حکومت تاریخیں دینے کے بجائے بجلی بحران پر قابو پائے

حکومت تاریخیں دینے کے بجائے بجلی بحران پر قابو پائے
طاہر یاسین طاہر
وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ ملک میں بجلی کے موجودہ بحران پر آئندہ 8 سے 10 روز میں قابو پالیا جائے گا۔ریڈیو پاکستان کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک کے مختلف شہروں میں طویل لوڈ شیڈنگ سے متعلق قومی اسمبلی میں توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ بجلی کی ترسیل کی صورتحال میں جمعرات(آج) سے بتدریج بہتری آنا شروع ہوجائے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ 2 ہزار 200 میگاواٹ کے بجلی گھر مرمت کے لیے بند ہیں، شیخوپورہ میں افتتاح کیے جانے والے بجلی گھر سے 760 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی، جبکہ یکم مئی کے بعد غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی۔وفاقی وزیر کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں بجلی کی طلب اور رسد میں فرق 5 ہزار 200 میگاواٹ ہے جبکہ رواں سال کے آخر تک 6 ہزار 400 میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل کی جائے گی۔
دوسری جانب ظالمانہ لوڈ شیڈنگ کے باعث ملک کے مختلف شہروں میں شدید احتجاج کیا جا رہا ہے۔ گذشتہ سے پیوستہ روز بھی ملک کے دیگر شہروں کی طرح ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل کمالیہ میں بھی شہری سڑکوں پر نکل آئے اور حکومت مخالف نعرے لگائے،جبکہ کئی مظاہرین احتجاجاً سڑک پر لیٹ بھی گئے۔ جبکہ بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی ملتان کے ہوسٹل میں مقیم طلبہ بجلی کی بندش کے خلاف سڑکوں پرنکل آئے۔حکومت مخالف نعرے لگائے اور گاڑیوں کو روک دیا۔بہاولپورمیں تحریک انصاف کےکارکنوں نے بینرز اٹھا کر لوڈ شیڈنگ کے خلاف ملتان روڈ پر احتجاج کیا اور نعرے لگائے۔
یہ امر واقعی ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے ملک میں توانائی کا شدید بحران ہے۔نوے کے عشرے کے بعد آنے والے جمہوری وغیر جمہوری حکومتوں میں سے کسی نے بھی مستقبل کی توانائی ضروریات کا اندازہ نہیں لگایا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی کام کیا بلکہ دعووں اور نعروں کے ذریعے ہی اپنا اپنا وقت گذارا ۔سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کے عہد میں لوڈشیڈنگ بالکل نہیں ہوتی تھی،بجلی کی طلب اور رسد قریب قریب برابر ہی تھی۔ یہ ان کی انتظامی صلاحیت تھی یا آئی پی پیز کو بر وقت ادائیگیاں کی جاتی تھیں، وجہ کوئی بھی ہو،یہ ظالمانہ لوڈشیڈنگ نہ ہوتی تھی۔ اس لوڈشیڈنگ کا آغاز نگران حکومت کے دور میں ہوا،انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت بنی اور اس حکومت نے بھی سنجیدگی سے توانائی بحران پر قابو پانے کے بجائے بجلی بحران کو رینٹل طریقے سے حل کرنے کی کوشش کی۔ یہ ایک ایسا ناکام منصوبہ تھا جو الٹا پیپلز پارٹی کے گلے پڑ گیا۔پیپلز پارٹی نے جب اس حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کی تو اس وقت بڑی دیر ہو چکی تھی۔پیپلز پارٹی کی حکومت نے اگرچہ بجلی کے چند منصوبوں کا آغاز بھی کیا مگر وہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں تکمیل تک نہ پہنچ پائے۔طلب اور رسد کے شدید فرق نے انتظامی صلاحیتوں پر بھی سوال اٹھایا۔
بجلی اور گیس کی شدید لوڈشیڈنگ پیپلز پارٹی کو 2013 کے انتخابات میں لے ڈوبی۔
مسلم لیگ نون نے اپنا الیکشن جیتا ہی اس بنیاد پہ کہ ان کے پاس تجربہ کار اور با صلاحیت ٹیم ہے جو 6 ماہ،سے لے کر دو سال تک لوڈشیڈنگ مکمل ختم کر دے گی۔نون لیگ کی حکومت نے آتے ہی آئی پی پیز کو یکمشت ادائیگیاں کیں اور فرنس آئل سے بجلی پیدا کروا کے لوڈشیڈنگ کی ترتیب بھی درست کی۔ یعنی ہر ایک گھنٹہ بعد ایک گھنٹہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کی جاتی تھی۔ اس طرز حکومت سے عوام میں امید پیدا ہو چلی تھی کہ نون لیگ بجلی کے بحران پہ قابو پا لے گی۔مگر اصل واقعہ یہ تھا کہ نون لیگ نے بھی تیز رفتار منصوبوں پر کام کرنے کے بجائے نوٹ چھاپے،ادائیگیاں کیں اور پہلے اور دوسرے سال میں لوڈ مینجمنٹ کے طریقہ کار میں نظم پیدا کر کے امیدوں کو مہمیز کر دیا۔ساتھ ہی یہ بھی کسی نہ کسی عوامی جلسہ میں یاد کرایا جاتا رہا کہ ہم نے ایک سال اور دو سال میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے خاتمے کی تاریخیں دی تھیں مگر بحران اس سے شدید تر ہے،اس لیے 2017 میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کر دیں گے، پھر یہ تاریخ 2018 کی دی گئی۔
ہمیں اس امر میں کلام نہیں کہ نون لیگ کی حکومت نے بجلی کے کچھ نئے منصوبے اور پاور پلانٹس کا افتتاح ضرور کیا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اب تک نیشنل گرڈ میں شامل ہونے والی بجلی ان منصوبوں کی بجلی ہے جو پیپلز پارٹی نے اپنے عہد میں شروع کیے تھے۔اب جبکہ اعلانیہ و غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ دیہاتوں میں 18 گھنٹے اور شہروں میں 12 سے 14 گھنٹے تک پہنچ چکا ہے،حکومت اور بالخصوص وزارت پانی و بجلی نئی تاریخیں دے کر عوام کی دلجوئی کی کوششوں میں ہے، جبکہ وزیر اعظم صاحب کا یہ فرمانا کہ لوڈشیڈنگ کے ذمہ داروں کو سزا دی جائے گی،ایک عجب بات ہے۔ ان کا حکام پہ برہم ہونا ایک معاملہ ہے جبکہ اس بحران کو سنجیدگی سے حل کرنے کی تیز رفتار کوششیں دوسرا معاملہ ہے۔یہ کوئی جوا زنہیں کہ مرمت کے لیے کچھ فیڈر بند کیے گئے ہیں، سوال یہ ہے کہ موسم گرما شروع ہونے سے پہلے ان پلانٹس کی مرمت اور صفائی ستھرائی کیوں نہ کی گئی؟اور عوام کو عذاب میں کیوں ڈالا گیا ہے؟گذشتہ سے پیوستہ روز وزیر اعظم صاحب نے ایک عوامی جلسہ سے خطاب کے دوران میں پیپلز پارٹی کا نام لیے بغیر کہا کہ ان سے پوچھا جائے کہ وہ ملک کو اندھیروں میں کیوں چھوڑ کر گئے ہیں۔
جبکہ وزیر اعظم صاحب اور ان کی جماعت سے یہ سوال بہر حال بنتا ہے کہ آپ نے چار سالوں میں ملک کو اندھیروں سے کیوں نہ نکالا؟ یا ایسا کوئی انتظام کیوں نہ کر سکے جس سے لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ کم سے کم ترین سطح پہ آگیا ہوتا،جس سے یہ یقین پیدا ہوتا کہ واقعی آپ کی حکومت 2018 تک اس قدر بجلی پیدا کرسکے گی جس سے ملک کی توانائی کی ضروریات پوری ہو جائیں گی۔ متعلقہ وزارات کے ذمہ داران اور وفاقی وزیر صاحب کی جانب سے یہ کہہ دینا کافی نہیں کہ موسم میں اچانک تبدیلی کے باعث لوڈ شیڈنگ کادورانیہ غیر معمولی ہو گیا ہے اور ہم اپریل کے آخر میں قابو پا کر مئی میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ ختم کر دیں گے۔یہ رویہ کسی بھی طور ذمہ دارانہ نہیں ہے۔ حکومتوںکا، کا م تاریخیں دینا نہیں ہوتا بلکہ حکومتیں عوام کے بنیادی مسائل کو ترجیح بنیادوں پہ حل کرتی ہیں۔وفاقی حکومت،کابینہ کے اراکین،متعلقہ وزارات اور نون لیگ کے ہمدرد نئی تاریخیں دینے اور طرح طرح کی تاویلیں پیش کرنے کے بجائے اس بحران پر قابو پائیں اور عوام کو اس اذیت سے نجات دلائیں جس میں عوام کو مبتلا کیا جا چکا ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply