ہم اور ہمارے لبرلز

ہمارے دیسی پاکستان لبرل کے ذہنی الجھاؤ کا معاملہ بھی بہت عجیب و غریب ہے۔ بہت دفعہ وہ ایسے عجیب و غریب موقف لے جاتے ہیں کہ آپ کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔ لبرلازم کا بنیادی مقدمہ ہی فرد کی لامحدود آزادی کے تصور پہ مبنی ہے اور اس لئے ریاست سے غیر ہمدردی رکھتے ہیں۔ ساری دنیا میں لبرلز نسل پرستی و لسان پرستی کی مخالفت کرتے ہیں اور امن رواداری، قوانین اور باہمی انسانی احترام کی حمایت کرتے ہیں اور عسکریت پسندی کے شدید مخالف ہیں۔ لیکن اپنے ہاں کے لبرلز اس کے بالکل الٹ ہیں انکی ہمدردیاں پاکستان میں موجود ہمہ قسم نسل پرست یا لسان پرست چاہے، پشتون ہو، سندھی بلوچ ، پنجابی یا کچھ اور اس کی حمایت میں علم بلند کرتے ہیں۔ مزے کی بات کہ خود کو پاکستانی کہہ کے انڈیا سے آنے والے پاکستانیوں کو مہاجر سمجھتے ہیں اور اس لفظ کے استعمال پہ کوئی اعتراض تو درکنار بلکہ انہیں علیحدہ طور پہ خود بھی برتتے ہیں، بالکل ہٹلر کی طرح جو جپسیوں اور یہودیوں کو مہاجر کہتا تھا ہمارے لبرلز نے بھی وہی رویہ اور سوچ اپنائی ہوئی ہے البتہ اصرار یہ ہے کہ ان کو لبرل کہا اور مانا بھی جائے۔ طالب علم کو ہسپانوی بائیں بازو کے لوگ یاد ہیں جو مجھے خود کو پاکستانی کہلوانے پہ بھی اعتراض کرتے تھے کہ سپینش شہریت ملنے کے بعد تم ہسپانوی ہی ہو، ناکہ پاکستانی۔ کیا آپ نے ہمارے لبرلز کو دیکھا کہ نسل، لسان وغیرہ کی بنیاد پہ الگ سلوک کے خلاف انہوں نے احتجاج کیا ہو؟ لسانی اور نسل پرستانہ تعصب، شدت پسندی اور قتل پہ انکا کوئی احتجاج یاد ہو تو مجھے بھی بتا دیں۔ اچھا اس کو بھی چھوڑ دیں مزید دیکھیں۔۔۔
تمام دنیا کے لبرلز، لبرل ازم کو اسلامزم یا سوشلزم کی طرح ایک عالمی نظریہ مانتا ہے اور تمام ریاستوں کو اسی کسوٹی پہ پرکھتا ہے چاہے اپنی ہو یا غیر ریاست وہ اس سے سروکار نہیں رکھتے لیکن دیسی لبرل کا معاملہ الٹا ہے۔ اگر اس کے پڑوس میں کوئی فاشسٹ نسل پرست ریاست موجود ہے تو اس سے ہمدردی رکھے گا۔ اب یہ بھی ہمیں ہی یاد کرانا پڑے گا کہ ہمارا مشرقی ہمسایہ کانگریس کے دور میں بھی مذہبی بنیادوں پہ پیدا کی گئی نسل پرستی پہ قابو پانے میں ناکام رہا۔
ویسے تو دیسی لبرلز ہر جگہ مذہب کی بنیاد پہ پیدا کئے گئے مسائل پہ تنقید کرتے نظر آتے ہیں لیکن پڑوس کی ریاست میں مذہبی بنیاد کی نسل پرستی کی طرف توجہ کبھی بھی نہ گئی؟ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا دیسی لبرل مذہبی نسل پرستی کے حامی ہیں یا کچھ اور ہے؟ ان کی تنقید کا دائرہ صرف پاکستان ہی کیوں ہوتا ہے؟ کیا وہ لبرل ازم کو ایک عالمی سوچ نہیں گردانتے؟ اب یہاں ایک اور مضحکہ خیز تضاد ہے ہمارے دیسی لبرلز کا، کہ اگر ان کا نقطہ نظر صرف پاکستان کی حد تک محدود ہے تو اس کا قدرتی مطلب ہے کہ وہ پاکستانی قوم پرست ہیں۔ یعنی پاکستان اور پاکستانی ایک قوم ہے جو دنیا سے جدا اور مختلف ہے۔ یہ لبرل ازم خالصتاً پاکستانی لبرل ازم ہے۔ اگر یہ ہوتا تو وہ پاکستانی نیشنلزم کے حامی ہوتے لیکن یہ بھی نہ ہے۔ دور دور تک ان میں آپ کو پاکستانی نیشنلزم کا شائبہ بھی نہ ہوگا۔ بلکہ پاکستان کے اندر کئی قومیں تلاش کرنے میں سرگرداں ہی نظر آئیں گے۔ ایک اور بات ان سے پوچھ لیں، کیا سڑسٹھ فیصد پنجابی آبادی کو یہ حق حاصل ہے کہ اپنی مادری زبان کو قومی زبان بنوا لے اور اپنی مرضی کا آئین سب پہ نافذ کرے؟ان کا جواب نہ میں ہوگا بلکہ دشنام و طعن آمیز آہ و بکا آسمان کی بلندیوں کو چھو لے گی۔
اس کو وہ نسل پرستانہ شاؤنزم قرار دینگے۔ لیکن جب اسی اصول کے زاویہ سے اکہتر کا سانحہ اور شیخ مجیب کے مطالبہ کہ پچپن فیصد آبادی سادہ اکثریت کی بنیاد پہ اپنی مرضی کا آئین بنائے تو اس کی نہ صرف حمایت کرتے ہیں بلکہ اس سے انکار کو ظلم و جبر بھی گردانتے ہیں۔ لکھ لکھ کے ہاتھ تھک جائے گا لیکن دیسی لبرلز کے تضادات ختم نہ ہونگے۔ ان تضادات کا تذکرہ صرف مثال کے لئے کیا ورنہ یہ موضوع ہی نہ تھا۔ موضوع تھا ان تضادات کی وجہ اور بنیاد۔ حقائق تلخ ہیں لیکن بہرحال حقائق ہیں۔ لبرل تھیوری کا آغاز برطانیہ میں ہی ہوا نوآبادیاتی دور کے آغاز پہ لیکن برطانوی وزیر خارجہ لارڈ کیسلریژ نے اس کا رخ بہت مہارت سے دیگر ممالک کی طرف موڑ دیا۔ اس کی خارجہ پالیسی کا خلاصہ یہ تھا کہ لبرلزم پیدا کیا جائے لیکن گھر میں نہ رکھا جائے اور اس کو یورپ اور ایشیا میں برآمد کیا جائے۔ لہذا برطانیہ کی روایتی پالیسی کی منافقت یعنی لبرل ازم ایک وائرس کی طرح پیدا کرو لیکن خود اس سے بچو اور اس کو باہر برآمد کرو کا ایک شاہکار لبرلزم بھی برآمد ہوا۔ اس طرح برطانوی نوآبادیاتی نظام کو سیاسی بنیاد ملی مثلاً ٹیپو سلطان ایک نظریاتی طور پہ ریاست کا حامی تھا اور نظریاتی سطح پہ میر جعفر ایک لبرل تھا۔ ٹیپو قوم اور ریاست کے اجتماعی مفاد پہ یقین رکھتا تھا اور میر جعفر فرد کے ذاتی مفاد پہ۔ اصولاً میر جعفر ایک عظیم لبرل تھا جس کے یوم پیدائش کا جشن لبرلز کو ضرور منانا چاہیے لیکن پتہ نہیں میر جعفر جیسے عظیم لبرل ہیرو کو خود لبرلز نے ہی کیوں فراموش کردیا؟
کلاسیکل لبرلزم نے کلاسیکل نوآبادیاتی نظام کو جنم دیا اور پھیلایا۔ نیو لبرلزم جدید نوآبادیاتی نظام کو جنم دے رہا ہے اور اس کی پرورش کررہا ہے۔ اب مقصد ہے دنیا میں برطانیہ کی بجائے امریکہ کے نوآبادیاتی نظام کی ترویج اور پرورش کرنا۔ اس دفعہ میر جعفر و قاسم کی بجائے نئے میر ہونگے یہ میر وہی کردار ادا کرینگے جو پرانے میروں نے کیا۔

Facebook Comments

عمیر فاروق
اپنی تلاش میں بھٹکتا ہوا ایک راہی

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply