باپ کب بدلا جاتا ہے؟

مدت ہوئی ایک مضمون میں لکھا تھا کہ پہلے زمانوں میں سالک پیشہ لوگ پینڈے کاٹ کر اپنے پیروں کی خانقاہوں میں پہنچتے تھے اور ان کی کڑوی کسیلی سن کر، مشتقیں جھیل کر نیز جوتیاں سیدھی کرکے اللہ اللہ سیکھتے تھے۔ آج نیا اور کمرشل زمانہ ہے جس میں پیر صاحبان تیز تر ہوگئے ہیں۔ اگر مرید چند دن تک خانقاہ میں زیارت کرنے نہ آئے تو اسے زیارت کرانے کے لیے خود جاکر فروکش ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ نہ کریں تو مرید نیا پیر کر لیتے ہیں۔ ملتان میں ایک پیر صاحب ملے جو آج کل معاش سے سخت پریشان ہیں کیونکہ ان کے کچھ مالدار مرید پیر کی تبدیلی کے عمل سے گزر چکے ہیں۔

بابائے اردو مولوی عبد الحق نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ متحدہ ہندوستان کے ایک مسلمان زادے آئی سی ایس کرکے سول سروس میں چلے گئے۔ ایک بار یہ اپنے ایک رفیقِ کار کے ساتھ بیٹھے تھے کہ ان کے والد دوسرے شہر سے بغیر اطلاع آئے اور سیدھا بیٹے کے دفتر میں گھس آئے۔ ان کی وضع قطع ایسی تھی کہ آئی سی ایس افسر کے والد کے طور پر انتہائی ناشائستہ تھی۔ افسر صاحب نے خود کو سنبھالا اور اپنے دوست کو دھیمے لہجے میں انگریزی میں کہا کہ یہ میرے والد کے دوست ہیں. جناب والد صاحب کو یہ جملہ سمجھ آگیا۔ فوراً بولے کہ میں ان کے والد کا نہیں والدہ کا دوست ہوں۔

باپ بدلنے کی ضرورت کسے پیش نہیں آتی۔ ضرورت کے وقت گدھے کو باپ بنانا ہمارا قدیم محاورہ ہے۔ ابنِ انشا نے گو مزاحًا سہی لیکن صلحِ کل مشرب استادِ مرحوم کا نام لے کر ایک سفید پوش سدا کے حاجت مند ملازم کی کتنی درست تصویر کھینچی ہے کہ جس زمانے میں مولوی محمد عمر انسپکٹر تعلیمات تھے، استادِ مرحوم تنظیمِ اہل سنت کے جلسوں میں باقاعدگی سے شریک ہوتے تھے اور جب ان کی جگہ ظلِ حسنین امروہوی انسپکٹر بن کر آئے تو اِنھیں تنظیم سے شکائتیں پیدا ہوگئیں اور اثنا عشری مسجد میں دیکھے جانے لگے۔ کچھ عرصہ گزرا تو اس عہدے پر قاضی نور احمد قادیانی احمدی کی تقرری ہوگئی۔ ان دنوں استادِ مرحوم برملا فرماتے تھے کہ انھیں اگر اسلام کی سچی روح کہیں نظر آتی ہے تو انہی کے ہاں۔ چنانچہ اس سال عید کی نماز انھوں نے احمدیوں کی مسجد میں پڑھی۔ استاد فرماتے تھے سبھی خدا کے گھر ہیں۔ پنڈت رادھے شیام ہیڈ ماسٹر بھی استاد سے ہمیشہ خوش رہے کہ انھیں استاد ہی سے معلوم ہوا تھا کہ کرشن جی باقاعدہ نبی تھے اور تورات میں ان کی آمد کا ذکر ہے۔ غریب آدمی ہر روز باپ بدلتا ہے۔ غریب باپ نہ بدلے تو دنیا جینے کیسے دے؟

یہ تو چلیے تمثیل ہے۔ اہلِ ادب جوش ملیح آبادی جیسے زندہ کردار کو نہیں بھول سکتے۔ ان کا کلام صحتِ لغت و سند کے پیمانے پر کبھی ہلکا نہیں ہوگا۔ احتیاج نے جوش جیسے قادر الکلام شاعر کو در در کی جبہ سائی پر مجبور کر دیا تھا۔ نظامِ دکن سے لے کر ایوب خان اور جنرل ضیا تک کون سا حاکم تھا جس کے لیے موزوں اور ناموزوں قصیدے انھیں نہ کہنا پڑے۔ شان الحق حقی کی افسانہ در افسانہ، یوسفی صاحب قبلہ کی شامِ شعر یاراں اور مشفق خواجہ کے کالموں کے مختلف مجموعوں میں ان کے قصے بکھرے پڑے ہیں۔ ان واقعات سے ایک ایسے جوش سے ملاقات ہوتی ہے جو ایک جیتا جاگتا حقیقی انسان تھا، بشری ضرورتوں اور اہلِ دنیا کے بیچ میں رہنے والا۔

Advertisements
julia rana solicitors

حکومتیں باپ بدلتی ہیں تو ریاستیں بھی باپ بدلتی ہیں۔ کل ہماری ضرورتیں امریکہ پوری کر رہا تھا تو ہم جی جان سے اس کے ساتھ تھے اور جان ہاتھ میں لیے پھرتے تھے۔ سعودیہ ہماری معیشت کو Lubricate کر رہا تھا (تیل دے رہا تھا) تو ہم اس کے لیے جان ہتھیلی پر اٹھائے پھرتے تھے۔ ہماری کل کی ضرورتیں چین سے پوری ہونے کی امید ہے تو آج کل ہم چین کے دوالے پھر رہے اور اس پر واری جا رہے ہیں۔ کل تک ہمارے اثاثے کچھ اور لوگ تھے تو ہم ان کے اشاروں پر ہاتھ باندھے پھرتے تھے۔ آج اثاثے بدل گئے ہیں۔ باپ بھی بدل گئے ہیں۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply