عبداللہ کو بچاؤ

مشعال کو خدا کے حوالے کر دیا گیا۔۔۔ ملالہ کو دوسروں کے آلہ کار کے طور پر مشہور کر دیا گیا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے نوبل پرائز کو عوام ماننے کے لئیے تیار نہیں۔ شرمین عبید کو ملک کی خدمت اور سچ بولنے پر عوام غدار کا خطاب دینے پر تلی ہوئی ہے۔ مودودی ؒ آتے ہیں تو یہودیوں سے زیادہ خطرناک ہونے کے طور پر مشہور کر دئیے جاتے ہیں۔ غامدی صاحب آتے ہیں تو فتنہ قرار دے دیئے جاتے ہیں۔ کبھی نواز شریف کو پانامہ کافاتح کہہ دیا جاتا ہے تو کبھی عمران خان یو ٹرن کے نام سے جانا جاتا ہے۔سلمان تاثیر سے عدالت کے ٹرائل کے بغیر ہی زندگی چھین لی جاتی ہے۔ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں نرم گوشہ رکھنے والے کو ان سے بھی بدتر سمجھا جاتا ہے۔۔۔۔ صد افسوس! عبداللہ(اللہ کا بندہ) انہی بابرکت پہروں کا مسافر ہے۔ یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بھی بہت سے نظریات سے متعارف ہوتا ہے۔ اس نے بہت سی چیزوں کو جو بے بنیاد دلیلوں پرنظریات میں سرائیت کر گئی تھیں ، ان سے کنارہ کشی اختیار کر لی اور جو چیزیں عین فطرت کے مطابق تھیں انہیں اپنا لیا۔ اس معاشرے کے مطابق یہ ایک ناقابل معافی جرم ہے کیونکہ ہمارا معاشرہ اس چیز کو دین اور آباؤ اجداد کے اصولوں کے منافی سمجھتا ہے۔عبداللہ نے جو کیا اس کا مقصد خالصتاً رضا ئے الٰہی کا حصول تھا۔ اس نیک جذبے کی پوری قدر کرتے ہوئے اس نے ایمانداری کے ساتھ بوسیدہ نظریات کو چھوڑ کر جدید نظریات کو اپنایا لیکن اس کا معاشرہ اس کے اس نیک جذبے اور کام کو شیطانی کاوشوں کا صلہ سمجھتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی آواز اور نظریے کو دبانے کے درپے ہے۔
معاشرے کے اس دردناک رویے کا ایک خطرناک نتیجہ ابھرتا ہے۔ عبداللہ مندرجہ بالا لوگوں کے ساتھ برتاؤ کو دیکھ کر منافقانہ طرز زندگی اپنا لینا چاہتا ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ عبداللہ کو پورا موقع ملے کہ وہ اپنے نظریے کو لوگوں کے سامنے رکھے۔ لوگ اسے دلیل کی بنیاد پر پرکھیں۔ اگر عبداللہ دلیل مہیا نہیں کر پاتا تو اس کا احتساب کریں لیکن افسوس۔۔۔ اس معاشرے نے کبھی ایسا خواب بھی سوچنے کی زحمت نہیں کی۔ ممکن ہے کہ عبداللہ اپنے ان نظریات کے ساتھ ہی دنیا سے رخصت ہو جائے لیکن ہمارا معاشرہ اپنی کم علمی کی بنیاد پر اس جیسے عظیم لوگوں کو خاموش رہنے پر مجبور کر رہا ہے۔ موت تو آنی ہے اور ہر کسی کو مقررہ وقت پر خالق حقیقی کے پاس جانا ہے لیکن جب لوگ خدا کے حق کو نبیﷺ کی اجازت کے بغیر خود استعمال کرنے پر تل جائیں گے تو ایسے لوگ خاموشی سادھ لیں گے۔ خدارا کسی کے ساتھ ایسے نہ کیا جائے۔ اس عمل سے معاشرے میں نئی چیزوں کی دریافت رک رہی ہے۔ فیصلوں اور سزاؤں کا حق عدالتوں اور ادارو ں کے پاس ہی رہنے دیا جائےورنہ بدامنی ہر جا اپنا ڈیرہ جما لے گی، اور اعلیٰ ذہنوں کے مالک لوگ اپنے آپ کو چھپاتے چھپاتے مر جائیں گے۔ اس کا نقصان انہیں نہیں بلکہ معاشرے کو ہی ہو گا۔ اگر ہم خدا کی بیان کرد ہ حدوں اور قانون کے دائرے میں رہیں تو یہ لوگ ظلم و زیادتی سے بچ جائیں گے، اور معاشرہ بھی ان سے فیض یاب ہو گا۔ہمارا معاشرہ ارض پاک کے وجود میں آنے کے بعد ایک دفعہ بھی کسی پلیٹ فارم پر جمع نہیں ہوا اگر قوم کی سوئی یہیں اٹکی رہی تو مشعال مرتے رہیں گے، ملالہ و شرمین جیسی عظیم بیٹیاں ارض پاک سے دور چلی جائیں گی، کوئی عبدالسلام نہیں بنے گا اور نہ ہی جمود کو توڑنے والا کوئی عالم پیدا ہوگا۔

Facebook Comments

عمیر ارشد بٹ
مرد قلندر،حق کا متلاشی، علاوہ ازیں سچ سوچنے اور بولنے کا عادی ہوں۔ حق بات کہتے ہوۓ ڈرنے کا قائل نہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply