• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • بین المذاہب ہم آہنگی ورکشاپ میں کیا ہوتا ہے؟ پڑھئے آنکھوں دیکھا حال

بین المذاہب ہم آہنگی ورکشاپ میں کیا ہوتا ہے؟ پڑھئے آنکھوں دیکھا حال

نوٹ: پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی کے فروغ کے لیے ہماری کوششیں کس طرح ثمر آور ہو رہی ہیں، یہ جاننے کے لیے پڑھیے برادر مکرم سعید عبداللہ کے تاثرات جو حال ہی میں پشاور میں منعقدہ ایک بین المذاہب ہم آہنگی ورکشاپ میں شریک رہے۔

برادر مکرم سعید عبداﷲ ایک جید عالم دین ہیں ۔ ایک نامور قاری قرآن کی حیثیت سے قومی مقابلہ قرأت ۲۰۰۴ میں پہلی پوزیشن، لیبیا میں منعقدہ عالمی مقابلہ قرأت ۲۰۰۵ میں چوتھی پوزیشن، حکومت پاکستان کی جانب سے نیشنل یوتھ ایوارڈ ۲۰۰۹، کے علاوہ صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی ۲۰۰۹ بھی لے چکے ہیں۔ آپ ان دنوں ہزارہ یونیورسٹی مانسہرہ سے اسلامیات میں پی ایچ ڈی کے تحقیقی کام میں مصروف ہیں، جبکہ مانسہرہ میں ایک مدرسہ’ جامعہ عثمانیہ دارالقرآن ‘کے پرنسپل ہونے کے علاوہ آپ سیاسی طور پر بھی بہت فعال ہیں اور مرکزی کونسل جمعیت علماءاسلام پاکستان کے رکن اور جے یو آئی ضلع مانسہرہ کے سیکرٹری اطلاعات کے فرائض بھی سر انجام دے رہے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ وفاق المدارس العربیہ پاکستان مرکزی شوریٰ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔

سعید عبداللہ کے بین المذاہب ہم آہنگی ورکشاپ سے متعلق یہ تاثرات اس امید سے قارئین کے مطالعے کی نذر کر رہا ہوں تاکہ فرقہ وارانہ منافرت سے زہر آلود ہوتے ہوئے ماحول میں جہاں ہر چھوٹی منفی خبر بریکنگ نیوز بنتی ہے وہاں عوام تک یہ پیغام بھی پہنچے کہ پاکستان میں مذہبی ہم آہنگی کے لیے کونسے مثبت اقدامات بھی ہو رہے ہیں جو صرف مثبت ہونے کے باعث خبر نہیں بنتے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ادارہ امن و تعلیم اسلام آبادکے زیر اہتمام تین روزہ بین المذاہب ہم آہنگی ورکشاپ (از 25 تا 27 اکتوبر 2016 ) بمقام شیراز ان ہوٹل ۔ یونیورسٹی روڈ پشاور چند تاََثرات و مشاہدات
تحریر : سعید عبداﷲ مانسہرہ

بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے یہ اپنی نوعیت کی نہایت ہی منفرد ورکشاپ تھی جس میں تربیتی لحاظ سے ایک وقیع و پر مغز مواد اور جامع نصابی کتابچہ وتربیتی نصاب کی مدد سے مختلف مذاہب اور مسالک کے لوگوں کو ایک ہال میں جمع کیا گیا اور تین دن تک ان کی تربیت کی گئی۔
ورکشاپ کا جب آغاز ہوا اور اس میں مختلف مذاہب ہندوازم ، سکھ مذہب ، مسیحی مذہب وغیرہ کے علاوہ مختلف اسلامی مکاتب فکر کے مسالک شیعہ ، سنی، بریلوی، دیوبندی اور اہلحدیث کی نمائندہ حاضری موجود تھی بظاہر یہ محسوس ہو رہا تھا کہ یہ تین دن کیسے گزریں گے اور ان غیر مانوس اور اجنبیت کی حائل دیواروں اور طویل خلیجوں پر مشتمل مذاہب و مسالک کے لوگوں سے باہمی اختلاط و گفتگو اورمیل جول کے نہ جانے کیا نتائج نکلیں گے۔ لیکن بحمدہ تعالیٰ ورکشاپ کے لیے ادارہ امن و تعلیم نے جن تربیتی ماہرین و اساتذہ کا انتخاب کیا ان کی بہترین ترتیب مواد، حکمت عملی ، تربیتی طریقہ کار اور انداز تفہیم کی وجہ سے تمام شرکاءاور خصوصاً مجھ ناچیز کے لیے یہ پروگرام اس قدر دلچسپی کا باعث رہا کہ مجھ سمیت تمام شرکاءنے سیکھنے کے عمل پر توجہ مرکوز کیئے رکھی۔ اور ایک دوسرے سے استفادے کا ماحول میسر رہا۔ اس ورکشاپ میں مختلف مسالک و مذاہب کے حوالے سے کافی دلچسپ معلومات اور تعارف کا جہاں موقع فراہم کیا گیا وہاں شرکاءکے مابین رواداری ، تحمل ، برداشت اور تعاون کے باہمی جذبات پیدا کرنے میں ماہرین اساتذہ نے بہت اہم کردار ادا کیا۔

یہ اساتذہ کرام جنھوں نے ورکشاپ کا تربیتی مواد اور نصاب ترتیب دیا بظاہر انھوں نے اپنے لیے بطور تواضع سہولت کار(Facilitator ) کی اصطلاح استعمال کی اور اسی نام کو انھوں نے اپنے لیے استعمال کیا لیکن علمی رتبے اورمقام کے لحاظ سے کسی بھی لحاظ سے ان کا درجہ کسی استاد سے کم نہ تھا اورمجھ ناچیز کی رائے کے مطابق وہ حقیقی اساتذہ ہی کی حیثیت و مقام پر فائز ہیں۔ ادارہ برائے امن و تعلیم نے جناب ڈاکٹر محمد حسین صاحب اور جناب محمد رشید صاحب کی صورت میں جن دو شخصیات کو اس کار خیر میں بطور سہولت کار یا تربیت کار منتخب کیا وہ اپنی علمی صلاحیتوں اور نظریہ و سوچ کے لحاظ سے بلاشبہ گوہر نایاب سے کم نہیں ۔ بالخصوص ڈاکٹر محمد حسین صاحب جو ایک ایسی شخصیت ہیں کہ جو متعلقہ موضوع کے حوالے سے مکمل عبور رکھنے کے ساتھ ساتھ جملہ مذاہب کے قائدین و راہنماﺅں سے یکساں و مساوی سلوک اور دوران تربیت ایک مکمل غیر جانبدار تربیت کار استاد کے طور پر علمی و عملی صلاحیتوں سے ہم آہنگ اور مالا مال ہیں ان کی پرکشش ، سادہ اور باوقار شخصیت اور تربیتی طریقہ کار مجھ ناچیز کے لیے بطور خاص انتہائی متاثر کن رہا اور اس ورکشاپ میں ان کو اپنے موضوع پر مکمل عبور رکھنے والا ایک ماہر، کہنہ مشق اور تجربہ کار استاد کے طور پر بندہ ناچیز نے محسوس کیا۔ شرکاءکا تعلق چونکہ خیبر پختونخواہ کے اکثر اضلاع سے تھا۔ جسکی وجہ سے راقم الحروف کے ساتھ ساتھ دور دراز سے آنے والے جملہ شرکاءکے لیے یونیورسٹی روڈ پشاور پر واقع شیراز ان ہوٹل میں قیام و طعام وغیرہ کا بہت احسن انتظام کیا گیا۔ ان انتظامی امور کا سہرا مولانا محمد اسرار صاحب صدر انٹر نیشنل ریسرچ کونسل برائے مذہبی معاملات (IRCRA ) کے سر ہے جنھوں نے تمام مہمانوں کا ہر طرح سے خیال رکھا اور ان کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیںکرنا پڑا۔ (PEF ) کا یہ فیصلہ بھی نہایت اچھا ثابت ہوا۔

ورکشاپ کے دوسرے روز ممتاز مذہبی اسکالر اور علمی شخصیت ، سابقہ وائس چانسلر پشاور یونیورسٹی جناب محترم ڈاکٹر قبلہ ایاز صاحب نے نہایت ہی دلکش اور جامع لیکچر دیا اور اپنے تجربات زندگی و بیرونی اسفار کے چند واقعات سنائے جن کو سامعین نے نہایت زوق و شوق سے سنا ۔ موصوف بھی متعلقہ موضوع کے حوالے سے اس وقت ملک کے صفِ اول کے ممتاز ماہرین میں شمار کیئے جاتے ہیں ۔

ورکشاپ کا سب سے اہم خاصہ یہ تھا کہ تین دن تک مختلف مذاہب اور مسالک کے شرکاءاکٹھے اور یکجا ہونے کے باوجود کسی بھی قسم کا کوئی ایک ناخوشگوار واقعہ بھی پیش نہیں آیا۔ اور حقیقی طور پر جملہ شرکاءکے مابین احترام ، ہمدردی اور باہمی عزت و احترام کے جذبات دیکھنے میں آئے جو کہ کسی بھی طور پر موجودہ فرقہ وارانہ ماحول اور تہذیبی تصادم اورمذاہب و مسالک کے مابین مسلکی و مذہبی خلیجوں کے اس دور میں ایک معجزے سے کم نہیں۔

فرقہ واریت کے اس عفریت نے ہمارے معاشرے کو اس وقت اس قدر اپنی شدید لپیٹ میں لے رکھا ہے کہ مذہبی انتہا پسندی ، شدت ، مذہبی و مسلکی تصادم ہمارا وطیرہ بن چکی ہے۔ اور ہم میں سے ہر آدمی اپنے مذہبی عقائد و نظریات کو جبراً دوسروں پر مسلط کرنے کا خواہاں ہے جس کی وجہ سے معاشرہ بدامنی، فتنہ وفساد اور قتل و خونریزی کا شکار ہے ایسے ماحول میں بین المذاہب ہم آہنگی کے حوالے سے (PEF ) نے جس کام کا بیڑہ اٹھایا ہے وہ یقینا ایک کارخیر اور ہمارے معاشرے کو راہ راست پر گامزن کرنے کاعمل ہے جس کی اس معاشرے کو بہت زیادہ ضرورت ہے۔ بین المذاہب ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں زیادہ تر بین المسالک ہم آہنگی کے قیام کی کوششیں بھی اس وقت کی سب سے زیادہ ضرورت ہیں اور (PEF) اس سارے کردار پر خصوصی خراج تحسین کی مستحق ہے۔

بندہ ناچیز نے دل سے یہ وعدہ کیا کہ اس کار خیر میں ہر طرح کے تعاون کے ساتھ ساتھ میدان عمل میں بین المذاہب و المسالک ہم آہنگی کے قیام کے لیے عملی طور پر جدو جہد کر کے معاشرے سے اس فرقہ واریت ، عدم برداشت ، مذہبی و مسلکی تعصب کے خاتمے کے لیے اپنا بھر پور کردار ادا کرنے کی بھر پور کوشش کرے گا۔

اس مقصد کے لیے بندہ نے اپنے چند رفقاءکے ساتھ مل کر ایک آرگنائزیشن کا قیام عمل میں لانے کا فیصلہ کیا ہے جس کا نام باہمی مشاورت سے
(Ibn-e-Rushd council for inter-religion Dialogue) (ابن رشد کونسل برائے بین المذاہب مکالمہ )طے کیا گیا یہ ادارہ ابھی رجسٹریشن کے مراحل میں ہے اور اس کو ملک کی مایہ ناز ماہر و تجربہ کار شخصیات کی مشاورت سے تشکیل دیا گیا ہے امید ہے کہ یہ فورم بھی اس کار خیر کے لیے ایک موثر و فعال پلیٹ فارم ثابت ہوگا۔ راقم الحروف انشاءاﷲ (PEF )کے ساتھ مل کر ہزارہ ڈویژن اور آزاد کشمیر کی سطح پر بھرپور کردار ادا کرنے اور بین المذاہب ہم آہنگی کے قیام کے لیے خصوصی طورپر کوشاں رہے گاامید ہے کہ (PEF ) اور اسکے تربیت کار اساتذہ ڈاکٹر محمد حسین صاحب ، محمد رشید صاحب و دیگر منتظمین اس حوالے سے ہماری خصوصی سرپرستی فرمائیں گے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

سعید عبداﷲ (عالمی و قومی ایوارڈ یافتہ) ریسرچ اسکالر برائے پی ایچ ڈی ہزارہ یونیورسٹی
پرنسپل جامعہ عثمانیہ دارالقرآن ڈب نمبر 1 مانسہرہ فاضل جامعہ فاروقیہ کراچی
رکن مرکزی کونسل جمعیت علماءاسلام پاکستان
سیکرٹری اطلاعات جے یو آئی ضلع مانسہرہ
سابق رکن مرکزی شوریٰ وفاق المدارس العربیہ پاکستان

Facebook Comments

محمد حسین
محمد حسین، مکالمہ پر یقین رکھ کر امن کی راہ ہموار کرنے میں کوشاں ایک نوجوان ہیں اور اب تک مختلف ممالک میں کئی ہزار مذہبی و سماجی قائدین، اساتذہ اور طلبہ کو امن، مکالمہ، ہم آہنگی اور تعلیم کے موضوعات پر ٹریننگ دے چکے ہیں۔ ایک درجن سے زائد نصابی و تربیتی اور تخلیقی کتابوں کی تحریر و تدوین پر کام کرنے کے علاوہ اندرون و بیرون پاکستان سینکڑوں تربیتی، تعلیمی اور تحقیقی اجلاسوں میں بطور سہولت کار یا مقالہ نگار شرکت کر چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply