آہ مشعال خان295Cمیں ترمیم کی اشد ضرورت

موضوع توہین رسالتؐ ہے۔مشعال خان کو دن دیہاڑے مشتعل ہجوم نے منصف کے فرائض ادا کیے اور سزا کو انجام تک پہنچایا ، نعرہ تکبر کی گونج میں ایک مسلمان “جہنم “رسید ہوا ،ہاں جہنم رسید ہوا ۔جنت اور جہنم کے سرٹیفکیٹ نعوذ باللہ رب باری تعالی ٰنے زمین کے خداؤں میں تقسیم کر دیئے ہیں ۔جب چاہو، جہاں چاہوفیصلہ سناؤ اور انسانی جان ختم اور سیدھی جہنم میں ۔اور یہ آیت کیا کہتی ہے(مفہوم)’’جس نے ایک انسان کی جان لی گویا ساری انسانیت کا قتل کیا‘‘مشعال کا قصور کیا تھا ؟توہین رسالت کا مرتکب ہونا ۔جی بالکل اسلام نے یہی حکم دیا کہ انسان ملزم ہو تو اسےسنگسار کر دو ۔جرم ثابت کرنا دور کی بات ۔ارے سنگسار بھی اس وقت تک کیا جاتا ہے جب تک اس کی روح جان فانی سے کوچ نہ کر جائے ۔
مشعال کی روح تو کافی پہلے پرواز کر گئی تھی لیکن سنا ہے انسان کے روپ میں موجود درندے جنہیں دیکھ کر شرمائے شیطان وہ مشعال کی میت کو جلانے کی سعی کر رہے تھے ۔ کسی نتیجے پر نہیں پہنچا نہ ہی تحقیقاتی ٹیم لیکن آئی جی کی پریس کانفرنس سے معلوم ہوا ہے کہ یونی ورسٹی انتظامیہ کے کہنے پر مرکزی ملزم نے اس اندوہناک افسوناک واقعہ کو سرانجام دیا۔ اب انصاف تو تب ہو گا جب اُسے سربازار توہین رسالت کے قانون کے تحت سزا دی جائے ۔ جوخبریں آ رہی ہیں اس پر اکتفا کروں تو مشعال گستاخ ثابت نہیں ہوتا ۔مفتی نعیم نے تو اسے شہید بھی کہہ ڈالا چلئے شائد اس لفظ سے ہی اس کی ماں کو ٹھنڈ پہنچے ۔ گستاخی کی سزا ضرور ہے پر یہ کام ریاست کا ہے فرد واحد یا مشتعل ہجوم کا نہیں ۔
ذرا نظر ڈالیے اسلام کیا کہتا ہے۔ دلائل حاضر خدمت ہیں۔
قتل کا حکم حضرت محمدؐ کی ذاتی انتقام پسندی کی وجہ نہ تھا بلکہ آپؐ کے بارے میں حضرت عائشہؓ اور صحابہ اکرامؓ گواہ ہیں کہ آپؐ نے کسی سے انتقام نہیں لیا بلکہ اس کی وجہ شاتم رسول دوسروں کے دلوں سے عظمت و توقیر گھٹانے کی کوشش کرتا اور ان میں کفر و نفاق کے بیچ ہوتا ہے۔ اگر گستاخی کو روکا نہ جائے تواسلامی معاشرہ، فساد اعتقادی و عملی کا شکار ہو کر رہ جائیگا۔
فتح مکہ کا موقع تھا حضرت محمدؐ اپنے دشمنوں کو معاف فرما رہے تھے گستاخ رسولؐ کعب بن اشرف کے قتل کا حکم جاری ہوا تو قتل ہوا جب یہودیوں نے آپؐ سے کعب کے قتل کی شکایت کی تو آپؐ نے فرمایا اس نے جو تکلیف دہ گستاخیاں کی تھیں اگر تم میں سے کوئی اور کرےگا تو اس کی سزا بھی یہی ہوگی۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ کی تلوار گستاخ رسول کے لئے اُٹھی۔ حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے خلافتی دور میں تمام گورنروں کو خط لکھے، گستاخ رسول کو قتل کر دیا جائے۔ ایک مسلمان نبی کریمؐ کی گستاخی کسی صورت میں بھی برداشت نہیں کر سکتا وہ اس مسئلے پر جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ جان کی بازی لگانے کو سعادت سمجھتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریمؐ سے محبت ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔
ایک ملعون جس کا نام ابن خطل تھا وہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان اقدس میں غلیظ شعر کہا کرتا تھا اس کی دو لونڈیاں یہ شعر اس کو گا گا کے سناتی تھی۔ فتح مکہ کے دن وہ حرم مکہ میں پناہ گزیں تھا۔ ابوہریرہؓ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق اسے وہیں جہنم رسید کیا ۔عام طور پر غزوات اور جنگوں میں آپؐ کا حکم ہوتا کہ عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کیا جائے لیکن توہین رسالتؐ اسلامی شریعت میں اتنا سخت جرم ہے کہ اسکی مرتکب عورت بھی قابل معافی نہیں چنانچہ ابن خطل کی مذکورہ دو لونڈیوں کے علاوہ دو اور عورتوں کے بارے میں بھی جو آپؐ کے حق میں بدزبانی کی مرتکب ہوئی تھیں قتل کا حکم جاری کیا وہ منظر بھی میرے سامنے آ رہا ہے۔ مدینہ میں ایک صحابی کی ایک چہیتی اور خدمت گذار لونڈی جس سے انکے بقول انکے موتیوں جیسے دو بیٹے بھی تھے رسول اکرم صلی اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی اور بدزبانی کا ارتکاب کیا کرتی تھی۔ یہ نابینا صحابی اسے منع کرتے مگر وہ باز نہ آتی۔ ایک شب وہ بدزبانی کر رہی تھی انہوں نے اس کا پیٹ چاک کر دیا ۔جب یہ معاملہ حضورؐ کے ہاں پیش ہوا تو حضورؐ نے فرمایا ’’لوگو! گواہ رہو اس خون کا کوئی تاوان یا بدلہ نہیں ہے‘‘ (ابوداود، نسائی)۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے
’’نبی کریمؐ مومنوں کے لئے اپنی جانوں سے بڑھ کر عزیز ہیں‘‘ (الاحزاب: 6)
کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قانون ہاتھ پر لیا جائے۔ اصل میں ہم سزا اور انتقام میں فرق نہیں کرتے اسلام سزا کا حکم اور انتقام سے روکتا ہے مشعال سے انتقام لیا گیا جو سراسر غلط امر تھا ۔ایک لمحے کے لئے مان بھی لیا جائے کہ اس نے گستاخی کی تو اس کا فیصلہ قانون کے مطابق ہونا چاہیے تھا ۔
295Cقانون صرف غیر مسلموں کے لئے نہیں بلکہ تمام مذاہب کے لئے یکساں ہے۔ پچھلے 20 سالوں سے 295 سی کے تحت تقریباً 700 مقدمات درج ہوئے جس میں آدھے مسلمانوں کے اوپر ہیں۔ اس قانون میں ترمیم میں کی اشد ضرورت ہے ۔مثلاً جھوٹا الزام لگانے والے کو بھی سزا ئےموت دی جائے، انوسٹی گیشن DCO سے شروع کی جائے اوردیگر دوست بھی اپنی رائے دے چکے ہیں۔اگر تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو 1860ء میں برطانوی سامراج نے دفعہ 295,297,296,298 کو پورے برصغیر میں نافذ کیا تھا ان دفعات کا تعلق کسی بھی مذہب کے عقائد و نظریات کے بارے میں زبانی یا عملی تکلیف پہنچانے کو قانون کی خلاف ورزی قرار دیا گیا۔ یہودی قانون میں بھی توہین رسالت کی سزا موجود ہے۔ Levi ti CUS 24-11-16 اور میثاق جدید باےئبل میں موجود ہے Mathew توہین رسالت کو نا قابل معافی جرم قرار دیتی ہے

Facebook Comments

عمر عبد الرحمن
کالم نگار،مصنف،سینٹرل آرگنائزر پی ایف یو سی اور روزنامہ ایکسپریس سے وابستہ ہوں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply