔ یہ سب اس لیے ہے کہ میں آ گیا ہوں۔ اور ویسے بھی میں چاہتا ہوں کہ حالات بدلیں اور نئے بیانیہ کے تحت معاملات ہوں۔ بس لوگ سب کچھ بھول کر مجھے بھی سپیس دیں اور آئندہ ایسے اقدامات سے گریز کریں جن پر غصے میں آ کر ہم قتل کریں اور بالکل فکر نا کریں، اب میں بھی آ گیا ہوں”۔
میں نے انٹرویو سمیٹے ہوے کہا کہ کیا اپنے کیے ہوئے جرائم اور قتال پر کوئی شرمساری ہے؟ گورے چٹے چہرے پر لالی چھا گئی اور بولے “کیا احسان اللہ، لدھیانوی اور دیگر کو ہے؟ تم لبرل طالبان کو کب سمجھ آئے گی کہ اگر ہم دوستی کرنا چاہیں تو کوئی سوال کرنا بیانیہ کی حرمت کے خلاف ہے، بس ہمارا آنا قبول کرو اور جو موقف دیں وہ چھاپ دو، ایسے دل دکھانے والے سوال کر کے تم لوگ اپنی شدت پسندی کا ثبوت دیتے ہو۔۔ مجھے بھی سپیس چاہیے تاکہ اس سپیس پر بیٹھ کر میں نیا بیانیہ دوں۔ جانتا ہوں تم لوگ فکرمند ہو، مگر کچھ سپیس مجھ کو بھی دو اور فکر نا کرو، اب میں بھی آ گیا ہوں”۔ یہ کہتے ہوے حضرت نے مجھے اس زور سے گلے سے لگایا کہ میری چیخ نکل گئی۔
دیکھا تو میں بیڈ سے زمین پر گرا تھا اور اور جسم پسینے میں نہایا تھا۔ جانے جو دیکھا حقیقت تھی یا خواب تھا، زمین تھی یا سپیس۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply