بیس برس کےلئے تاریخی فیصلہ

سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ نے مشہور پاناما لیکس کیس پر ستاون روز بعد محفوظ کیا ہوا فیصلہ سنا دیا ہے جس کے تحت پانچوں جج حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ وزیر اعظم اور ان کے صاحبزادے آفشور کمپنیز اور غیر ملکی املاک کے متعلق عدالت کو مطمئن نہیں کر سکے تاہم تین ججز نے اس پر وزیر اعظم کی فوری نا اہلیت کا فیصلہ نہیں دیا جبکہ دو ججز نے انہیں عوامی عہدے کے لیے نا اہل قرار دیا ہے۔ البتہ لارجر بنچ نے متفقہ طور پر ایک جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنانے کا حکم جاری کیا ہے جسے سات روز کے اندر تشکیل دیا جائے گا اور تشکیل کے دو ماہ کے اندر یہ ٹیم ان تمام معاملات کی تفتیش کر کے سپریم کورٹ میں پیش کرے گی۔ یہ ٹیم ملٹری انٹیلیجنس، آئی ایس آئی، ایف آئی اے، سٹیٹ بنک اور ایس ای سی پی کے افسران پر مشتمل ہوگی اور ہر پندرہ روز بعد سپریم کورٹ کو اپنی کارکردگی سے آگاہ کرے گی۔
اس فیصلے کے بعد ملک بھر میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے۔ حکمران مسلم لیگ اس فیصلے کو اپنی مکمل فتح قرار دے رہی ہے جبکہ تحریک انصاف اپنی فتح کے شادیانے بجا رہی ہے۔
دوسری جانب قانونی ماہرین اس امر پر زیر لب مسکرا رہے ہیں کہ یہ وہ فیصلہ ہےجس کے متعلق معزز ججز نے کہا تھا کہ ایسا فیصلہ دیا جائے گا جسے آئندہ دو دہائیوں تک نظیر سمجھا جائے گا۔ پاکستانی قوانین کی شدبد رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ ملک میں رائج قوانین کے تحت وائٹ کالر جرائم کی تفتیش تو مشکل ہے ہی لیکن ان پر عدالت میں کچھ ثابت کرنا مشکل تر ہے۔ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ اشرافیہ نے ایسے جرائم کے متعلق کبھی واضح قوانین ہی نہیں بنائے جن کے تحت اس طبقے کے مالی جرائم کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہو۔ ان حالات میں سپریم کورٹ کی جانب سے طویل سماعت کے باوجود کوئی واضح فیصلہ نہ کرپانے کی وجہ سمجھنا چنداں مشکل نہیں۔ معزز ججز کے فیصلے سے یہ ہویدا ہے کہ وہ وزیر اعظم کے موقف سے مطمئن نہیں ہیں لیکن قانونی طور پر ان کے خلاف واضح حکم جاری کرنے سے معذور ہیں۔
سیاسی محاذ پر اس فیصلے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے، اس کے لیے ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارےملک میں سیاست کا بنیادی ڈھانچہ کن بنیادوں پر استوار ہے۔ اگر یہ فیصلہ کسی مہذب ملک اور مستحکم جمہوریت والے ملک میں آیا ہوتا تو وزیراعظم کو عدالتی کارروائی سے قبل ہی سٹیپ ڈاؤن کرنا پڑجاتا لیکن یہ پاکستان ہے۔۔۔ یہاں عدالتی فیصلوں کی تعبیر میں اخلاقیات نہیں بلکہ قانونی موشگافیوں کا سہارا لینے کا سیاسی کلچر عام ہے۔ ہم وہ لوگ ہیں جو دن رات خلافت راشدہ جیسے نظام کے خواب دیکھتے ہیں لیکن عملی طور اس اخلاق و کردار کی پرچھائیں بھی ہم میں نظر نہیں آتی۔ یہی کچھ اس وقت ہمارے سیاسی منظرنامے پر ہو رہا ہے۔ حکمران جماعت اور خود وزیر اعظم اس فیصلے کو اپنے لیے کلین چٹ قرار دے کر تحریک انصاف کی ناکامی کا ڈھول پیٹ رہے ہیں۔ عملی طور پر وزیر اعظم کے اپنے عہدے پر برقرار رہتے ہوئےان کے خلاف کسی شفاف تحقیقات کی امید نہیں کی جاسکتی۔ یہ بات یاد رہنی چاہیے کہ جس وزیر اعظم کے خلاف عدالت عظمیٰ کے معزز ججز کے سامنے کوئی سرکاری ادارہ کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا، ان کے خلاف ڈائریکٹرز اور ڈپٹی ادائریکٹرز کی سطح کے افسروں کی ٹیم کیا ثبوت مجتمع کر پائے گی۔
ان سطور کے تحریر کیے جانے کے وقت جو آخری اطلاعات موصول ہوئیں، ان کے مطابق وزیر اعظم آج شام قوم سے خطاب کریں گے۔ اگرچہ یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے خطاب میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کیا کہیں گے تاہم ایک خواہش ہے کہ اگر ہمارے ہاں سیاسی اخلاقیات کا معیار مہذب ممالک جیسا ہوتا تو وزیر اعظم آج قوم سے خطاب کے دوران اپنا استعفیٰ پیش کر دیتے اور بغیر کسی سرکاری عہدے کے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوتے ۔۔۔ لیکن شاید اس اخلاقی معیار پر پہنچنے کے لیے ہمیں مزید پانچ سو سال کی جمہوریت درکار ہے کیونکہ بحیثیت قوم ہمارے سیکھنے کا عمل گھونگے سے بھی سست تر ہے۔

Facebook Comments

ژاں سارتر
ہر شخص کے کہے یا لکھے گئے الفاظ ہی اس کا بہترین تعارف ہوتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply