بھارتی جاسوس اور بھارت

بھارتی جاسوس اور بھارت
طاہر یاسین طاہر
عالمی سیاسی کھیل علیحدہ سے توجہ کا طالب ہے،علاقائی سیاسی کھیل مگر اس سے بھی زیادہ دقت نظر چاہتا ہے۔طے شدہ حقیقتیں بدلا نہیں کرتیں۔شام میں امریکہ کی براہ راست مداخلت خطے اور دنیا کے لیے ایک نیا پیغام ہے۔ہم ایک تیسری عالمی جنگ کی کیفیت میں ہیں۔ اس جنگ کے مگر خدو خال ذرا مختلف ہیں۔بھارت پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کوششوں میں ہے۔ اس مقصد کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہے۔پاکستان کو داخلی طور پر کمزور کرنے اور انتہا پسند و علیحدگی پسند تنظیموں کی پشت بانی کر کے بھارت یہ مقصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔یہ ایک پیچیدہ عمل ہے۔ایم کیو ایم کی قیادت کے” را” سے رابطے طشت ازبام ہو چکے ہیں۔ بلوچ علیحدگی پسندوں کے لیے بھارتی ہمدردی کوئی راز نہیں۔نام نہاد جہادیوں کو بھی بھارت کی سپورٹ حاصل ہے۔
بھارت عالمی برادری کو یہ باور کراتا رہتا ہے کہ پاکستان کی طرف سے سرحدی در اندازی ہو تی ہے۔لیکن کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اور اس کا پاکستان میں تخریب کاری کروانے کا اعتراف ہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ بھارت پڑوسی ممالک میں در اندازی کرتا ہے۔ملکوں کے مفادات ہوتے ہیں اور ملکوں کے اپنے اپنے سچ ہوتے ہیں جو قومی مفادات کی دھار دیکھ کر بولے جاتے ہیں۔بھارت کا کہنا یہ ہے کہ کلبھوشن یادیو جاسوس نہیں بلکہ اسے اغوا کر کے بھارت کو بد نام کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔جبکہ 3 مارچ 2016 کو حساس اداروں نے بلوچستان کے علاقے ماشکیل سے بھارتی جاسوس اور نیوی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا تھا۔گرفتاری اور اغوا دو الگ چیزیں ہیں۔
کلبھوش یادیو پاکستان میں تخریب کاری کی کارروائیوں میں ملوث ہے اور اس کے ہاتھ سینکڑوں پاکستانیوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔کیا بھارت مشرقی پاکستان اور موجودہ بنگلہ دیش میں بھی ایسی کارروائیاں نہیں کر چکا؟بھارتی جاسوس اپنے جرائم کا اعتراف کر چکا ہے۔ کلبھوش جو کہ بھارتی خفیہ ایجنسی “را” کا ایجنٹ ہے اس کی گرفتاری کے چند روز بعد اس کی ویڈیو بھی سامنے لائی گئی تھی، جس میں کلبھوشن یادیو نے اعتراف کیا تھا کہ اسے 2013 میں خفیہ ایجنسی “را”میں شامل کیا گیا اور وہ اس وقت بھی ہندوستانی نیوی کا حاضر سروس افسر ہے۔کلبھوشن نے یہ بھی کہا تھا کہ 2004 اور 2005 میں اس نے کراچی کے کئی دورے کیے جن کا مقصد “را”کے لیے کچھ بنیادی ٹاسک سرانجام دینا تھا جب کہ 2016 میں وہ ایران کے راستے بلوچستان میں داخل ہوا۔ویڈیو میں کلبھوشن نے اعتراف کیا تھا کہ پاکستان میں داخل ہونے کا مقصد فنڈنگ لینے والے بلوچ علیحدگی پسندوں سے ملاقات کرنا تھا۔ اس نے مزید کہا تھا کہ بلوچستان کی علیحدگی پسند تنظیموں کی متعدد کارروائیوں کے پیچھے “را “کا ہاتھ ہے۔
وہ ٹاسک کیا تھے جن کے حصول کے لیے یادیو بار بار پاکستان آتا رہا؟یقیناً تخریب کاری۔کلبھوشن کی سزا پر اگر عمل در آمد ہوتا ہے تو یہ ایک بہت بڑی اور جرات مندانہ بات ہوگی۔کیونکہ بھارت اپنے بندے کے لیے عالمی سفارتی دبائو کو بھی استعمال کرے گا۔اس مرحلے پر پاکستان کو بھی سفارتی سطح پہ جارحانہ سفارت کاری کرتے ہوئے دنیا کو ثبوتوں کے ساتھ بتانا چاہیے کہ بھارت پاکستان کے خلاف کس طرح کے عزائم رکھتا ہے۔بین الاقوامی تعلقات کے طالبعلم جانتے ہیں کہ ہر ملک دوسرے ملک کی جاسوسی کرتا ہے۔ لیکن پڑوسی ممالک کو داخلی طور کمزور کرنا اور دہشت گردی کروانا بھارت کا خاصا ہے۔ یہاں یہ قطعی مراد نہیں کہ دہشت گردی کی ہر واردات کے پیچھے بھارت ہی ہے۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ دہشت گردوں کو فنڈنگ کرنے میں بھارت پیش پیش ہے۔پاکستان کا موقف بڑا واضح ہے۔سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی جب شر م الشیخ میں ایک کانفرنس میں گئے تھے تو انھوں نے وہاں بھارتی وزیر اعظم منموہن سنگھ کو بلوچستان میں” را” کے ملوث ہونے کے ثبوت پیش کیے تھے۔ سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کراچی کی بد امنی کو “را” اور اسرائیل کی کارستانیاں بتاتے رہے۔یعنی کلبھوشن کی گرفتاری کوئی یک بیک نہیں ہوئی بلکہ سیکیورٹی ادارے بھارتی جاسوسوں پہ مسلسل نظر رکھے ہوئے تھے۔بھارت کی جانب سے جارحانہ بیان بازی اور دھمکی کہ پاکستان سے تعلقات خراب ہو سکتے ہیں، در اصل کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف ہے۔بھارت اپنے جاسوس کی واپسی یا اس کی سزائے موت معاف کروانے کے لیے تمام تر ذرائع استعمال کرے گا۔اب یہ جنگ قانونی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی سفارتی محاذ پر بھی لڑی جائے گی۔نیپال سے پاکستانی ریٹائرڈ فوجی افسر کی گمشدگی بھی اسی کھیل کا حصہ ہو سکتا ہے۔بھارت یہ ثابت کرنے کی کوشش کرے گا کہ پاکستان سے در اندازی ہو رہی ہے اورپاکستانی جاسوس بھارت کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان عالمی برادی کا سفارتی دبائو برداشت کر لے گا؟بے شک اگر پاکستان نے اس محاذ پر اپنا کیس ثبوتوں کے ساتھ اور پر اعتماد انداز میں پیش کیا تو بھارت کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آشکار ہو جائے گا۔بھارت کلبھوشن کی سزائے موت کے فیصلے پر احتجاج بھی کرتا رہے گا اورخطے میں پاکستان کے حق میں جاری،معاشی و سیاسی سرگرمیوں کے خلاف سازشیں بھی کرتا رہے گا۔سی پیک اس حوالے سے بھارت کا خاص ہدف ہے۔بھارت اپنے خواب کی تکمیل چاہتا ہے۔مگر اپنے پڑوسیوں کو تباہ کر کے۔ بھارت کا یہ رو یہ عالمی برادری کوایک خوفناک انجام سے دوچار نہ کردے۔پاکستان کو اس نئے محاذ پر اپنا مقدمہ جرات مندی اور ثبوتوں کے ساتھ لڑنا چاہیے۔تاریخ اور تقدیر نے ہمیشہ سچوں کا ساتھ دیا ہے۔

Facebook Comments

اداریہ
مکالمہ ایڈیٹوریل بورڈ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply