نذرِ غالب، نظمِ آنند- 5

؂
بخت در خواب است می خواہم کہ بیدارش کنم
پارۂ غوغائے محشر کو کہ در کارش کنم
۰۰۰

سو گیا تھا !
میں؟
نہیں، یہ بختِ نا ہنجار میرا !
اور بختِ خُفتہ سے ’ اک خوابِ خوش‘کا قرض لینا**
یعنی میرا جاگنااچھے دنوں میں
تب بھی یہ تلبیس تھی ، اک جھوٹ تھا
اور آج بھی ہے ، جانتا ہوں

میں کہ شاعرہوں، مجھے معلوم ہے یہ قول غالبؔ
’’شاعری جزویست از پیغمبری‘‘….
ہاں، مگر پیغمبری کی
شرط ہے میں اپنے بخت خفتہ کو بیدار کر لوں
اور یہ قولِ محال ایسا ہے جس میں
شورِ محشر کی ضرورت ہے ، کہ میرا بختِ خفتہ
ایسے ویسے شور و غل سے
ہاؤ ہو سے جاگنے والا نہیں ہے!
میری پیدائش سے اب تک
ایک گہری نیند میں سویا ہو ا ہے
نیند کا ماتا یہ مرگ آسا میرا بختِ خفتہ
تب ہی جاگے گا کہ جب آسودگانِ خاک سارے
شور ِ محشر سے اٹھیں گے!

Advertisements
julia rana solicitors london

زندگی کا استعارہ ’جاگنا‘ ہے، جانتا ہوں
جانتا یہ بھی ہوں … سونا اور مرنا ایک سے ہیں
کیا تمسخر ہے کہ میرابختِ خفتہ
اُس گھڑی بیدار ہو گا
جس میں میرا انت ہو گا
گویا محشر اور میرے بخت کا بیدار ہونا
ایک ہی لمحے کا قصّہ ہے کہ جس میں
’’پارۂ غوغائے محشر کو کہ در کارش کنم!‘‘
…………………………………………………………………
**غالب کا ایک اردو شعر ہے :
لوں دامِ خفتہ سے یک خوابِ خوش، ولے
غالب یہ خوف ہے کہ کہاں سے ادا کروں

Facebook Comments

ستیہ پال آنند
شاعر، مصنف اور دھرتی کا سچا بیٹا

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply