کنوارگی اور بیروزگاری

کنوارے حضرات کو اپنے تئیں جہاں دنیا بھر کے سکھ و آسائش میسر ہوتی ہیں، وہیں مسکینوں کو چند آزار بھی لاحق ہوتے ہیں ۔کبھی انکو جوتا ابا کے کمرے سے ملتا توجراب چھت پر جا کر ملتی ہے- موٹر سائیکل کے لیے پٹرول سبزی کے پیسوں سے ڈلتا اور یاری دوستی سوئے ہوئے باپو کی جیب مبارک پر ہاتھ صاف کر کے چلتی ہے- کبھی دل کی کرچیاں سمیٹتے نظر آتے ہیں کہ قدم بہ قدم ایسے ناہنجار قسم کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں -ایک سہولت البتہ ایام کنوارگی و بیروزگاری میں ہمیشہ میسر رہتی کہ کسی بھی خالی سیٹ واسطے درخواست دی جا سکتی ہے جبکہ یہ سہولت شادی شدہ حضرات کو میسر نہیں رہتی –
شادی جیسا لڈو کھا چکنے کے اور سب کچھ(لٹا) دینے کے بعد وہ یہ کہنے “جوگے” بھی نہیں رہتے۔ بھائی یہ لڈو ابھی تک نہیں کھایا اور نہ ہی یہ کہنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں کہ بتائیے دیویں کے کھا چکے – بہرحال بات بیروزگاری اور کنوارگی کے متعلق تھی کہ بیروزگار آدمی جب جب کہیں درخواست دیتا ہے تو کچی پکی امیدِ میں دیتا ہے کہ ہوا تو ہوا ،ورنہ کوئی اور محکمہ کوئی اور آسامی سہی ۔پھر عین اسی وقت جب کوئی حضرت کہیں دل کی بابت عرضی پیش کرتے ہیں تو تیقن ایمان کے درجے تک رکھتے ہیں کہ یہاں سے پیام محبت واپس آیا کہ آیا ۔یعنی اب کے بہار آئی تو یکبار آئی ،والا معاملہ ہو گا اور اسی کو منزل تصور کیے رکھتے ہیں تا وقتیکہ وہاں سے جواب آں غزل صورت انکار موصول نہیں کر لیتے – مگر مردود(یقیننا میں مردوں لکھنا چاہ رہا تھا) حضرات عین جواب موصول کرتے وقت نہاں خانہ دل میں از خود ایک عدد اور چنگاری بھڑکا لیتے ہیں اور پھر فورن سے پیشتر اسی چنگاری کی حدت سے دامن دل کو گرمائے رکھتے بلکہ تو نہیں اور سہی کا مصرعہ ورد زبان کر لیتے ہیں۔ اس سے اگر خواتین مردوں کی وفاداری کا اندازہ لگانا چاہتی ہیں تو بسم اللہ –
اب اگر کسی ویلے آدمی کی نوکری لگ ہی جاتی ہے اور کنوارے کی شادی گوں ناگو وجوہات کی بنا پر سرانجام پا ہی جاتی ہے تو پھر ان دونوں محاذوں پر ایک جنگ کی ابتدا ہو جاتی ہے۔ برسر روزگار ہونے والے حضرت انسان کو اس نوکری کی جملہ خرابیاں اور اپنے سے وڈے افسروں کی کوتاہیاں نظر آنے لگتی ہیں اور وہ صاحب خود کو اس کرسی کبیر کے اہل گردانتے ہیں یا پھر کچھ عرصہ اگر نکال ہی لیتے ہیں تو زیادہ دن ٹک نہیں پاتے اور پھر نئے سرے سے روزگار نو کی تلاش میں سرگرداں ہو کر عمومی طور پر پہلی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور پھر سنجیاں ہو گئیاں گلیاں وچ مرزا یار پھرے کے مصداق نوکریوں کو ٹھوکر اپنی کم فہمی کی بنا پر مار کر پھر ٹر گئیاں نوکریاں تے ہن دفتراں وچ بیروزگار پھرے والا معاملہ ہو جاتا – جبکہ دوسری طرف جو حضرات کنوارگی جیسی نعمت لٹا کر زوجہ محترمہ کی بلائیں لیتے نہیں تھکتے تھے وہ بیچارے اب اس مخمصے میں پڑ جاتے کہ یار میں چنگا بھلا بندہ سی تو پھر کس احمق کے مشورے پر یہ کارہائے نمایاں انجام دے بیٹھا ہوں اور دیا تو دیا اب تو سانس لینا محال ہوا جاتا ہے۔
یہی وہ نالاں شخص ہوتے ہیں جنکو مسکین کنوارگی کی آگ میں جلنے والے بقایا عوام پر مفت میں کچیچیاں چڑھتی رہتی ہیں – یہاں پر انکو جو سب سے بڑی مصیبت درپیش ہوتی ہے وہ یہ کہ نوکری کی طرح اب بیوی کو فوری طور پر بدلا نہیں جا سکتا اور نہ ہی وڈی سیٹ پر بیٹھی ساس یا سسر صاحب کو کوسنا دیا جا سکتا کہ ظالمو،ہاتھ کر گئے میرے ساتھ – اب پھر وہی حضرت یاد ایام کنوارگی کیے بیٹھے رہتے اور زوجہ محترمہ کے ساتھ سر پھٹول (ہر دو صورتوں) میں جاری رہتی ہے – در اصل یہ سارے خیالات بندے کے دماغ میں اپنے چند کنوارے دوستوں کی شادی کے بارے آہ و فریاد سن کر اور پڑھ کر آ گئے کہ شاید انہوں نے گزشتاگان شادی شدگان کے نوحے نہیں پڑھ رکھے ورنہ ایسی فریاد کرتے کبھی نہ پائے جاتے –

Advertisements
julia rana solicitors

تو بھائیو ذرا بچیو ایسی ناہنجار قسم کی خواہشات سے جو گر، چار دن ہنسی خوشی جینا ہے تو –

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply