• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(تینتیسواں دن)۔۔گوتم حیات

کرونا ڈائریز:کراچی،کرفیو سے لاک ڈاؤن تک(تینتیسواں دن)۔۔گوتم حیات

یہ 2002کے بعد کی بات ہے ایک صبح میں کالج جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ اچانک گولیاں چلنے کی آواز آنے لگی۔ وقفے وقفے سے فائرنگ کی آواز کافی دیر تک آتی رہی، اس دن میں کالج نہیں جا سکا تھا۔ دوپہر دو بجے کے بعد ہمیں معلوم ہوا کہ ایک سیاسی گروپ نے اپنے مخالف گروپ کے آفس کی عمارت پر قبضہ کر لیا ہے، مخالف گروپ کے کچھ لڑکے مارے گئے اور کچھ جان بچا کر فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔ شام کے وقت ہم اس عمارت کی طرف سے گزرے تو دیواروں پر گولیوں کے واضح نشانات باآسانی دیکھے جا سکتے تھے۔ کچھ دنوں کے بعد اس عمارت پر رنگ و روغن کر کے سیاسی پارٹی کا جھنڈا لگا دیا گیا۔

وہ عمارت ہمارے گھر کے قریب واقع تھی، ہر روز ہمیں بس  سٹاپ تک جانے کے لیے اس عمارت کے سامنے سے گزر کر جانا پڑتا تھا۔ میں اور صائمہ جب بھی وہاں سے گزرتے تو ہمیں عجیب سا احساس ہوتا، ایسا لگتا کہ ہم قاتلوں کے سامنے سے اپنی جان بچا کر جا رہے ہیں۔ یوں تو اس پارٹی کے بانی اپنے آپ کو مظلوموں کا نمائندہ کہتے نہیں تھکتے تھے، لیکن حقیقت میں وہ ظالموں کے نمائندہ تھے۔

اگلے کئی سالوں تک اس عمارت کو خوب سجا سنوار کر رکھا جاتا رہا، ہر روز صبح و شام اس عمارت کے اطراف سے جھاڑو لگائی جاتی، پانی کا چھڑکاؤ کیا جاتا۔ جس جگہ پانی کا چھڑکاؤ ہوتا، اس کو باقاعدہ پکّا کرکے سڑک بنا دیا گیا تھا۔ اکثر صبح کے وقت اس عمارت کے سامنے والا حصہ جو اب سڑک تھی ،کُھودا ہوا ہوتا، وہ جگہ دیکھ کر صائمہ  کہتی کہ ضرور ان لوگوں نے یہاں اسلحہ دبایا ہے، آخر روز روز سڑک کا یہ حصہ کھودنے کی اور کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ صائمہ کی بات میں وزن تھا۔ ہم تقریباً چودہ، پندرہ سال اس راستے سے گزرتے رہے، اس عمارت کے اطراف کا وہ راستہ ایسا تھا کہ کوئی چڑیا بھی پر نہیں مار سکتی تھی، ہم تو خیر نہتے انسان تھے ہماری کیا مجال کہ ہم سڑک کے اس حصے پر سوال اٹھائیں جو آئے روز ہمیں کھودا ہوا نظر آتا تھا۔ آخر وہ وقت بھی آیا جب اس “عمارت” کو اور اس جیسی کئی “دوسری عمارتوں” کو سکیورٹی اہلکاروں نے بلڈوزروں کی مدد سے مسمار کیا۔ لیکن یہ مسماری کا واقعہ تو چند سال پہلے رونما ہوا جب بہت سے لوگ قتل کیے جا چکے تھے۔ خیر یہ بھی غنیمت ہے کہ اس طرح کی عمارتوں کو مسمار کر دیا گیا، اگر فی الفور ایسا نہ کیا جاتا تو اڑھائی کروڑ سے تجاوز کرتی شہر کی آبادی کا مکمل صفایا ہو چکا ہوتا۔۔

اب ہم کئی سال پیچھے چلتے ہیں۔ پورے شہر کا کنٹرول اُن سفاک ہاتھوں میں تھا جو اس عمارت کے بھی نگہبان تھے یا نگہبان بنا دیے گئے تھے۔ گزشتہ سالوں (دو ہزار دو سے پہلے) کے کرفیو اور مارے گئے یا پکڑے گئے دہشت گردوں کے باوجود شہر کی فضا بدحال تھی۔ لوگ قتل ہو رہے تھے، لوگ قتل کر رہے تھے، کوئی کسی کا محافظ نہیں تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ قاتلوں/مقتولوں کی آبادی میں بس قاتل ہی رہ رہے ہوں اور انہیں ایک دوسرے کو قتل کرنے کا لائسنس کسی غیبی طاقت کی طرف سے عنائیت کر دیا گیا ہو۔

رمضان کا مقدس مہینہ آئے، عید الفطر یا پھر عیدِ قرباں، اُس عمارت کے کارندے دندناتے ہوئے  گلیوں میں آتے، گھروں کے بیرونی دروازے کھٹکھٹا کر چھوٹی چھوٹی رسیدی سائز کی پرچیاں پھینک کر چلے جاتے، ان پرچیوں پر درج ہوتا کہ آپ کے گھر پر اتنے افراد ہیں اس لیے آپ کے گھر سے لازمی طور پر اتنی رقم زکوٰۃ یا فطرے کے طور پر ایک دو دن میں فراہم کر دی جائے، اسی طرح عیدِ قرباں کے دنوں میں جن گھروں میں قربانی کے لیے جانور بندھا ہوتا تو اہلِ خانہ کو اطلاع دے دی جاتی کہ قربانی کے جانور کی کھال ہمارے لڑکوں کو فراہم کر دیجئے گا بصورت دیگر کسی بھی ناخوشگوار صورتحال کے لیے تیار رہیں۔

اُس عمارت میں باقاعدگی سے اُن “بےگناہ لڑکوں” کی فہرست بھی بنائی جاتی جن کو آنے والے دنوں میں قتل کیا جانا تھا کیونکہ وہ مخالف گروپ کے تھے، اگر وہ رضاکارانہ طور پر اپنا گروپ نہیں چھوڑتے تو ان کو ٹارگٹ کلنگ کر کے ہمیشہ کے لیے خاموش کروا دیا جانا اس سیاسی ٹولے کا اولین فرض تھا۔ شہر کے سب ہی علاقوں میں اُس “عمارت” جیسی کئی عمارتیں موجود تھیں جن میں یہ اہم کام سرانجام دیے جا رہے تھے۔ اُن دنوں لوٹ مار کی وارداتیں، موبائل چھیننے اور دشمنی کی بنا پر کسی کو بھی قتل کیا جانا یا کسی کو راہِ راست پر لانے کے لیے ٹارچر کرنا ایک عام بات تھی اور اس “عام بات” کو سرانجام دینے والوں کی افزائش وہ “عمارت” بخوبی کر رہی تھی جس کی شہر بھر میں ہزاروں شاخیں تھیں۔ کرفیو کے زمانے میں جن پولیس والوں نے فعال کردار ادا کیا تھا، اب ایک ایک کر کے انہیں بھی ٹھکانے لگایا جا رہا تھا اور پھر پولیس میں بڑے پیمانے پر ایسے لوگوں کو بھرتی کیا گیا جنہیں اُس سیاسی “گروپ” کی سرپرستی حاصل تھی۔ آہستہ آہستہ بہت سے دوسرے لوگ بھی اسی طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے لگے، کئی بار تو ایسا بھی ہوا کہ باقاعدہ مسلک، قومیت اور زبان کی بنا پر قتل کی وارداتیں جنم لینے لگیں۔

جنرل مشرف کا آزاد میڈیا خاموش تماشائی بنا ہر ایک “معلوم قاتل” کو “نامعلوم” کہہ کر قاتلوں کا دستِ بازو بنا رہا۔ کئی بار تو ان کے کارندوں نے اخبار کے دفاتر اور ٹی وی چینلز کے آفس میں بھی حملے کیے۔ جنرل مشرف کا آمرانہ راج تھا، اس لیے جو ہو رہا تھا اسے ہونے دیا جا رہا تھا۔

جو بہادر اور اصول پرست لوگ مزاحمت کر رہے تھے، ان کی آوازوں کو دبانا کسی بھی جنرل کے لیے بائیں ہاتھ کا کھیل تھا۔ ایسے لکھاریوں کی تحریروں کو اخبارات کے صفحات پر سنسر کرنا آسان سا نسخہ تھا جس پر پابندی سے عمل کیا گیا۔

پاکستان میں بڑے بڑے نامور لوگ جنرل مشرف کے آگے سجدہ ریز ہو چکے تھے۔ بہت سے فنکار اور لکھاری جن میں ایک بڑی تعداد صحافیوں کی بھی تھی مشرف کے گُن گانے لگے۔ سرکاری میڈیا تو پہلے ہی ریاست کے کنٹرول میں تھا اس بار نجی ریڈیو اسٹیشنز اور ٹی وی چینلز کی ایک ایسی کھیپ کھول دی گئی جس میں صبح و شام فوج کی عظمت کے قصیدے پڑھے جانے لگے۔ قیام پاکستان کے بعد ہونے والی ہندوستان، پاکستان کی جنگوں کو ایک نئے طریقے سے گلوریفائی کر کے پیش کیا جانے لگا۔

جنرل مشرف مختلف تقریبات میں بڑے فخر سے اس بات کا اعلان کرتے پھرتے کہ “پاکستان کا میڈیا اب آزاد ہے، اس سے پہلے کسی بھی حکومت نے میڈیا کو آزاد نہیں کیا تھا۔ ہم جمہوریت اور آزاد میڈیا کی بالادستی کے اصولوں پر کاربند ہیں اور اسی مشن کو آگے لے کر بڑھیں گے”

بہت جلد مشرف کا وژن سامنے آنا شروع ہو گیا۔ پاکستان کے اہم اور بااثر فنکاروں، لکھاریوں کو راتوں رات خرید لیا گیا۔ وہ فنکار اور لکھاری جو ہر دم یہ کہتے پھرتے تھے کہ
“ہم نے آمریت کے کڑے عذاب جھیلے ہیں، جنرل ضیاء الحق کی آمریت نے ہماری نوکریاں چھینی، ہمیں جیلوں میں قید کیا لیکن ہم نے ان کے آگے گُھٹنے نہیں ٹیکے، ہم نے عذاب سہے لیکن اپنے جمہوری اصولوں سے روگردانی نہیں کی”

اس طرح کے دعوے کرنے والے بااثر لوگ اب ایک نئے آمر کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے کھڑے تھے۔
سیاستدانوں کی بدنام زمانہ جھوٹی، سچّی کرپشن کی کہانیوں   پر ڈرامے بننے لگے۔ پاکستان کی ایک صفِ اؤل کی اداکارہ نے “نیب” کی پروپیگنڈہ ڈرامہ سیریز میں بڑے فخر سے کام کیا۔ سینما انڈسڑی جو کبھی تفریح کا ذریعہ سمجھی جاتی تھی اسے بھی مشرف سرکار نے دفاعی مقاصد کے تحت خوب خوب استعمال کیا۔ اسی زمانے میں ایک منجھی ہوئی اداکارہ کو راتوں رات سرکاری ٹی وی پر “جتیقہ کاسمیٹکس” کی تشہیر کے لیے ہفتہ وار پروگرام دے دیا گیا۔ اُنہیں جنرل مشرف کا راج اتنا پسند آیا کہ وہ اُن کی “رخصت” کے بعد بھی ایک لمبے عرصے تک ٹی وی کے پروگراموں میں خوب ڈھٹائی کے ساتھ ان کو ڈیفینڈ کرتی رہیں۔

مُلک کی ایک مشہور “شاعرہ” جو سر تا پا مزاحمت کی دیوی شمار ہوتی تھیں اپنی مزاحمت کو خیر باد کہہ کر مشرف کی “روشن خیالی” کی مالا جپنے میں مصروف ہو گئیں۔ اسی طرح ایک مایہ ناز “شاعر” بھی مشرف کی حمایت میں پیش پیش رہا۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ اپنی موت سے قبل اُس “شاعر” نے جنرل مشرف کی پالیسیوں سے اختلاف کی بنا پر صدارتی ایوارڈ واپس کر دیا تھا۔ میرے خیال میں اُس مشہور “ہستی” کا یہ ایک جراتمندانہ فیصلہ تھا۔ وہ بہادر “خاتون” جس نے جنرل ضیاء کے دور میں دوپٹہ سر پر اوڑھنے سے انکار کر دیا تھا وہ بھی بنفسِ نفیس جنرل مشرف کی طرف دار رہیں۔ پرانے وقتوں کے صحافی جو ہر محفل میں خود کو شاعرِ انقلاب “جالب” کا دوست کہتے پھرتے تھے وہ بھی مشرف سرکار کی تعریفوں کے پُل باندھتے رہے اور کیوں نہ باندھتے کہ ان کو نجی چینل پر”حالاتِ حاضرہ” پر لاکھوں روپے کے عوض ایک مستقل پروگرام دے دیا گیا تھا۔

پنجاب کے ایک مشہور تھیٹر گروپ کی سرگرم “خاتون” جب اپنی ٹیم کے ساتھ تھیٹر ڈرامہ پیش کرنے کراچی آئیں تو انہوں نے کراچی کی “سیکولر پارٹی” کی دل کھول کر تعریف کی، وہ جب تعریفوں کے پُل باندھ رہیں تھیں تو اس گھڑی انہیں دیکھ کر میں سوچ رہا تھا؛
“شاید ان کی نظر میں پاکستان میں ظلم کی داستانوں کا باب جنرل ضیاء الحق کی موت پر ہی ختم ہو گیا تھا اسی لیے وہ بعد میں روشن خیالی کے نام پر قاتلوں کی حمایت میں مصروف رہیں اور اپنے ہر انٹرویو میں زور دے کر یہ بات دہراتی رہیں کہ
“جنرل ضیاء نے آکر میری سرکاری نوکری ختم کی، مجھے جیل میں ڈالا۔۔۔۔۔”

آمریت چاہے مذہب کے لبادے میں رونما ہو یا روشن خیالی کے جھلملاتے قمقموں کی روشنی میں اپنا آپ لے کر آئے، اسے کسی بھی صورت میں قبول نہیں کیا جانا چاہیے۔ پاکستان میں ضیاء الحق کی مذہبی آمریت اور مشرف کی روشن خیال آمریت میں اگر کوئی فرق تھا  تو وہ محض چہروں کا فرق تھا۔ کاش ان چہروں کے فرق کو ہمارے “عظیم لوگ” بھی سمجھ سکتے!!

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply