اخلاقی نفسیات (9) ۔ مشرق و مغرب/وہاراامباکر

شویڈر کا ہائپوتھیسس تھا کہ اخلاقی اقدار میں فرق کی بڑی وجہ یہ ہے کہ انفرادی اور گروہی مفادات میں تضاد ہیں۔ ایک معاشرے کو اس میں توازن رکھنا پڑتا ہے۔ اور یہ توازن ہے جو کسی کلچر کی اخلاقی اقدار پر سب سے زیادہ اثر رکھتا ہے۔ “فرد کی مرکزیت” کو ترجیح دینے والے معاشروں میں “سماج کی مرکزیت” کو ترجیح دینے والے معاشروں میں فرق اسی بنیاد پر ہے اور اپنے اس خیال کو ٹیسٹ کرنے کے لئے انہوں نے شکاگو اور اڑیسہ کے شہر بھونیشور میں 39 کہانیوں کو لے کر انٹرویو کئے۔ کہانی کے آخر میں سوال یہ تھا کہ آیا اس میں جو کیا گیا وہ غلط تھا یا نہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چند کہانیوں میں لوگوں نے دوسروں کو تکلیف پہنچائی تھی یا ان کے ساتھ ناانصافی کی تھی۔ دونوں ممالک میں انٹرویو دینے والوں نے ان کو غلط کہا تھا، جسے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن کئی دوسری کہانیوں میں یہ اتفاق موجود نہیں تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زیادہ تر کہانیوں میں کوئی ضرر یا ناانصافی نہیں تھی (یا کم از کم ایسی نہیں تھی جو بچہ پہچان سکے) اور امریکیوں کے خیال میں اس میں کچھ غلط نہیں کیا گیا تھا۔ اگر ان میں سے کچھ کے بارے میں انڈیا کے بچے انہیں غلط کہتے تھے تو ٹوریل کے خیالات کے مطابق ان کا تعلق سماجی طریقوں سے ہونا چاہیے تھا لیکن انڈین بچوں کی نظر میں یہ آفاقی طور پر ناقابلِ قبول تھیں۔ پانچ سالہ بچے کے لئے بھی۔ انڈیا میں خوراک، شہوت، لباس اور صنفی تعلقات اخلاقی ایشو تھے نہ کہ سماجی روایت۔ اور اس بارے میں بچوں اور بڑوں کے خیالات یکساں تھے۔
شویڈر نے معلوم کیا کہ اڑیشہ کے سماج کی مرکزیت کے کلچر میں “سماجی نظام اخلاقی نظام تھا”۔ اخلاقیات زیادہ وسیع اور دبیز تھیں۔ اور اگر یہ ایسا ہی تھا تو اکیڈمکس میں رائج ٹوریل کی تھیوری اس کی وضاحت کے لئے ناکام تھی۔ بچے اخلاقیات کو خود نہیں سیکھ رہے تھے اور نہ ہی ان کی بنیاد صرف ضرر پہنچانے پر تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جن چیزوں پر امریکی اور انڈین اتفاق رکھتے تھے کہ ان میں غلط کیا گیا۔
ایک شخص نے راستے میں ایک کتے کو سوئے ہوئے دیکھا۔ وہ اس کے پاس گیا اور اس کو ایک لات رسید کی۔
باپ نے بیٹے کو کہا کہ اگر وہ امتحان میں اچھے نمبر لے تو اسے نیا قلم خرید کر دے گا۔ بیٹے نے اچھے نمبر لئے۔ باپ نے قلم لے کر نہیں دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جن چیزوں پر امریکیوں کا خیال تھا کہ اس میں غلط کیا گیا لیکن انڈین کی نظر میں نہیں۔
ایک نوجوان شادی شدہ لڑکی اپنے شوہر کو بتائے بغیر رات کو فلم دیکھنے گئی۔ جب وہ واپس آئی تو شوہر نے کہا کہ اگر آئندہ ایسا کیا تو میں تمہاری پٹائی کروں گا۔ اس نے یہ دوبارہ کیا۔ شوہر نے اس کی پٹائی کی۔ کیا شوہر نے ٹھیک کیا؟
ایک شخص کا ایک لڑکا اور ایک لڑکی تھی۔ دونوں شادی شدہ تھے۔ اس کی وفات کے بعد لڑکے نے وراثتی جائیداد لے لی۔ اس میں سے تھوڑا حصہ اپنی بہن کو دے دیا۔ کیا لڑکے نے ٹھیک کیا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چیزیں جو انڈین کی نظر میں غلط تھیں جبکہ امریکیوں کے لئے نہیں۔
ایک پچیس سالہ لڑکا اپنے والد کو پکارنے کے لئے صرف ان کا نام لیتا ہے۔
ایک خاتون نے چاول پکائے۔ اپنے شوہر اور جیٹھ کے ساتھ ایک میز پر بیٹھ کر کھائے اور سب سے پہلے اپنی پلیٹ میں ڈالے۔ کیا خاتون نے ٹھیک کیا؟
آپ کے محلے میں ایک نئی بیوہ ہونے والی خاتون ہفتے میں دو سے تین بار مچھلی کھاتی ہے۔
ٹوائلٹ سے آنے کے بعد کھانا پکانے سے پہلے ایک خاتون نے کپڑے تبدیل نہیں کئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سماج کی مرکزیت پر منظم معاشرے میں انفرادی افعال اگر سوشل روایت ہیں تو بیوہ کو مچھلی کھانے دینے سے روک دینا غیراخلاقی بن جاتا ہے۔ (یہاں کے قصہ کہانیوں کے مطابق مچھلی “گرم” کھانا ہے جو جنسی جذبات بھڑکاتا ہے)۔ والد کو احترام دینا اخلاقی سوال بن جاتا ہے۔
جبکہ اگر فرد کو معاشرے سے پہلے رکھا جائے تو پھر کوئی بھی قانون یا رسم اگر شخصی آزادی پر قدغن لگاتی ہے تو اس پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے۔ اور اگر یہ کسی کو نقصان نہیں پہنچا رہی تو اس کی کوئی اخلاقی توجیہہ نہیں کی جا سکتی۔ یہ سماجی رسم سے زیادہ کچھ نہیں۔
اخلاقی آرڈر یکساں نہیں۔ اس میں بنیادی طور پر ہی فرق ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شویڈر کے نتائج یہ بتاتے تھے کہ ٹوریل کی فکر کا بنیادی نکتہ نامکمل تھا۔ یونیورسل اخلاقیات کا تعلق ضرر پہنچانے سے زیادہ وسیع ہے۔ شویڈر کے نتائج نے اس بارے میں سوچنے کی نئی سمت دی۔ آنے والے نظریات اور تجربات اب اس کو آگے بڑھا سکتے تھے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply