میری آنکھیں ،میری پتلون،میری مرضی۔۔مطربہ شیخ

میرا جسم میری مرضی کو اتنے منفی تناظر میں کیو ں دیکھا جا رہا ہے کہ بات قرآنی آیات تک آ گئی  ۔ جب بات قرآنی حوالوں سے دی جانے لگتی ہے تو قلم اٹھانا ضروری ہو جاتا ہے ۔ قرآن کی آیات کو اپنے مقاصد کے لئے استعمال نہ کیا جائےتو بہتر ہو گا .اسی قرآن میں ، جائیداد کی وراثت ،حق مہر ، نکاح اور زنا بالجبر کے بھی احکامات ہیں وہ تو ہمیں نظر نہیں آتے، لیکن جیسے ہی عورت حق کی بات کرتی ہے تو سب کو قرآنی حوالے یاد آ جاتے ہیں .کیا  قرآن صرف عورتوں کے لئے نازل ہوا ہے ۔ قرآن اصل میں القرآن ہے جس میں سب کے لئے یکساں احکامات اور ہدایات ہیں ۔ جب عورت کو ڈھانپنے کا حکم ہے تو مرد کو بھی ستر کے حوالے سے ہدایت دی گئی ہیں  ۔مرد کو بھی آنکھیں جھکانے کا حکم دیا گیا ہے ۔ یہاں میں روایت پسند اور ترقی یافتہ دونوں طبقات سے یہ عرض کرنا چاہتی ہوں کہ معا ملات کو متوازن تناظر میں دیکھا جائے تو بہتر ہو گا اس ضمن میں ایک واقعہ لکھنا چاہتی ہوں .

ایک خاتون نے شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ سے پوچھا کہ شیخ محترم شادی سے قبل میں نماز اور روزے کی بہت پابند تھی۔۔۔ قرآن مجید کی تلاوت کرنے میں لذت محسوس کرتی تھی لیکن اب مجھے ان چیزوں میں ایمان کی وہ حلاوت نہیں مل پاتی۔
شیخ البانی نے پوچھا: میری مسلمان بہن مجھے یہ بتاؤ اپنے خاوند کے حقوق ادا کرنے اور اس کی بات ماننے کا آپ کس قدر اہتمام کرتی ہیں؟

وہ سائلہ حیرت سے کہنے لگی : شیخ محترم! میں آپ سے قرآن کی تلاوت٬ نماز اور روزے کی پابندی اور اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی حلاوت کے متعلق پوچھ رہی ہوں اور آپ مجھ سے میرے خاوند کے متلعق استفسار کر رہے ہیں۔

شیخ البانی رحمہ اللہ فرمانے لگے: میری بہن! بعض خواتین اس لئے ایمان کی حلاوت٬ اللہ تعالیٰ کی فرمانبرداری کی لذت  اور عبادت کا پرلطف اثر محسوس  نہیں کر پاتیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  (ولا تَجدُ المرأة حلاوة الإيمان حتَّى تؤدِّي حقَّ زوجها) “کوئی بھی عورت اس وقت تک ایمان کی حلاوت نہیں پا سکتی جب تک وہ اپنے خاوند کے حقوق کما حقہ ادا نا کر دے” (صحیح الترغیب حدیث نمبر 1939)

اس واقعے سے ہم کو یہ سبق ملتا ہے کہ خاتون اگر شادی شدہ ہے تو شوہر کی خدمت کرنا اسکا فرض ہے اور شوہر پر بھی  اس کے حقوق کا تحفظ  اور احترام کرنا فرض ہے ، نان نفقے کی ذمہ داری دین نے مرد کو سونپی ہے لیکن ہمارے معاشرے کے بہت سے مرد ا س ذمہ داری سے غافل ہیں ،اور اگر مرد غافل ہو تو پھر مجبورا عورت کو گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے ، خواتین کی اکثریت مجبوری میں باہر نکلتی ہے ۔اور جو نکلتی ہیں جو استانیاں ہیں ۔ جو ڈاکٹر ز ہیں ۔جو نرسز  ہیں ۔ جو ہیلتھ ورکرز ہیں ۔ جو گھروں اور فیکٹریوں میں کام کرنے والیاں ہیں ۔ ہمارا مجموعی رویہ یہ ہونا چاہیے کہ عورت کو مساوات کی بنیاد پر انسان سمجھا جائے اگر وہ بہ حالت مجبوری گھر سے نکلے ، تو ان کو ہراساں نہ کیا جائے آوازے لگا کر ۔ ہاتھ لگا کر اور سیٹیاں مار کر ۔ اگر وہ گاڑی چلائے تو آگے پیچھے بائیک لہرا کر یا پھر یہ کہہ کر کہ گھر سے کیوں نکلتی ہو  ، ہو سکتا ہے وہ گھر سے اس لئے نکلی ہو کہ اس کے گھر میں کوئی  مرد کما کر دینے والا اور باہر  کے کام کرنے والا نہ ہو ، وہ تو اپنا کام کرنے نکلتی ہے اس کی عزت کرنا دینی، سماجی اور اخلاقی فرض ہے ۔ اور یہی ان کی مرضی ہے ۔

ہمارے ملک کی خواتین کی اکثریت برہنگی کو پسند نہیں کرتی ہے، وہ عبایا نہ بھی پہنے تو ڈھکے چھپے کپڑوں میں ہی گھر سے نکلتی ہے، کیا عورت گھر سے نکلے گی تو آپ کہیں گے چلتی ہے ، کیا وہ ڈاکٹر سےدوا لینے نہیں جا سکتی . گویا ہماری کوئی  اخلاقیات نہیں ہیں نہ ہی ہم سیکھنا چاہتے ہیں کیا ہم صرف بد گوئی  کرنا چاہتے ہیں ۔ میرا جسم میری آنکھیں گویا آپ دیکھیں گے کیا دیکھیں گے وہی سب کچھ جو آپ کے گھر کی خواتین کے پاس ہے اور کہیں ان کو بھی کوئی  دیکھ رہا ہے ایسا ہی ہے نہ کیونکہ آنکھوں والے لوگ تو ہر جگہ ہیں سڑک پر ۔ دکان میں ۔اسٹور میں ۔ اور بس میں بھی ۔ ہمارے مرد تو اتنے با اخلاق ہیں کہ بس میں بھی سکون سے نہیں بیٹھنے دیتے موقع ملتے ہی ہاتھ لگانا ۔ ٹکرانا فرض سمجھتے ہیں ۔ یہ نہیں سوچتے کہ عورت بھی ان ہی کی طرح کام کر کے تھکی ہاری بس میں سوار ہوئی  ہے ، اس کو سفر کے چند لمحات تو سکون سے گزارنے دیں گھر پہنچ کر بھی عورت کو گھر کا کام کرنا ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

لیکن اذیت پسندی ہمارے مجموعی مزاج کا خاصا بنتی جا رہی ہے ۔ ہم دوسرے کا مذاق   اڑا کر ۔دوسرے کو تکلیف پہنچا کر شاید خوشی محسوس کرتے ہیں یہ سوچے بغیر کہ ہمارے رب نےہمیں اخلاق کی کون سی ہدایات سکھائی  ہیں ۔ لباس کے معاملے میں اگر عورت پابند ہے تو کہنا یہ ہے کہ آج کل کے اچھے خاصے سمجھدار مرد بھی اس معاملے میں ڈفر ہیں ۔ اتنی نیچے پینٹ باندھ لیتے ہیں کہ سرعام اگر کسی کام سے جھکنا پڑ جائے تو دوسروں کی آنکھوں کا حشر ہو جاتا ہے کہ یہی بد ترین  نظارہ دیکھنے کو رہ گیا تھا ۔ فیس بک پر ہی کہیں کمنٹ پڑھا کہ کچھ لوگ تو بائیکس پر بھی جینز کی زپ کھول کر کے بیٹھ جاتے ہیں تا کہ وہ دکھا سکیں کہ ان کے پاس جسم اور ان کی مرضی ہے گویا آپ کریں تو آپ کی مرضی ہے عورت اپنی مرضی کرے تو فاحشہ ۔ اخلاقیات کا یہ میعار قابل قبول نہیں ہے ۔ کم از کم  عورت ایسے کپڑے نہیں پہنتی جس کو دیکھ کر دل خراب ہو جائے یا  کراہت آ جائے ۔ نہ ہی میرے ملک کی خواتین ہر وقت گھر سے باہر گھومنا چاہتی ہیں . سماجیات اور اخلاقیات کے مجموعی پیمانے درست ہونے چاہئیں تاکہ معاشرے میں توازن پیدا ہو ، تصادم کی صورتحال پیدا نہ ہو . سارے باشعور افراد کی یہی مرضی ہونی چاہیے . وسلام مطربہ شیخ

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”میری آنکھیں ،میری پتلون،میری مرضی۔۔مطربہ شیخ

  1. آپ نے اپنی تحریر کے ذریعہ جو بیانیہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے وہ درست نہیں۔مردوں کی حرکات و اخلاقیات کے بارے جو لکھا ہے وہ ہمارے معاشرے میں گو کہ یہ اسلامی معاشرہ نہیں ہے کتنے فیصد لوگ اس میں ملوث ہیں۔ اور جو ملوث ہیں وہ کوئی روایت پسند یا اسلام پسند نہیں بلکہ بھٹکے ہوئے بے راہ رو اور اپنے اپ کو روشن خیال کہلوانے والے ہیں۔نسوانیت کو تار تار کرنے والوں کی بہت زیادہ غالب اکثریت روشن خیال اور اپنے اپ کو مذہبی و معاشرتی حدود و قیود سے آزاد سمجھنے والوں کی ہے۔قرآن و احادیث کے احکامات کی پابندی ہر مرد و زن پر یکساں لازم ہے۔اپنے اپ کو مسلمان کہلواتے ہوئے یہ کہنا کہ قرآن کو بیچ میں کیوں لایا جائے۔ نری جہالت ہے۔ جب ہم ایک ضابطہ حیات یعنی اسلام کو مانتے ہیں تو اس کے احکامات اس کے ماخذ ہی سے لئیے جائیں گے۔ اور اگر کوئی قرآن کے احکامات کو نہیں مانتا تو وہ برابر کا سزاوار ہے چاہے مرد ہو یا عورت

Leave a Reply