• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • موجودہ اسلامی دنیا میں رائج اقتصادی نظام کا مختصر تقابلی جائزہ

موجودہ اسلامی دنیا میں رائج اقتصادی نظام کا مختصر تقابلی جائزہ

موجودہ اسلامی دنیا میں رائج اقتصادی نظام کا مختصر تقابلی جائزہ
آصف وڑائچ
کسی بھی ملک یا قوم کی معاشی ترقی و تنزلی میں بنیادی کردار اس کا اقتصادی نطام ہوتا ہے۔مشرق و مغرب کے ممالک میں مختلف ادوار میں مختلف نوع و اقسام کے اقتصادی نظام رائج رہے ہیں۔ جن کے اوپر عالمی “سپر پاورز” کا اثر و رسوخ رہا ہے۔ ان میں معروف اشتمالیت، اشتراکیت، سرمایہ داریت اور اسلامی معاشی نظام ہیں۔ موجودہ دور کے اسلامی معاشیات دانوں میں مو لانا تقی عثمانی، محمد باقر الصدر، محمد طالقانی، محمدعمر چاپرا وغیرہ شامل ہیں، جبکہ یورپ میں معاشی نظام کے معروف ماہرین میں جان اسٹارٹ مل، کارل منگر، کارل مارکس اور پریٹو قابل ذکر ہیں۔سرمایہ داریت اور اشتراکیت کےحوالے سے برصغیر کے مسلم محققین بھی دو حصوں میں منقسم ہوئے ہیں، پہلے وہ جو ان دونوں نظاموں کو مذہبی حوالے سے پرکھ رہے تھے تو دوسرے وہ جو ان نظاموں کو معاشی حوالے سے جانچ رہے تھے۔
تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان دونوں طبقات میں سے کسی ایک نے بھی ان دونوں نظاموں کو اسلام سے برتر نہیں سمجھا۔پہلے مکتب فکر کی رائے یہ تھی کہ اشتراکی نظام لادینیت پر استوار ہے جبکہ سرمایہ دارانہ نظام،گو مستحسن نہیں لیکن اس نظام کے چونکہ حاملین اہلِ کتاب میں سے ہیں چنانچہ لادینیت یعنی اشتراکیت کے مقابلے میں اہل کتاب کے سرمایہ دارانہ نظام کی طرف جھکاؤ معقول معلوم ہوتاہے۔جبکہ دوسرے مکتب فکر کی رائے یہ تھی کہ سرمایہ دارانہ نظام ظلم پر استوار ہے اور اشتراکیت گو مستحسن نہیں لیکن بطور معاشی نظام کے اسلام کے معاشی نظام سے زیادہ قریب تر معلوم ہوتا ہے۔
مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی نے بھی ان دونوں معاشی نظاموں کا تقابلی جائزہ کرتے ہوۓ لکھا ہے کہ اسلام اور سرمایہ دارانہ نظام میں کوئی ایک چیز بھی مماثل نہیں۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں تاہم اشتراکیت اور اسلام کے معاشی نظام میں بجز دو اختلافات کےکوئی نمایاں تضاد و اختلاف نہیں ہے۔
مولانا عبید اللہ سندھی رقمطراز ہیں
دس ہزار آدمیوں کی ایک بستی ہے۔ اگر اُس کا اکثر حصہ نئی چیزیں (پروڈکشن) پیدا کرنے میں مصروف نہیں رہتا تو وہ ہلاک ہو جائے گی۔ ایسے ہی اگر ان کا بڑا حصہ تعیش میں مبتلا ہو جاۓ تو وہ قوم کے لیے بار بن جائے گا اور اس کا ضرر بتدریج ساری آبادی میں پھیل جائے گا۔ یوں ان کی حالت ایسی ہو جائے گی جیسے انھیں دیوانے کتے نے کاٹ کھایا ہو۔ (اب چاہے وہ مذہبی ہوں یا غیر مذہبی)۔
خالص مادی نظام کے دلدادہ افراد کے مطابق مذہبی موشگافیوں کا سیاست اور معاشیات میں کوئی عمل دخل نہیں, سیاست اور معاشیات کا میدان محض مادی مفادات کے حصول کے لیے ہوتا ہے۔ چونکہ مادی نقطۂ نظر سے سرمائے اور جاگیر کی طاقت ہی اصل ہے چنانچہ جاگیر اور طاقت کی بنیاد پر اپنے مفادات حاصل کرنے کے علاوہ ان کی کوئی اور غرض نہیں ۔ اس طرح ان کا اندازِ سیاست مذہب کی تعلیمات سے دور ہو کر سفاکیت اور چنگیزیت پیدا کرنے کا باعث بنتا رہا ہے۔ قابض حکمران اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قوانین بناتے ہیں جو عام انسانوں کے حقیقی مسائل کو حل کرنے سے یکسر قاصر ہوتے ہیں،اور ظلم و بربریت کا ایک بازار گرم رہتا ہے۔
مذہب اور اخلاقیات پر مبنی اقتصادی نظام کے حامیوں میں دو بنیادی گروہ ہیں، پہلا وہ ہے جو کہ شخصی صوابدید کی اساس پر اقتصادی اور حکومتی نظام کے قیام کی بات کرتا ہے چنانچہ یہ لوگ “;خلافت” کے عنوان سے ایک خاص آمریت قائم کرنے کی بات کرتے ہیں۔ ان کا مؤقف ہے کہ اسلام میں ادارہ جاتی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ لوگ زمین کے کسی خطے یا ملک پر قبضہ جمانے کو مقدس سمجھتے ہیں اور بڑی شدت کے ساتھ اپنے نظریات کا غلبہ چاہتے ہیں، ان کے نزدیک ایک خلیفہ اور اس سے وابسطہ ایک خاص طبقاتی گروہ کا سیاست پر تسلط حاصل کرلینا حکومت کرنے کے لیۓ کافی ہے۔ اگر ہم بیشتر عرب ملکوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہاں پر ایک بادشاہ اور اس سے منسلک طبقات حکومت کرتے نظر آتے ہیں اور سارا نظام انہیں لوگوں کے گرد گھومتا ہے۔ خلافت یا مذہب کے لبادے میں وہ بھی ایک قسم کی سرمایہ دارانہ آمریت ہی قایم کیے ہوۓ ہیں۔
دوسرا مذہبی گروہ اگرچہ قلیل ہے لیکن یہ بادشاہت و سیاست کو ’دنیاداری‘ سے تشبیہ دے کر اس سے مطلقاً علیحدگی اختیار کرنے کو اپنا مذہبی اعزاز سمجھتا ہے۔ اور دینی پاکیزگی کا دعوے دار بنتا ہے۔ یہ لوگ سیاسی و معاشی معاملات کو ’دنیا‘ قرار دیتے ہیں۔ ان میں سیاسی و معاشی حالات کے شعور کا فقدان پایا جاتا ہے۔ یہ لوگ دنیا کے ہر معاملے کی بنیاد مذہبی تصورات کے تحت رکھنا چاہتے ہیں. یہ ایک ایسے تخیلاتی نظام کی بات کرتے ہیں جو موجودہ زمینی حقایق سے کوسوں دور ہوتی ہے۔ ان کی باتوں میں فلسفیانہ سرشاری اور راہبانہ خماری ہوتی ہے جو کہ عملی زندگی کو در پیش مسائل کا کوئی کار آمد حل تجویز نہیں کرتی۔
کوئی بھی نظریہ یا اصول اگر اطلاقی عمل سے قاصر ہے تو اس کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ اسلام کا خاصہ یہ ہے کہ اگر وہ کوئی اصول و ضوابط پیش کرتا ہے تو اس کے اطلاقی پہلو کو نظر انداز نہیں کرتا۔ بلا شبہ اسلام میں اقتصادی نظام کا اخلاقیات اور مذہب سے گہرا تعلق ہے اور بنیادی معاشی تصورات قرآن و فقہ میں موجود ہیں۔ لیکن پاکستان جیسے ملک جہاں تعلیم اور سیاسی شعور کی انتہائی کمی ہے اور لوگوں کو سیکولرازم، سوشل ازم یا کیپیٹل ازم جیسی اصطلاحات سے بھی واضح آگاہی نہیں، مذہبی و غیر مذہبی دانشور اپنے اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کی خاطر ان ازمز کی من پسند تشریح کر کے لوگوں کو گمراہ کرتے یا اپنی جانب ملتفت کرنے کی کوشش کرتے ہیں. اس پر مصداق یہ کہ ہمارے ہاں یہ بھی ایک المیہ ہے کہ اگر کسی مذہبی عالم کی بات سے علم اور دلیل کی بنیاد پر بھی اختلاف کیا جائے تو اسے اسلام کے خلاف ہی تصور کر لیا جاتا ہے۔ ایسی صورتِ حال میں مکالمہ نا پید ہو جاتا ہے اور کسی بھی مسئلے کا دور رس حل دستیاب نہیں ہو پاتا۔
پاکستان جیسے ملک جہاں بادشاہت کی جگہ ’اسلامی جمہوریت‘ رائج ہے۔ برادریوں، جاگیرداروں اور رسمی پیری مریدی کرنے والے گدی نشینوں اور مذہبی خانوادوں کے ذریعے ووٹ لیے جاتے ہیں۔ جمہوریت کا جھوٹا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں چند خاندانوں کی لمیٹڈ کمپنیاں ہوتی ہیں۔ اُنہی خاندانوں کے افراد ہی پارٹیوں کے سربراہ اور چیئرمین منتخب ہوکر ملک پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ پارٹی کا موروثی وارث چونکہ مخصوص خانوادے کا فرد ہوتا ہے چنانچہ اس کی عمر اور تجربہ خواہ کتنا ہی قلیل کیوں نہ ہو, خود کار طریقے سے وہی پارٹی اور مجموعی نظام کا سربراہ مقرر ہوتا ہے۔ گویا مذہب پر مبنی جمہوریت ہو یا بادشاہت ہر دو کے نام پر سرمایہ داریت اور آمریت ہی ریاست پر مسلط رہتی ہے۔
ان حالات میں ہمارا عام نوجوان پریشانی کا شکار ہے کہ وہ کس طرف جائے. آیا خلافت و بادشاہت کے نام سے منسوب معاشی و سیاسی نظام کی طرف جائے جہاں پھر آمریت کا ہی اندیشہ ہے یا جمہوری نظام کو اپنائے، جہاں سرمایہ دارانہ نطام ہی سانپ کی طرح پھن پھیلاۓ موجود ہے۔ اس حوالے سے ہمارے موجودہ مذہبی طبقے کا کردار کچھ حیران کن سا رہا ہے۔ مذہبی طبقات کے معروف نمائندے اسی بیمار سیاسی نظام کا حصہ ہیں اور اسی نظام کے تحت تمام سہولتوں سے مکمل طور پر بہرہ مند ہیں۔ لہٰذا مخلص اور دانشور طبقات مخمصے میں مبتلا ہیں کہ موجودہ بے سر و پا اقتصادی نظام کو ایک صالح معاشی نظام میں کیسے ڈھالا جائے جاۓ؟ مسلمان مجموعی طور پر انسانیت کی فلاح و بہبود کے لیۓ کس طرح سے اپنا مثالی اور کلیدی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں آیَیں؟ معاشی فساد کو کیونکر ڈیفیوز کیا جاۓ؟ ملکیت اور طریقہء پیداوار کے قوانین کیسے ترتیب دیۓ جائیں؟ دولت اور وسائل کی مساوی تقسیم کیسے ممکن ہو؟
الغرض مجموعی طور پر ہم ایسی گومگوں کی کیفیت اور تقسیم کا شکار ہیں جس کا حالیہ تناظر میں کوئی فوری حل نظر نہیں آتا۔

Facebook Comments

آصف وڑائچ
Asif Warraich is an Engineer by profession but he writes and pours his heart out. He tries to portray the truth . Fiction is his favorite but he also expresses about politics, religion and social issues

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”موجودہ اسلامی دنیا میں رائج اقتصادی نظام کا مختصر تقابلی جائزہ

  1. محترم آصف وڑائچ صاحب !
    آپ کی مفکرانہ اور ہمدردانہ باتیں قابل صد ستائش ہیں۔
    اس حوالے سے چند گذارشات حاضر خدمت ہیں:
    1۔آپ نے مذہبی طبقے کے دو گروہوں کا ذکرفرمایا جن میں سے ایک متشددین ہیں جو آمرانہ قسم کی خلافت کے حامی ہیں۔اوردوسراطبقہ دینی اعتبار سے سیاسی و معاشی نظام سے بے زار اور راہبانہ فکر کا حامل ہے۔
    میری رائے یہ کہ تیسرا طبقہ بھی موجود ہے جوکہ ان دونوں سے مختلف ہے اوروہ اسلام کی حقیقی فکر کا ترجمان ہے۔ ان میں سےایک تو خود محترم آصف وڑائچ ہیں۔دراصل یہ وہ لوگ ہیں جو اسلامی علم وحکمت کے ساتھ جدید انسانی اجتماعی زندگی کے تقاضوں کا ادراک رکھتے ہیں اور مخلصانہ احساس بھی انہیں حاصل ہے۔
    آپ نے متشددین کا ذکر کیا تو یہ آمرانہ سوچ حقیقت میں چند مسلمانوں کی ہے جن کو فکری اورعملی طورپر کبھی بھی مسلم معاشرے میں قبولیت عامہ حاصل نہیں ہو سکی البتہ اس طرح کے لوگ دھوکہ سے مسلمانوں پر مسلط ہوجاتے ہیں اور طاقت سے اپنا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔
    دوسرے راہبین وہ لوگ ہیں جو قرآن و سنت کے گہرے علم سے عاری ہیں اور ان کی اکثریت سطحی اورمقلدانہ قسم کی سوچ رکھنے والوں پر مشتمل ہے اور غور فکر کرنا جن کی عمومی عادت نہیں ہوتی۔

Leave a Reply