گڈانی شپ بریکنگ یارڈ،تلخ حقائق۔۔بادل بلوچ

گڈّانی صوبہ بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کے تحصیل حب میں واقع ایک چھوٹا سا قصبہ ہے. جو اپنے شپ بریکنگ یارڈ کی وجہ سے نا صرف قومی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اپنا الگ مقام رکھتاہے. ہم بچپن سے ہی اس علاقے کے بارے میں سنتے چلے آرہے ہیں اور جب نیوز چینلز دیکھنے لگا تو تب بھی گڈانی شِپ بریکنگ یارڈ کا ذکر باربار سننے کے باعث خواہش تھی کہ میں بھی وہاں جاکر اپنے آنکھوں سے بڑے بڑے آبی جہاز و بڑی کشتیاں ٹوٹتا ہوا دیکھوں. تو ایک دن میرا یہ خواب پورا ہوا اور میں وہاں نہ صرف لوگوں سے ملتا رہا بلکہ ایک دوست کی جونپڑی نما گھر کی وہاں پر موجودگی کے بدولت مجھے رات بھی وہیں پر گزارنے کا موقع ملا. میں نے صبح سے لے کر شام تک وہاں پر موجود ہر چیز کو اپنے کیمرے اور نوٹ بک میں محفوظ کرلیا.

میرا مقصد گڈّانی شپ بریکنگ یارڈ میں تفریح کرنا تھا مگر وہاں کی بھیانک حقائق دیکھنے کے بعد میری ہمت نہیں ہوئی کہ میں وہاں مزید قیام کرتا.
سب سے پہلے میں نے وہاں پر اکثر لوگوں سے اُس شِپ بریکنگ یارڈ کی تاریخی پس منظر کے متعلق سوال کیا تو اکثر لوگوں نے گول مول جواب دیا مگر ایک میگزین میں میں نے یہ پڑھا تھا کہ کچھ دہائی قبل بحرہ عرب میں طوفان سائیکلون کی وجہ سے اس ساحل پر مختلف چیزیں نمودار ہوئی تھیں جن میں ایک نامعلوم بحری جہاز بھی شامل تھا جس میں کوئی آدمی موجود ہی نہ تھا مگر بعد میں ایک کمپنی نے اُس بحری جہاز پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کیا لہذا اُس جہاز کو وہیں پر تھوڑا گیا، ٹرکوں پر لادکر کراچی بیجھا گیا، اور اُس دن سے یہ جگہ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کے بن گیا جو گزرتے وقت کے ساتھ مشہور ہوتاگیا جہاں موجودہ دور میں چالیس سے زائد کمپنیاں شِپ بریکنگ پر کام کررہے ہیں.

گڈانی کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں کے لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے مگر بارشیں نہ ہونے اور پانی کی قلّت کی وجہ سے اب اس سرزمین پر کھیتی باڑی مشکل ہوگئی ہے.

یہ قصبہ اپنی غیرمعمولی لوکیشن کی وجہ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے. گڈّانی کے اکثر لوگ اس وقت ماہیگیری کے پیشے سے منسلک ہیں جبکہ بڑی تعداد شپ بریکنگ یارڈ میں بھی سخت کام کرکے زندگی کے پہیے کو دھکا لگارہے ہیں.
گڈّانی شپ بریکنگ یارڈ تقریباً سترہ کلومیٹر کی زمین تک پھیلا ہوا ہے جو مختلف سائز کے 314 پلاٹس میں تقسیم ہے جن میں 140 فنکشنل ہیں.

بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس 34 پلاٹس کی اونرشپ ہے جو نجی کمپنیوں کو کرائے پر دیے گئے ہیں.

ایک بین الاقوامی ادارے نے ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ گڈّانی کی ساحل شِپ بریکنگ کے لیے سب سے بہترین اور محفوظ بھی ہے. کیونکہ ساحل کا قریبی پانی بھی اتنا گہرا ہے کہ جہازوں کو بناء کسی تاخیر کے ساحل پر بیچ کیا جاسکتا ہے.
ایک اور اخبار کی رپورٹ کے مطابق گڈانی شِپ بریکنگ یارڈ پر ایک سال کے اندر سو سے زائد بحری جہاز بھی توڑے (ڈسمینٹل) کیے جاسکتے ہیں.

یہ باتیں تو ہوگئیں… چلو اب تلخ حقائق کی جانب آتے ہیں جن کی وجہ سے میں نے یہ قدرے لمبی تحریر لکھنا شروع کیا. یہ حقائق یہاں پر کام کرنے والے مزدوروں کے متعلق ہیں.

شِپ بریکنگ یارڈ کے بارہ ہزار ملازمین سالانہ تقریباً بارہ بلین روپے ملکی خزانے میں اضافہ کررہے ہیں مگر اس کے باوجود ان ملازمین کی حالت انتہائی قابلِ رحم ہے.

یارڈ میں حفاظتی انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں کام کے دوران کسی بھی ملازم کا ہاتھ غلطی سے ذرا سا ہل جائے سمجھو وہ گیا کام سے.

اس کے علاوہ جہازوں کے اوپر بھاری سامان توڑکر نیچے پھینک دیے جاتے ہیں جس کے زد میں آکر اب تک کئی لوگ شدیدزخمی ہوئے ہیں. شپ بریکنگ کے دوران ساحل کا پانی اتنا گندا ہوجاتا ہے کہ مچھلیوں کا سمندر کے اس حصّے میں رہنا ممکن ہی نہیں رہتا.

شِپ بریکنگ یارڈ کی موجودگی کی وجہ سے گڈّانی کی فضاء بھی انتہائی آلودگی کا شکار رہتا ہے اس پر پسنی سے تعلق رکھنے والے ایک میڈیکل افسر نے بتایا کہ یہ گہری آلودگی شِپ یارڈ کے قریبی آبادی کو شدید متاثر کرسکتی ہے جس سے خاص کر چھوٹے بچّے دمے کے مرض میں مبتلا ہوسکتے ہیں. گڈّانی میں دَمے کے شکار بچّوں کی ایک اچھی خاصی تعداد بھی موجود ہے.

ایک سماجی ورکر اصغربلوچ نے شکوہ کیا کہ آبی جہازوں کے توڑ پھوڑ کے دوران یہ کیمیکلز کو الگ کرکے ایک ویران جگہ پر ضائع کرنے کے بجائے سمندر میں ہی چھوڑدیتے ہیں جس سے نہ صرف ماحولیاتی آلودگی پیدا ہوتی ہے بلکہ آبی آلودگی بھی جنم لیتی ہے جس سے سمندری حیات کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے.

شِپ یارڈ کے بالکل قریب ہی ٹینٹس پر مشتمل مزدوروں کی بستی آباد ہے جس کے ہرطرف گندگی ہی گندگی، کُتّوں کی بھرمار، کیڑے مکوڑے، بدبو…. پھربھی یہ مزدور اپنے دن رات یہیں پر گزارنے پر مجبور ہیں کیونکہ ان میں اکثریت کا تعلق دور دراز کے علاقوں سے ہے جیسے کہ سندھ، پنجاب اور خیبرپختونخواہ. اس کے علاوہ روہنگیا اور بنگالیوں کی بھی ایک بڑی تعداد موجود ہے.

ایک چھوٹے سے جھونپڑی میں درجنوں مزدور جانوروں کی طرح رہنے پر مجبور ہیں حتٰی کہ جگہ کم پڑجانے کے باعث سوتے وقت وہ پھیر بھی نہیں پھیلا سکتے.
ان جھونپڑیوں کے آگے کچھ اسٹالز بھی لگے ہیں جو روزمرہ کی ضروریات کی چیزیں بیچتے ہیں. گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ مملکِت خداداد کے دوسرے شہر ترقّی کرتے چلے گئے مگر گڈّانی کے رہائشی آج بھی پینے کے پانی، بجلی، سڑکیں اور ہسپتال سے یکسر محروم ہیں. سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ فضائی آلودگی کے باعث یہاں قدرتی آکسیجن کی بھی قلّت ہے.

یہ جان کر آپکو بھی حیرانگی ہوگی کہ شِپ بریکنگ کی سخت اور خطرناک کام کے لیے کپمنیاں ازخود لوگوں کو ملازمت کے لیے نہیں رکھتے بلکہ ٹھیکیداروں سے رابطہ کرکے مزدوروں کو کام پہ رکھتے ہیں جنہیں نہ میڈیکل سہولت دی جاتی ہے اور نہ ہی ڈیلی ویجز کے علاوہ اوور ٹائم پیسے، بلکہ ان کو حقداری تک نہیں دی جاتی.

ایک مزدور نے مایوسی کے عالم میں بتایا کہ وہ سخت محنت کرنے کے بعد جو پیسہ کماتے ہیں ان میں سے بھی نّوے روپے یونین فنڈ کے نام سے کاٹے جاتے ہیں.

ایک مذدور نے اپنے ایک کاشف نامی دوست کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جہاز میں کام کے دوران کیمیکلز کی موجودگی کی وجہ سے اچانک ایک زوردار دھماکہ ہوا جس سے اُس حصّے میں آگ لگ گئی اور کاشف بھی اسکی لپیٹ میں آگیا. اس نے مزید کہا کہ یونین کی طرف سے اُسے کسی بھی طرح کی مدد نہیں ملی.

یارڈ میں ایسے مزدور بھی تھے جو بغیر کسی گلوز و دیگر ضروری حفاظتی سامان کے اس مشکل کام میں مصروف تھے.

میں سوچ رہاتھا کہ کام کے دوران اگر کسی کو چوٹ لگ گئی تو کیا اقدامات اٹھائے جائیں گے، میرے اس سوال پر ایک مزدور مجھے ایک بزرگ مزدور کے پاس لے گیا جس کے دائیں پھیر پر گہری زخم لگی تھی جس کے باعث وہ کام کرنا تو درکنار گھر تک نہیں جاسکتا تھا کیونکہ اس کی تنخواہ آنے میں دس دن اب بھی باقی تھے. اس منظر کو دیکھ کر مجھے انسانی زندگی کی گرتی ہوئی قیمت کا صحیح اندازہ ہوگیا.

گڈانی شپ بریکنگ یارڈ کے ہر جھونپڑی میں ایک درد بھری داستان موجود تھی صرف سننے والے کی کمی تھی. یہاں کے مزدوروں کے خواب، خواہشیں، تفریح کی سوچ، سب کچھ غالباً ختم ہی ہوکر رہ گئی ہے.

Advertisements
julia rana solicitors london

ایک یونین کے صدر سے میں نے ان تمام مسائل کا پوچھا تو وہ ان تمام سوالات کا جواب دینے کے بجائے بات کو ٹالتا رہا. چونکہ میرا مقصد وہاں جاکر رپورٹنگ کرنا نہیں تھا اس لیے میں نے ذمہ داروں کے بجائے صرف متاثرین کی داستان دریافت کیے

Facebook Comments

حال حوال
یہ تحریر بشکریہ حال حوال شائع کی جا رہی ہے۔ "مکالمہ" اور "حال حوال" ایک دوسرے پر شائع ہونے والی اچھی تحاریر اپنے قارئین کیلیے مشترکہ شائع کریں گے تاکہ بلوچستان کے دوستوں کے مسائل، خیالات اور فکر سے باقی قوموں کو بھی آگاہی ہو۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply