ڈسپلن؛ کامیابی کا عنصر/ڈاکٹر راؤ کامران علی

اشرف (فرضی نام) لاہور کی ایک میڈیکل بِلنگ کمپنی میں کام کرتا تھا۔ تین سال کا تجربہ تھا اور ہوشیار  بھی تھا۔ اس نے لاہور میں ہماری میڈیکل ریونیو سائیکل مینجمنٹ کمپنی کے لئے اپلائی کیا۔ بتاتا چلوں کہ ہماری کمپنی امریکہ میں پریکٹس کرنے والے ڈاکٹروں کے مینجمنٹ کے مسائل حل کرتی ہے جس میں مریضوں کی شیڈیولنگ؛ ڈاکٹرز کی کریڈنشلنگ، انکی ریفرل مینجمنٹ سے لیکر انشورنس کے ساتھ کنٹریکٹ، بل کرنا، ڈاکٹرز کی سروسز کے پیسے انشورنس سے وصول کرنا، ایس ای او، مارکیٹنگ اور بہت کچھ شامل ہے۔ ہمارے خود کے کلینکس اور ہاسپٹلز پارٹنرشپ کا کام اتنا پھیل گیا ہے کہ ہمیں اپنی ذاتی مینجمنٹ کمپنی کھولنی پڑی اور انشورنس  سے وصولی کی شرح اتنی بہترین ہوئی کہ دیگر ڈاکٹر دوستوں نے بھی رابطہ کیا تو الحمدللّٰہ انکے کام میں بھی برکت ہوئی اور پاکستان میں روزگار بھی پیدا کیا۔ اس کام کی نگرانی میں خود ویڈیو آڈیو مانیٹرنگ کے بہترین نظام سے کرتا ہوں اور اسی لئے ڈاکٹرز کو ہم پر بھروسہ ہے کہ ایک ورکنگ ڈاکٹر خود اس آپریشن کو کنٹرول کر رہا ہے نا کہ کوئی کنٹریکٹر یا مڈل مین جس کو احساس تک نہیں کہ   ڈاکٹرز یہاں کتنی محنت  کرتے ہیں۔

اشرف کی تنخواہ دوسری کمپنی میں پچاس ہزار روپے ماہانہ تھی۔ اس نے ہمارا انٹرویو پاس کیا تو میں نے پوچھا کہ تمھارے خیال میں تمھاری کتنی تنخواہ ہونی چاہیے، اس نے جھجھکتے ہوئے کہا ایک لاکھ! میں مان گیا اور ساتھ میں مزید پچاس ہزار ، پٹرول، ہیلتھ انشورنس اور پراویڈنٹ فنڈ وغیرہ کی مد میں تھا۔ اس نے خوشی خوشی کام شروع کردیا۔ اب یہ کام اتنا حساس ہوتا ہے کہ مثلاً اگر وہ ہزاروں ڈالر کی سرجری کی بِلنگ انشورنس   کررہا ہے اور کوئی کوڈ بھی غلط ہوگیا تو بہت نقصان ہوسکتا ہے۔ اس لئے موبائل استعمال کرنے پر سخت پابندی ہے۔ اشرف ایک دو دن تو ٹھیک کام کرتا رہا لیکن پھر کبھی موبائل پر وٹس ایپ تو کبھی فیس بک؛ اسے سپاٹ چیک پر دو بار وارننگ دی کہ اگلی بار لاسٹ وارننگ ہوگی۔ اسے نہیں پتا تھا کہ ویڈیو کے ساتھ آڈیو مانیٹرنگ بھی ہے وہ اگلے دن جاب چھوڑ کر یہ کہتا ہوا واپس پچاس ہزار کی جاب پر چلا گیا “ڈاکٹر صاحب بہت سخت ہیں”! اب یہ ہے ڈسپلن کا حال اور پاکستانی نوجوانوں کا آئی کیو۔

دوسری کمپنی کا مالک وہی مڈل مین جسے اس سے کوئی غرض نہیں کہ ڈاکٹر کے اے آر (اکاؤنٹ رسیو ایبل) سے پیسے آئیں نہ آئیں؛ اسے سستی لیبر چاہیے۔ وہ آٹھ گھنٹے کے پچاس ہزار دیتا اور اسکے دل میں ہوتا  ہے،کہ لڑکے ایک دو گھنٹے موبائل پر ضائع کر بھی لیں تو بھی چھ گھنٹے کے لئے پچاس ہزار میں سستے ہیں ۔ لیکن اشرف کی عقل دیکھیں کہ اس نے وہ دو گھنٹے روزانہ ایک لاکھ روپے میں خریدے اور اسے اس بات کا اندازہ تک نہیں۔ اسکا خیال ہے کہ یہ باس “اکاموڈیٹنگ” ہے اور سخت نہیں حالانکہ یہ باس اسکا خیر خواہ نہیں۔ اگر وہ ڈسپلن سے کام کرتا تو اگلے ایک دو سال میں اسکی تنخواہ ڈبل ہوجاتی اور اسکے سینئرز کی ہے بھی۔ سوچیں بی اے پاس چوبیس پچیس سالہ لڑکوں کی تنخواہ صوبے کے چیف سیکرٹری سے بھی زیادہ ہو اور ڈیمانڈ کیا ہے؛ مہارت؛ ایمانداری۔

تھامس جے اسٹینلے کے مطابق ایمانداری کے بعد کامیابی کا دوسرا بڑا عنصر بھی ہارورڈ یا جدّی پشتی جاگیر یا تیل کا کنواں نہیں بلکہ ڈسپلن ہے اور ڈسپلن نہ ہو تو آپ کے آس پاس کتنے ایسے ہوں گے جن کو ورثے میں مربعے ملے فیکٹریاں آئیں پلازے آئے اور آج وہ بھی کسی نہ کسی آٹے کی لائن میں لگے ہوں گے۔ اسلام ڈسپلن کا مذہب ہے۔ ایک بار مسجد میں بیان میں سُنا تھا کہ نماز باجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھنے کا ثواب چالیس سرخ اونٹوں کے برابر ہے۔ اسکے بعد نجانے کتنے مہینوں تک تکبیر اولیٰ نہیں چھوٹی۔ جس تبلیغی بھائی نے یہ بتایا تھا وہ بھی کئی بار تیزی سے مسجد کی جانب بھاگتے دیکھ کر مسکراتا تھا لیکن اس وقت دماغ جہاں لگ گیا سو لگ گیا۔ اب نماز کی تو ویسی پابندی نہیں رہی لیکن اس سے جو ڈسپلن سیکھا اسکا بہت فائدہ ہوا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اللہ بے نیاز ہے اسے کیا کہ تکبیر اولیٰ میں پہنچو یا آخری رکعت میں؟ اسکا جواب کم از کم مجھے تھامس جے اسٹینلے کو پڑھ کر ملا کہ اللہ تعالی ہمیں اس دنیا میں بھی کامیاب دیکھنا چاہتا ہے اور اسی لئے ڈسپلن کی تربیت کرنا چاہتا ہے۔ یہ بھی حدیث ہے کہ تقویٰ برابر ہو تو طاقتور مومن (مالی اور جسمانی طور پر) کمزور مومن سے بڑھ کر ہے۔ اب اگر کوئی امیر ہے یا باڈی بلڈر ہے تو بتائیں کہ ڈسپلن کے بغیر کیسے کرسکتے ہیں؟ امیر کو دیکھیں کیسے ایک ایک منٹ کا شیڈول طے ہوتا ہے۔ باڈی بلڈرز کیسے گھڑی دیکھ دیکھ کر پروٹین شیک پیتے ہیں اور سیٹ لگاتے ہیں۔ یہ سب باتیں فضول اور نکمے لوگوں کی پھیلائی ہیں کہ “دنیا کتے کا گھر ہے” وغیرہ وغیرہ۔ ہر وہ پیر جو ایسی باتیں کرتا ہے شام کو  نوٹوں کی بوری  کو بطور نذرانہ  لیکر گھر جاتا ہے اسکے اپنے بچے یورپ امریکہ ہوتے ہیں اور اسکے پیروکار دنیا کو کتے کا گھر مان کر ویسی ہی زندگی (معذرت کیساتھ) گزار رہے ہوتے ہیں۔ کبھی نوٹ کریں ہر وہ بندہ جو کہتا ہے دولت ہاتھ کا میل ہے؛ قرض مانگتا نظر آتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا ذاتی زندگی میں کوئی ڈسپلن نہیں اور نہ ہی مذہبی زندگی میں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

روزہ ڈسپلن کی بہترین تربیت ہے۔ میں رمضان کو سال کی تربیت کا ایسے مہینہ مانتا ہوں جیسے ہمیں امریکہ میں پریکٹس کرنے کے لیے سال میں ایک بار مزید اعلیٰ تعلیم سی ایم ای حاصل کرکے سرٹیفیکٹ جمع کروانا ہوتا ہے۔ مزے کی بات ہے کہ یہ کریڈٹ بھی تیس ہوتے ہیں۔ یا جیسے فوجی افسران کو اسٹاف کورس کرنا ہوتا ہے؛ ایسے ہی رمضان ہمارے لئے ایمانداری اور ڈسپلن کی تربیت کا مہینہ ہے۔ آخرت میں تو ہمیں پتا ہے کہ اللہ معاف کرنے والا ہے ہی تو اب ہمارا ٹارگٹ ہے کہ اس ڈسپلن کو استعمال کرکے زندگی کو بہترین بنائیں۔ مالی اور جسمانی طور پر بہترین مومن بنیں اور پوری دنیا نہیں تو کم از کم انڈیا سے تو per capita income یعنی فی کس گھریلو آمدنی کا مقابلہ جیت لیں۔ روز سوشل میڈیا پر میجر آریا جیسے چولوں کے طعنے سن کر آپکا خون جوش نہیں مارتا کیا؟ انکا مقابلہ صرف اور صرف مہارت ایمانداری اور ڈسپلن سے ممکن ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply