• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • گرم کھانا، ٹھنڈا بستر اور منافق رشتے۔۔ انعام رانا

گرم کھانا، ٹھنڈا بستر اور منافق رشتے۔۔ انعام رانا

بات نکلی ایک پوسٹر سے اور کوٹھوں پھیل گئی۔ عنوان تھا “اپنا کھانا خود گرم کرو”۔ اک ماڈرن خواتین کا جلوس، جنکے گھر میں کھانا پکانے کا اور گرم کرنے کا تردد ملازم ہی کرتے ہیں، اپنے وطن کی ان خواتین کی خاطر نکلی تھیں جو عموما نابلد رہتی ہیں کہ انکی کچھ بہنیں انکی خاطر اتنی جدوجہد کر رہی ہیں۔ ہماری دوست ڈاکٹر رامش کی زبان میں “فیس بکی لونڈوں اور بظاہر معقول لوگوں” نے اسے مزاح بنا دیا۔ وال وال دیکھئیے تو خواتین کو مشورہ ہے کہ کھانا ہم خود گرم کر لیں گے مگر پھر زیور کپڑا بھی خود خرید لینا۔ کچھ ستم ظریفوں نے تو گٹر اترنے، موٹر ٹھیک کرنے یا کھمبا چڑھنے جیسے “مردانہ کام” کرنے کا مشورہ بھی دے ڈالا۔

مگر یارو زرا اک لمحے رک کر تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھتے چلتے ہیں۔ اوپر ذکر کیا ہے رامش کا۔ ڈاکٹر رامش فاطمہ مسیحائی کرتی ہے اور جو وقت ملے تو خوبصورت تحریریں لکھتی ہے۔ لبرلزم یا نیو لبرلزم سے اختلافات کے باوجود میں رامش کا معترف ہوں کہ وہ کسی مفاد سے، کسی تمغے کیلئیے یا اسائلم لینے کیلئیے نہیں بلکہ سچے دل سے سماج کے زخموں پہ کڑھتی ہے۔ چلئیے رامش کی زبانی ہی سمجھنے کی کوشش کریں۔ کہتی ہیں
“خود کھانا گرم کرو’
غصہ، تبصرے، تضحیک ، تفریح ، تحقیر سب ہو گیا لیکن معاملہ وہیں کا وہیں رہا۔
ایک خاتون ہیں، عمر پچیس چھبیس سال، رو رہی ہیں۔
کیوں؟
سکول میں جاب کرتی ہیں ، دو بچے ہیں ایک کی عمر چار سال اور ایک چھ ماہ، ڈھائی بجے گھر آئیں، ساس کو کھانا دیا، چھوٹا بچہ رونے لگا اسے چپ کرا رہی تھیں تو میاں صاحب کھانا کھانے بیٹھے، سالن گرم نہیں تھا، انہوں نےبچے کو ایک طرف کیا اور بیگم کے بازو کی ہڈی توڑ دی کہ مجھے گرم سالن کیوں نہیں دیا۔
ان خاتون سے ملنے کے علاوہ بھی کم از کم ایسی تین خبریں اس سال تو میں ہی پڑھ چکی ہوں۔
البتہ بہت سے واقعات رپورٹ نہیں ہوتے، جیسے rape اور sodomy کے بیشتر واقعات رپورٹ نہیں ہوتے۔
یار !

آپ نے کسی کو نہیں مارا؟ آپ کو کسی نے نہیں مارا؟ دونوں باتیں ٹھیک ہیں کیا اس کا یہ مطلب ہوا کہ ایسا کسی کے ساتھ بھی نہیں ہوتا؟ ایسا ہرگز ہرگز نہیں ہے۔ یہ سب اسی دنیا میں ہو رہا ہے۔” ۔۔۔۔۔۔۔۔۔(اقتباس ختم)

سو صاحبو زرا یہ بھی سمجھئیے کہ مسلئہ موجود تو ہے اور سنجیدہ ہے۔ عورت کو گلہ ہے کہ سماج میں اس سے منسوب کچھ رول ہیں اور وہ اپنے رول سے باہر نکل کر کچھ کر بھی رہی ہو تو اسکے باوجود اسے اپنے متعین کردہ کردار کو مکمل نبھانا ہے وگرنہ وہ اچھی عورت یا مکمل عورت نہیں ہے۔ یہ حقیقت تو موجود ہے کہ باپ نے بیٹی سالن گرم نا ہونے اور بھائی نے بہن سحری لانے میں دیر پر مار دی۔ بستر تھنڈا ہو تو کما کر دینے والے مرد کا حق ہے کہ ریپ کر دے۔ اس حقیقت سے آنکھ کیسے چرائیں گے کام کرتی ہوئی لڑکی سے رشتہ کرتے لوگ کتراتے ہیں۔ اور شادی کے بعد اضافی آمدنی کیلئیے اگر بیوی کام کر رہی ہے تو بھی وہ شوہر کے برابر نہیں ہے۔ باہر کے کام کی تھکاوٹ کے باوجود اسے گرم کھانا اور گرم بستر دینا ہے، بچے پالنے ہیں اور اگر انکے کردار میں کچھ کمی رہ گئی ہے تو وجہ ماں کی نوکری ہے جو وہ اکثر مجبوراً ہی کر رہی ہوتی ہے۔

ہمارے سماج میں رشتے بالخصوص مرد عورت کا رشتہ منافقت پہ مبنی ہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے کے ساتھ محبت سے زیادہ ضرورت کی وجہ سے رہتے ہیں۔ اس رشتے میں مرد پہ ذمہ داری ہے کہ خواہ چوری کرے ڈاکہ ڈالے مگر گھر کا خرچہ پورا کرے۔ بیوی کا کپڑا زیور ہو یا بچوں کی فیس، دوا دارو ہو یا سماجی لین دین ہر صورت یہ سب اسکی ذمہ داری ہے۔ دوسری جانب گرم کھانا، گرم بستر، مرد کا طے کردہ معیار غیرت، اولاد کی تربیت سب عورت کا ذمہ اور جو اس سے اِدھر اُدھر ہٹے تو نامکمل عورت ہے۔ مرد کو عورت سیکس اور اولاد کیلئیے چاہئے اور اسکی قیمت بھرتا ہے۔ عورت کو مرد معاشی و سماجی تحفظ اور اولاد کیلئیے چاہیے اور وہ اسکی قیمت بھرتی ہے۔ محبت ختم بھی ہو جائے یا کبھی جنم ہی نا لے، تب بھی یہ “باہمی ضرورت” اس منافقت بھرے رشتے کو قائم رکھتی ہے خواہ دونوں اک دوسرے سے ذہنی و جسمانی بیوفائی پہ ہی نا اتر آئیں۔ سچ پوچھیئے تو دونوں ظالم ہیں اور دونوں ہی مظلوم۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مسلئہ موجود ہے مگر افسوس اسکو حل کرنے کیلئیے انداز غلط چنا گیا ہے۔ مرد کو دعوت مبازرت دے کر آپ مسلئے کا حل نہیں بلکہ اک نئے مسلئے کو جنم دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ لبرلزم کے دئیے اوور ریٹڈ فیمنزم کے کرشمے ہیں کہ مرد کو للکارتے ہوے نعرے لگاؤ اور بدگوئی پہ مبنی وڈیوز بناو اور “عورتوں کے حقوق کی جنگ” لڑو۔ اور ترقی یافتہ ممالک میں اسی اوور ریٹڈ فیمنزم نے عورت کو تماشا بنا کر رکھ دیا ہے۔ مسلئہ تو وہ سماجی نظام ہے جس نے عورت کو مرد سے کمتر بنا رکھا ہے، عورت کو مساوی انسان نہیں بننے دے رہا، عورت کو جبر کا شکار بنا رہا ہے۔ اور کم ہی سہی، یہی سماجی نظام مرد کو بھی پیس رہا ہے۔ جدوجہد کیجئیے، سماجی و قانونی برابری کی، ایک ایسے نظام کی جہاں مرد و عورت مساوی ہوں اور کوئی دوسرے سے صنفی امتیاز پہ بلند نا ہو۔ ایک ایسا سماج جہاں گرم کھانا، گرم بستر یا رشتے محبت اور برابری کی بنیاد پہ بنیں، منافقت، لالچ اور مقابلہ بازی کی بنیاد پہ نہیں۔

Facebook Comments

انعام رانا
انعام رانا کو خواب دیکھنے کی عادت اور مکالمہ انعام کے خواب کی تعبیر ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”گرم کھانا، ٹھنڈا بستر اور منافق رشتے۔۔ انعام رانا

  1. تو اپنا کھانا گرم کرنا اتنا مشکل کیوں ہے؟ میرا تو خیال ہے انسان اپنے جو بھی کام خود کر سکتا ہے کرنے چاہئیں چاہے مرد ہو یا عورت۔

Leave a Reply