دادا جی کے نام خط- ایک نیا طرزِ مکتوب

زمانۂ طالب علمی میں غالب کے خطوط سے پہلا تعارف ہوا۔ غالب کے خطوط جن کی لطافت صدی گزرنے کے بعد آج بھی قاری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہے۔ غالب کے مکاتیب کو جدید اردو نثر نگاری کی ایک بنیادسمجھا جاتا ہے۔ رنگینی و قافیہ پیمائی ، انشاءپردازی اور ثقیل اصطلاحات جو اس دور میں اردو مکاتیب کا اصل سرمایہ سمجھی جاتی تھیں، غالب نے اس طرز تحریر سے بغاوت کرکے مکتوب نگاری کی ایک نئی راہ نکالی، سادہ و پرکار، حسین و رنگین، سلیس اور تکلفات سے پاک ایک جدید اسلوب کی بنیاد۔ اور یہی نمونۂ نثر آنے والوں کے لئے مشعلِ راہ ثابت ہوا۔ غالب کے خطوط کیا تھے ایک داستان، ایک مکالمہ، ایک کہانی اور تاریخ کے ترجمان تھے، جس میں غالب کی اپنی شخصیت انکی زندگی، انکے دوست احباب سے مکالمے اور واقعات، قاری کو ان کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔

غالب کے علاوہ بھی اردو مکتوب نگاری میں کئی بڑے نام ہیں۔ سر سید احمد خان ، مولانا آزاد، حالی، شبلی، ڈپٹی نذیر احمد اور منشی پریم چند کے علاوہ علامہ اقبال کے مکاتیب بھی اردو نثر کا حصہ ہیں۔
اردو مکتوب نگاری کے ضمن میں ڈاکٹر خورشید اسلام نے لکھا تھا کہ
“زندگی اپنی راہیں خود بنا لیتی ہے ۔خط اپنی باتیں خود پیدا کر لیتا ہے ۔۔۔زندہ رہنے کے لیے اور خط لکھنے کے لیے زندگی کا احترام ضروری ہے۔”

زمانہ بدلہ اور مکتوب نگار کے خط لکھنے کا دائرہ بھی۔ اب مکتوب الیہ کا وجود بھی، ڈاکٹر خورشید الاسلام کی تحریر کے برعکس زمان و مکاں کی قید سے آزاد ہو چکا ہے۔ جدید دور میں جب خط لکھنے کا تصور تیزی سے ختم ہوتا نظر آتا ہے، آن لائن اردو ویب سائٹس کے اجراء نے ایک نئی طرز کے اسلوب کی بنیاد ڈالی ہے۔ مورٓخ جب اردو مکتوب نگاری کی تاریخ لکھے گا تو اس نئے طرز کی بنیاد کا سہرا پاکستان کی جدید اردو ویب سائٹس کے سر سجایا جائے گا جنہوں نے ای میلز اور پیغامات کے ارسال کے تیز ترین ذرائع کے اس دور میں مکتوب نگاری کو ایک نیا اسلوب اور جدت عطا کی۔
اس طرز کے بنیاد رکھنے والوں میں جب مورخ لینہ حاشر کے “مرنے کے بعد خواجہ سرا کا اپنی ماں کے نام خط” کا ذکر کرے گا تو انعام رانا کے اپنے “دادا جی کے نام خط” کا ذکر بھی ضرور کرے گا۔

لینہ حاشر کے خط کے موضوع عموماً ایسے افراد کے جذبات کے عکاس ہوتے ہیں جو اپنوں کے ہاتھوں یا اپنوں کے پیدہ کردہ اسباب کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار جاتے ہیں اور بلاشُبہ اُن کے خطوط سے جھلکتا درد کسی بھی انسان کی آنکھیں نم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لیکن آج انعام رانا کے خط نے ایک نئی جہت کی بنیاد رکھی کہ یہ خط اُنہوں نے اپنے ایک حقیقی خونی رشتے کو لکھا اپنے دادا جی کو۔

خط کا پہلا حصہ پڑھیں تو آپ کا دل درد سے بھر جاتا ہے۔ اپنے والد کی یتیمی کا دکھ رانا صاحب کے والد کی وفات کے بعد اب ان کا بھی مشترکہ دکھ ہے کہ اپنی والد کی آنکھوں سے جھانکتی ویرانی اب ان کی بھی میراث ہے۔ ان کے خط میں ان کی اپنے دادا جی سے محبت اور عزت کے ساتھ ساتھ، دادا اور پوتے کے رشتے کی فطری بے تکلفی صاف جھلکتی ہے؛ باوجود اسکے کہ وہ اپنی دادا جی سے کبھی ملے ہی نہیں۔

خط کے جس حصے میں وہ اپنی دادی کا ذکر کرتے ہیں تو ایسا لگتا ہے کہ یادوں کی کھڑکی سے بہت سے مناظر ان کی آنکھوں کے سامنے ہوں اور وہ اپنی پسند کی یاد کا ایک ایک منظر کسی بے حد پیارے دوست سے بیان کرتے ہوں۔ لفظوں کے تناسب اور زیر، زبر، پیش کی قید سے آزاد منظرکشی۔دادی جی کا فطری اندازِگفتار ان کی یادداشت میں مقید ہے، دادی سے دادا کے گھوڑوں سے لگاؤ کی باتیں سن کر پرورش پانے والے پوتے کی وراثت میں گھوڑے سے لگاؤ کا ہونا ایک قدرتی امر ہے۔ دادا جی، کہ جن کے گھوڑوں کی تعریف بیان کرتے ہوئے، اُن کے گھوڑوں کے چھین لئے جانے کے دُکھ کو دادی نے جیسے وراثت میں انعام رانا کو منتقل کردیا تھا۔ اُس دُکھ سے آگہی کو اپنے ذاتی دُکھ کے پردے میں بیان کرکے وہ دادا جی سے اپنے اٹوٹ تعلق کا اعادہ کرتے ہیں ایسا تعلق کہ جس کی تکلیف وہ اپنے دل میں محسوس کرتے اور اپنی آنکھوں سے روتے ہیں۔ اسکے بعد کی تحریر انکی اس زندگی کا بیان ہے جو انکے والد کے بعد شروع ہوئی۔ وہ دادا جی سے اپنی محنت و لگن اور ترقی و کامیابی کا ذکر کرتے ہوئے دادا کی اس خواہش کی پاسداری کا بیان کرتے ہیں جو دادا جی نے تعلیم کے حوالے سے انکے والد کے لئے کی تھی۔

یادوں کی پرُخار گلیوں کا سفر کرتے رانا صاحب کا یہ خط ایک ایسے بیانئیے پہ ختم ہوتا ہے جس میں ایک راجپوت نے جیسے اپنے دادا جی کی تکلیفوں کا مداوہ کر دیا ہو۔ بغیر تلوار کے بھی ایک جنگ جیت لینے کا فخر اپنے اس علم کی بدولت، جس کے حاصل کرنے کی دادا جی نے اپنی زندگی میں وصیت کی۔ رانا صاحب جیسے دادا جی کے سامنے سر اُٹھا کے یہ الفاظ فخر سے بیان کرتے ہوں کہ آج انہوں نے اپنے دادا جی کی ساری تکلیفوں کا بدلہ لے لیا ہے۔ دادا جی سے انُکا یہ بیان کہ دادا جی آج اس قابل ہوں کہ جس افسر نے طاقت کے زور پر آپ سے آپ کے گھوڑے چھین لئے تھے، آج انکے پوتے میرے سامنے نوکری کی عرضی پیش کرتے ہیں۔ دادا جی کے لئے تو بلاشُبہ یہ فخر کا مقام ہوگا ہی لیکن انعام رانا کے آخری جملے میں جھلکتا فخر یقیناً ہم سب کا فخر ہے جس میں وہ کہتے ہیں کہ؛
“انعام نے آج غلامی کا داغ اُتار ڈالا ہے۔”

Advertisements
julia rana solicitors

حوالہ: اردو مکتوب نگاری- مصنفہ ڈاکٹر شاداب تبسم

Facebook Comments

ثمینہ رشید
ہم کہاں کہ یکتا تھے، کس ہنر میں دانا تھے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply