اور چڑیا مر گئی

میرے کام کی نوعیت کی وجہ سے مجھے شہر، گاؤں، پہاڑوں، صحراوں، دشت غرض ہر جگہ جانا پڑتا ہے۔ آج بھی کام کے سلسلے میں ایک جگہ پہنچنے کی غرض سے بیابان سے گزرتے ہوئے ایک چڑیا اڑتی ہوئی آئی اور ہماری تیز رفتار گاڑی کے فرنٹ شیشے سے ٹکرا گئی۔

ہم سے نہیں رہا گیا اور واپس گاڑی موڑ کر اس جگہ آئے جہاں چڑیا گری تھی۔ اسے ڈھونڈا اور جلدی سے پانی کی بوتل کے ڈھکنے میں پانی ڈال کر اسے پلانے کی کوشش کی۔ لیکن وہ سسک رہی تھی۔ اس سے پانی بھی نہیں پیا جا رہا تھا۔ ٹکر بہت زوردار تھی اور اسکی ننھی سی جان اسکو برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتی تھی۔ آخر وہ چڑیا میرے ہاتھ میں ہی دم توڑ گئی۔

آج ہی کے دن میرے فیس بک کی ٹائم لائن پر ادلب شام ( سوریا ) کے معصوم پھول سے دو بچوں اور تھوڑے بڑے بچوں کی سیرین کیمیکل بم کے حملے میں مرتے ہوئے ویڈیو نظر آئی۔ وہ بچے بھی جان کنی کی حالت میں سسک سسک کر جان جانِ آفرین کے سپرد کر رہے تھے۔

شاید اللہ سے دل میں کہہ رہے ہوں یا اللہ موت ہی مقدر ہے تو اس تکلیف سے جلد از جلد نجات دے دے۔ یا شاید اپنا قصور سوچ رہے ہوں، یا شاید اس انتظار میں ہوں کہ اللہ تُو اپنے سامنے ہمیں کھڑا کر ایک دفعہ، ہمیں یہ تو بتا ۔۔ ہمارے کلمہ گو مسلمان بھائی نے ہمیں کیوں مارا ؟۔ کچھ بچے تو مشکل سے ایک سال کے تھے۔ وہ تو ابھی اپنی توتلی زبان میں بابا، ماما بھی ٹھیک سے نہیں بول سکتے تھے۔ وہ تو ایسا کچھ شا ید سوچ بھی نا سکتے ہوں ابھی ۔

میں نے لوگوں کو کہتے سنا ۔۔۔ یزید ابھی بھی زندہ ہے۔ کوئی کہتا ہے یہ شیعہ سنی جنگ ہے۔ کوئی بتاتا ہے یہ سعودیہ ایران کی سیاست ہے۔ کوئی اسے امریکہ اور روس کی باہمی چپقلش گردانتا ہے۔ آیا سب سچ ہے یا سب جھوٹ۔ ، کوئی سازش ہے یا اپنوں کے کرتوت۔۔ اس بحث و جھگڑے کا ایندھن یہ بچے ہی کیوں ؟؟

لیکن میں کس کس بات کا ذکر کروں ؟ شام کے مرتے بچوں کا ؟یا اپنے ملک میں اپنے ہی کلمہ گو مومنوں کا جو سکول ( آرمی پبلک سکول ) کے بچوں کو اس بے رحمی سے مارتے ہیں کہ جس بے رحمی سے قصائی بھی ذبح نہیں کرتا۔ اس دین کے نام پر مارتے ہیں جس میں ذبح کرتے جانور کی جان بھی بے رحمی سے نہیں لی جاتی۔ اس رب کا نام لیکر مارتے ہیں جو جانورں تک پر رحم کا حکم دیتا ہے۔ کیا یہ بچے جانوروں سے بھی کمتر ہیں ؟؟

مجھے آج بھی اس سکول جہاں میرا بچپن گزرا اسکی خون آلود دیواریں اور فرش پر پڑے بچوں کے بے جان لاشے خواب میں آتے ہیں۔ مجھے آج بھی اسلامیات کے اس استاد کا پڑھایا ہوا اسلام یاد ہے جس کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ مجھے اس پرنسپل کے انگلش کے سبق اور کمپیوٹر ٹیچر کی محنت یاد ہے۔ کیا اسلام میں استاد کا یہ مقام تھا کہ اسے یوں بے گناہ مار دیا جائے ؟؟؟

کربلا ایک بار نہیں ہوا۔ کربلا اب بھی ہوتا ہے۔ ہمارے گلی گلی، شہر شہر، قریہ قریہ، سکول کالج، بازار،ہر جگہ ہوتا ہے۔ ہمارا برپا کیا کربلا آج بھی علی اصغر کا خون مانگتا ہے۔ ہمارا کربلا آج بھی سکینہ کے خاندان کو اجاڑ دیتا ہے۔ ہمارا کربلا آج بھی تخت کو دوام بخشتا ہے۔ اور یزید آج بھی لاشوں کے تخت پر بیٹھ کر قہقہے لگاتا ہے۔

لیکن میرے اس زمانے کے علی اصغر کو کون روئے گا ؟؟؟ میرے علی اصغر کو تو ننھا کافر قرار دے دیا گیا تھا۔ میری سکینہ کو تو بے شرم کہہ کر اسکی ردا تک سر سے گرا دی گئی۔ یہ تو خاندانِ محمد ﷺ کے بھی نہیں کہ کوئی ہر سال ان کو روئے۔۔ لیکن کیا محمدﷺ سے کوئی نسبت نہیں ان کو ؟ کیا یہ اس قابل بھی نہیں ؟ کیا کوفیوں کی زمین ابھی بھی تر نہیں ہوئی خون سے ؟ کاش کہ امام حسین علیہ سلام کو اللہ ایک بار دوبارہ بھیج دے۔ وہ میرے ان روز مرتے علی اصغروں کو اپنی گود میں کچھ دیر بٹھا لیں۔۔ جیسے میں نے اس مرتی چڑیا کو اپنی ہتھیلی پر بٹھا لیا تھا۔ شاید۔۔ شاید کہ باقی امت بھی آج کے علی اصغر کو رو لیتی۔

وہ چڑیا مرتی مر گئی۔اس وقت گاڑی میں مرا ساتھی “سعید” بھی تھا،چڑیا کے مرنے میں ہمارا قصور نہ تھا پھر بھی سعید سارا راستہ اللہ سے معافیاں مانگتا رہا، پیارے اللہ جی غلطی سے مر گئی، میں نے جان بوجھ کر نہیں ماری۔ وہ چڑیا کو غلطی سے مارنے پر اللہ سے معافیاں مانگ رہا تھا اور میں حیرت سے اپنی موبائیل سکرین پر میرے زمانے کے علی اصغر کو سسکتے مرتے دیکھتا رہا کہ اسکے شمر کا کیسا دل ہے، اسکے یزید کا کیسا دل ہے جس میں رحم کی رمق تک نہیں؟ وہ کونسی خلافت یا حکومت ہے جو آج بھی علی اصغروں کے خون کی پیاسی ہے؟

موبائیل کی سکرین بند کر کے آنکھیں موندے میں تصور میں ننھے علی اصغر کو یومِ آخرت، سب گنگ اور ڈرے کانپتے ہوئے لوگوں کے بیچ گھٹنوں کے بل رینگتے ہوئے اپنے نبیﷺ کے پاس جا کر توتلی زبان میں اپنے ساتھ اللہ کے پاس چلنے کو کہتے سن رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

پالے نبی پالے نبی ﷺ میلے شاتھ چلیں(پیارے نبی ،پیارے نبی میرے ساتھ چلیں)
کیوں ؟
وہ نا وہ نا ۔۔۔۔۔
مجھے آپکے امتی نے نا ۔۔۔۔ گناہ گار ننھا کافر کہہ کر نا،
بوت تتلیف دے تل مالا تھا(بہت تکلیف دے کر مارا تھا)۔
آپ اللہ تو بتاؤ نا میں تو بچہ تھا۔ آپکے ابراھیم کے جیسا!!!!

Facebook Comments

عثمان گل
پیشے کے لحاظ سے اِنجینیئر۔ معاشرے میں رنگ، نسل، زبان اور مذہب کے لحاظ سے مثبت تبدیلی کا خواہاں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply