لبیک الھم لبیک۔دیارِ عشق(2)۔۔۔۔ابنِ اکرم

آج جمعہ تھا اور میں مطاف میں تھا۔ کل سے کئی بار نماز پڑھنے حرم آ چکا تھا۔ بس جیسے تیسے نماز پڑھتا تھا اور چلا جاتا تھا۔ اک آدھ بار کعبے کو دیکھا اور خالی آنکھوں ،خالی دل واپس لوٹ گیا۔ جمعہ پڑھنے وقت سے کافی پہلے ہی حرم میں آ گیا تھا اور چلتے چلتے دونوں ماں بیٹا مطاف میں جا پہنچے۔ دس بجے ہی سے وہاں لوگ جمعہ کے لیے بیٹھنا شروع ہو چکے تھے۔
شرطے آتے تھے، کبھی آہستہ کبھی زور سے کبھی زبردستی سے لوگوں کو اٹھاتے تھے کہ طواف کرنے والوں کا رستہ رکنا شروع ہو گیا تھا۔ جمعرات کی رات ہی سے مکہ کے قرب و جوار سے بھی لوگ آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جمعہ کی چھٹی کی وجہ سے رش دوگنا ہو جاتا ہے کہ لوگ جمعہ حرم میں پڑھنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں حرم میں رش اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ ذرا سی غفلت حادثے کا باعث بن سکتی ہے، مگر وہاں سنتا کون ہے۔ شرطوں کی بے بسی کا عالم دیکھنے کے قابل ہوتا ہے کہ کیسے یہ مجمع کنٹرول کریں۔ سمجھداری یہ کی کہ والدہ کو پہلے ہی رستے سے ہٹ کر ذرا پیچھے بٹھا دیا، جہاں زیادہ خواتین تھیں۔ گو حرم میں مرد و عورت کی تمیز ختم ہو جاتی ہے مگر نماز کے وقت شرطوں اور نگرانوں کا اصرار ہوتا ہے کہ عورتیں پیچھے چلی جائیں اور مرد وں کے ساتھ کھڑی نہ  ہوں۔ والدہ تو ایک جگہ فٹ ہو گئیں اور میں کھڑا شہباز کو دھونڈنے کی کوشش میں تھا گو جانتا تھا کہ انسانوں کے اس سمندر میں ایک شہباز کہاں ملے گا۔

کعبہ خدا سے خالی تھا ۔۔(دیار عشق۔1) ابن اکرم

جہاں کچھ دیگر باتیں طے کی تھیں وہاں یہ بھی طے کیا تھا کہ اس سفر کو پکنک یا فرینڈز ہالیڈے نہیں بنانا۔ سو کسی کو خبر نہ  کی تھی۔ مگر شہباز کو ایک دن پہلے بتا دیا۔۔ شہباز کبھی نہیں ملا تھا مگر مجھ سے بہت پیار کرتا تھا۔ اور جانے کیوں اسکی ہمیشہ دلی خواہش تھی کہ میں عمرہ کروں۔ وہ اکثر مکہ یا مدینہ سے مجھے میسج کرتا تھا کہ آپ کے لیے دعا کی ہے کہ آپ کو بھی بلایا جائے۔ اتفاق کہ آنے سے فقط اک دن قبل اس نے میسج کیا کہ جانے آپ کب آئیں گے اور میں نے اسے بتا دیا۔ گو اس سے درخواست کی کہ تکلیف نہ  اٹھانا مگر وہ اپنی تمام تر سادگی،تحائف اور محبت کے ساتھ جدہ سے مکہ آ چکا تھا۔ حرم میں تو اکٹھے ہی داخل ہوئے، مگر اب جانے وہ کہاں تھا اور میں ملتزم کے سامنے اس کوشش میں تھا کہ بس کسی طرح شرطوں سے بچ جاؤں اور جمعہ یہیں پڑھ لوں۔

رش اچانک بہت زیادہ بڑھ گیا۔ کئی انٹری پوائنٹس بند کر دئیے گئے تھے۔ اچانک لوگوں نے بند رستہ ہونے کی وجہ سے الٹا بھی آنا شروع کر دیا۔ مجھے یقین ہونے لگا کہ آج یہاں سٹیمپیڈ ہو جائے گا۔ اور خود سے زیادہ فکر ان بوڑھے بنگالی مائی بابا کی تھی جو جم کر بیٹھ گئے تھے۔ کئی بار انکو کہا یہاں سے اٹھ جاؤ، کچلے جاؤ گے مگر وہ سن کر نہ  دئیے۔ میں انکے سامنے کھڑا ہو کر لوگوں کو روکنے لگا لیکن اچانک جب ریلا آیا تو دو تین بار لوگ انکے اوپر گرے۔ دماغ نے صلاح دی کہ تین چار لائن پیچھے چلا جا اور پیچھے جو آیا تو ذرا سی جگہ پا کر بیٹھ گیا۔ کچھ یوں کہ میری بائیں جانب ایک عرب تھا اور دائیں جانب ایک بنگالی خاتون اپنی بیٹی یا بہو کے ساتھ بیٹھی تھی۔ اذان سے کچھ آدھ گھنٹہ قبل شرطے اپنی آئی پہ آ گئے اور “یلا یلا” “چلو چلو” کرتے ہوئے لوگ اٹھا دئیے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جیسے ہی اذان ہوئی اور طواف رکا تو میں تیسری صف میں بیٹھا ہوا خود بخود اس حصے میں پہلی صف والا بن گیا۔ اطمینان ہو چکا تھا کہ میرا جمعہ مطاف میں ہی ہو گا۔ لیکن ابھی آزمائش رکی کہاں تھی۔ اب شرطے اور کچھ چلتے پھرتے مولوی خواتین کے ترلے کرتے تھے، دھمکاتے تھے کہ پیچھے کو جاؤ، مردوں کے ساتھ نہ  بیٹھو مگر ان کی سنتا کون تھا۔ اتنے میں خطبہ شروع ہو گیا۔ میں نے دل میں کہا یا اللہ یہ جو میرے دائیں جانب بیٹھی ہے میری ران سے ران جوڑے،کندھے سے کندھا ملائے اور جو پیچھے ہے جس کا گھٹنہ  میری کمر کے لیے ستون بنا ہوا ہے، میری ماں ہیں، میری نماز قبول کر۔

حرم میں مکمل خاموشی تھی اور خطبہ جاری تھا جب اچانک کعبہ جاگ اٹھا۔ کعبے کو دیکھتے ہوئے خیال آیا کہ کبھی میرے صاحب ﷺ بھی تو شاید یہیں کعبہ کو بیٹھ کر دیکھ رہے ہوں کہ تب  حرم بڑا ہی کتنا تھا۔ یکدم یوں لگا جیسے مجھے کچھ ہوا ہے۔ نماز کھڑی ہوئی، امام نے کیا پڑھا معلوم نہیں مگر وہ جو پڑھ رہا تھا وہ جیسے مجھ پہ اتر رہا تھا۔ میں ہچکیوں سے رو رہا تھا۔ بنا کچھ سوچے کچھ سمجھے میں بس کعبہ کی جانب دیکھ کر رو رہا تھا۔ نماز ختم ہوئی اور لوگ حرم سے باہر کو نکلنا شروع ہوئے۔ مجھے یوں لگا جیسا کعبہ دو بانہیں بن گیا ہے،میں اٹھا اور کعبہ کی جانب چل پڑا۔ میں کب اور کیسے پہنچا یاد نہیں لیکن میں حطیم اور دروازے کے درمیان کسی جگہ کعبے سے چمٹا ہوا تھا، رو رہا تھا۔ ہاں تو ہے، تو خالی نہیں، تو نے مجھے بھی بھر دیا ہے۔ میں آنسوں کی زبان سے کعبے سے اور کعبے والے سے باتیں کر رہا تھا۔

میرے پیچھے سے ایک نسوانی ہاتھ کعبے کو چھونے کی کوشش کر رہا تھا، میں ہٹا اور اسے جگہ دے دی۔ ایک وجد میں چلتا چلتا حطیم کی دوسری جانب سے یکدم میں پھر کعبے کی دیوار سے چمٹا ہوا تھا۔ کعبہ کیا ہے، ایک عمارت ہی تو ہے، نہ  ہم اسکی پرستش کرتے ہیں نہ اس سے کچھ مانگتے ہیں، مگر اسے چھوتے ہی اس سے لپٹتے ہی ایسا لگا جیسے خدا کو جپھی ڈال لی ہے۔ جیسے صحرا میں اک لمبا سفر کرنے والے کو نخلستان کی منزل میسر آ گئی ہے۔ میں کُرلاتا تھا، اسے چومتا تھا، مجھے کوئی دعا یاد نہ  تھی، مجھے کوئی رشتہ کوئی حاجت یاد نہ تھی، بس ہائے او میریا ربا، مینو معاف کر دے سوہنیا،میں  سسک رہا تھا۔

مجھے دو چار دھکے لگے تو میں ہٹ گیا اور طواف کرانے لگا۔ وہ طواف تھا یا نہیں میں نہیں جانتا، وجد تھا یا ہیجان نہیں جانتا۔ اگر کوئی اس وقت مجھے دیکھتا یا میری دبی دبی آواز میں کی گئی گفتگو سنتا تو شاید مجھے پاگل سمجھتا یا گستاخ کہہ کر مارنے لگتا۔ میں آسمان کی جانب منہ کیے بنا دائیں بائیں دیکھے ہوش سے بیگانہ ہوا کعبہ کے گرد گھوم رہا تھا۔ کبھی آسمان کی جانب دیکھ کر بے آواز ہنسنے لگتا اور کسی چکر میں سسکیوں سے رونے لگتا۔ او میرے سوہنیا، تیرا شکر۔ تو مینو کتھے لے آیاں۔ او ربّا مینو بخش دے۔ ہائے  او اللہ جی میں کی کراں، آئی لو یو اللہ جی، یا اللہ میرے باپ کو معاف کر دے۔ یا اللہ میرے دوستو دشمنو کو معاف کر دے، اے معاف کرنے والے سب کو معاف کر، اے فضل والے سب پہ فضل کر دے، تیرا گھر کنا سوہنا اے ربا، تو بھی کنا سوہنا اے۔ آئی لو یو گاڈ۔ لبیک یا اللہ جی، میں آ گیا، میں ست ست واری لبیک، لبیک الھم لبیک۔ وہ نظر نہ  آتے ہوئے بھی میرے سامنے تھا اور میرا وجود لبیک بن کر اس کے سامنے تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply