سیکولر تعلیم کی اہمیت اور مولانا آزاد /ابھے کمار

مولانا ابوالکلام آزاد ایک نامور عالم، مفکر، مصنف، صحافی، مجاہد آزادی، ہندو مسلم اتحاد کے سفیر اور آزاد ہندوستان کے پہلے وزیرِ تعلیم تھے۔ ۱۱ نومبر مولانا کا یومِ ولادت ہے، جسے پورے ملک میں قومی یومِ تعلیم کے طور پر منایا جاتا ہے۔ تاہم، عوام کی ایک بڑی تعداد شدت سے یہ محسوس کر رہی ہے کہ حکمران طبقہ اور ان کے پالیسی ساز مولانا آزاد کو خراجِ عقیدت پیش تو کرتے ہیں، مگر جب ان کے پیغام اور مشن پر عمل درآمد کی بات آتی ہے تو اکثر انہیں فراموش کر دیتے ہیں۔ سابقہ حکومتوں نے بھی مولانا آزاد کی نصیحتوں کو مکمل طور پر عملی جامہ نہیں پہنایا تھا، مگر موجودہ حکومتیں ان کی وراثت کو پہلے سے کہیں زیادہ نظرانداز کر رہی ہیں۔ اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ بی جے پی کی حکومتیں تیزی سے تعلیم کی نجکاری کر رہی ہیں اور تعلیم کے بجٹ میں مسلسل کمی کر رہی ہیں۔مولانا آزاد تعلیم کو ایک تجارتی شے نہیں سمجھتے تھے۔ ان کے نزدیک تعلیم ایک بہتر سماج تشکیل دینے اور سیکولر جمہوریت کی جڑیں مضبوط کرنے کا ذریعہ تھی۔ مگر آج کے پالیسی ساز تعلیم کو محض منافع کمانے کا ذریعہ تصور کرتے ہیں۔ اربابِ اقتدار کی ترجیحات میں جو تبدیلی آئی ہے، اس کا اندازہ وزیرِ تعلیم کے انتخاب سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہمارے پاس مولانا آزاد، ہمایوں کبیر، اور پروفیسر ایس نورالحسن جیسے دانشور وزیرِ تعلیم ہوا کرتے تھے، جنہوں نے وزارتِ تعلیم کو وقار بخشا۔ لیکن اب حالات اس قدر بگڑ چکے ہیں کہ بعض حالیہ وزرائے تعلیم کی اپنی تعلیمی صلاحیت پر ہی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔سیکولر اقدار پر عمل کرنے کے بجائے، وزارت تعلیم آر ایس ایس کے ایجنڈے کو ملک بھر میں نافذ کر رہی ہے۔ نصاب میں قومی ہیروز کو شامل کرنے کے نام پر اقلیتوں اور دیگر محروم طبقات کے تعاون کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اسی لیے آج مولانا آزاد کا تعلیمی فلسفہ پہلے سے کہیں زیادہ معنی خیز اور اہمیت کا حامل ہو گیا ہے۔

۱۹۴۷کی جنوری میں عبوری حکومت میں شمولیت سے لے کر اپنی وفات تک، مولانا آزاد نے کانگریس کے وزیر کی حیثیت سے ملک کی تعلیم عامہ کی ذمہ داری نبھائی۔ جہاں نہرو کے دورِ حکومت کو ملک کے بڑے تعلیمی اداروں کے قیام کا سہرا دیا جاتا ہے، وہیں اس پر تنقید اس بات پر بھی کی جاتی ہے کہ بنیادی تعلیم کو اتنی توجہ نہیں دی گئی جتنی ضروری تھی۔ بطور وزیرِ تعلیم مولانا آزاد کی کامیابیاں اور خامیاں کسی بھی غیرجانبدار محقق کے لیے اہم موضوع ہیں، لیکن کوئی بھی فیصلہ سنانے سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ مولانا آزاد کو پہلے سے طے شدہ پالیسی فریم ورک میں کام کرنے کی مجبوری تھی۔ اس کے باوجود، ان کی انفرادی کوششوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس دور کے دیگر وزرائے تعلیم کے مقابلے میں مولانا آزاد کی خدمات نمایاں نظر آتی ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ تھی کہ مولانا آزاد خود قومی تحریک سے جڑے رہنما تھے، جنہوں نے انگریزی غلامی کے تجربات سے گزر کر، نئے بھارت کی تعمیر کا خواب دیکھا اور اس خواب کو حقیقت بنانے کے لیے اپنے دل میں عظیم ارمان سجائے سرگرم عمل رہے۔

مولانا آزاد کے تعلیمی فلسفے پر کافی مواد دستیاب ہے، مگر ان میں سے ۱۸ فروری ۱۹۴۷ کی پریس کانفرنس میں ان کی باتیں خاص اہمیت رکھتی ہیں۔ اگر آپ اسے خود پڑھنا چاہیں تو یہ مولانا آزاد کی تحریروں کے مجموعے میں شامل ہے، جسے تعلیم اور قومی تعمیر نو کانفرنس کے عنوان سے تلاش کیا جا سکتا ہے۔ ہماری ملک کے اربابِ اقتدار سے مؤدبانہ درخواست ہے کہ وہ اسے ضرور پڑھیں۔ اس پریس کانفرنس میں مولانا آزاد نے واضح کیا کہ انسان کے معیار پر کس طرح کی تعلیم فراہم کی جا رہی ہے، اس کا اثر کسی دوسری چیز کے مقابلے میں زیادہ اہم ہوتا ہے۔ ان کے مطابق، ایک حقیقی آزاد خیالی اور انسان دوست تعلیم معاشرے کی فکر کو بدل سکتی ہے اور اسے ترقی و خوشحالی کی راہ پر ڈال سکتی ہے۔ تاہم، انہوں نے خبردار کیا کہ ایک ناقص یا غیر سائنسی نظام تعلیم ان تمام امیدوں کو ختم کر سکتا ہے، جو ملک کو آزاد کرنے کی تحریک کے دوران علمبرداروں نے اپنے دلوں میں سجائے تھے۔مولانا آزاد یہ بخوبی جانتے تھے کہ ایک سیکولر جمہوری ملک کی تشکیل کے لیے تعلیم عامہ کی بڑی اہمیت ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شہریوں کو اعلیٰ معیار کی تعلیم فراہم کرے۔ اسی لیے انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ قومی بجٹ میں تعلیم کو اولین ترجیح دی جانی چاہیے اور اس کی اہمیت خوراک اور لباس کے بعد آتی ہے۔ سوشلسٹوں کا دیرینہ مطالبہ رہا ہےکہ قومی بجٹ کا دسواں حصہ تعلیم پر خرچ کیا جائے۔ المیہ یہ ہے کہ بھارت، جو دنیا کی پانچویں بڑی معیشت ہے، تعلیمِ عامہ پر اپنے سے چھوٹی معیشتوں کے مقابلے میں کم خرچ کر رہا ہے۔ بھارت کی ثقافتی تنوع اور طلبہ کی ذہانت سونے اور چاندی سے زیادہ قیمتی ہیں، اور اگر انہیں مناسب مواقع فراہم کیے جائیں تو بھارت علم کے میدان میں بڑی خدمات انجام دے سکتا ہے۔ مگر افسوس کہ آج کے لیڈران میں ایسا وژن نہیں ہے۔ وہ محض ووٹ حاصل کرنے کے لیے عوام کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے میں مصروف ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مولانا آزاد ہندوستان کی سیکولر اور گنگا جمنی تہذیب کی ایک بہترین مثال تھے۔ وہ انگریزی تعلیم، سائنس، اور جدید ٹیکنالوجی کی اہمیت سے بھی بخوبی واقف تھے۔ ان کی فکر یہ تھی کہ تعلیم مادری زبان میں دی جائے، اور انہوں نے کہا کہ مادری زبان میں دسویں جماعت تک تعلیم دینے کا تجربہ کامیاب ثابت ہوا ہے، جسے اعلیٰ سطح پر بھی اپنانا چاہیے۔ تاہم، آج قومی زبانوں اور بولیوں کو حکمران طبقہ کمتر سمجھتا ہے۔ مولانا آزاد کو اس بات کا بخوبی احساس تھا کہ تعلیم کے شعبے کو نظرانداز کیا جا رہا ہے؛ اسی لیے وہ اس میں اصلاح کے خواہاں تھے۔ ان کی تعلیمی سوچ میں روایت اور جدیدیت کے درمیان ایک نازک توازن نظر آتا ہے۔ وہ روایت، ثقافت، ورثے، اور جدید سیکولر خیالات کو ساتھ لے کر چلنے کے حامی تھے۔مولانا آزاد کی رائے یہ تھی کہ ہندوستانیوں کو اپنے عقائد پر عمل کرنا چاہیے، لیکن ساتھ ہی دوسرے مذاہب کے پیروکاروں سے اتحاد برقرار رکھنا بھی ضروری ہے۔ ان کے نزدیک مذہبی اور قومی تشخص متضاد نہیں بلکہ ہم آہنگ ہیں۔ اسی لیے وہ سمجھتے تھے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں دونوں کو دیوناگری اور اردو رسم الخط سیکھنی چاہیے۔ ان کی تعلیمی پالیسی کا مقصد قوم کی مشترکہ ثقافت کو مستحکم بنانا تھا۔ وہ نیچرل سائنس، آرٹس، ہیومینٹیز، فلسفے، اور سماجی علوم میں بنیادی تحقیق کو فروغ دینا چاہتے تھے۔ ماضی کو سمجھنے کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے، انہوں نے قومی عجائب گھر کے قیام اور آثارِ قدیمہ کی تحقیق کے فروغ کا منصوبہ بنایا تاکہ مورخین کو صرف متون تک محدود نہ رہنا پڑے۔مگر آج ملک میں چلنے والی فرقہ وارانہ فضا ہندوستانیوں کو مذہبی بنیاد پر تقسیم کر رہی ہے۔ اس ملک۔مخالف اور فرقہ وارانہ سازش کو ناکام کرنے کے لیے ہمیں نہ صرف مولانا آزاد کو سچے دل سے یاد کرنا ہوگا، بلکہ ان کی تعلیمات پر بھی عمل پیرا ہونا ہوگا۔

Facebook Comments

ابھے کمار
ابھے کمار جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی میں شعبہ تاریخ کے ریسرچ اسکالر ہیں۔ ان کی دلچسپی ہندوستانی مسلمان اور سماجی انصاف میں ہے۔ آپ کی دیگر تحریرabhaykumar.org پر پڑھ سکتے ہیں۔ ان کو آپ اپنے خط اور اپنی رائے debatingissues@gmail.com پر بھیج سکتے ہیں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply