دامن کو ذرا دیکھ ، ذرا بند قبا دیکھ

کچھ روز قبل ایک نوجوان سے گفتگو ہوئی۔ اس نے بتایا کہ وہ قائداعظم سے یہ سوال کرنا چاہتا ہے کہ پاکستان کے قیام کا خیال ان کے دل میں کیونکر جاگزیں ہوا کہ انہوں نے اپنا تن من دھن اس راہ میں قربان کر دیا؟ وہ بھی اِن مسلمانانِ برصغیر کے لئے جو اَب ایک دوسرے کے لئے دل میں پرخاش کے سوا کچھ نہیں رکھتے اور یہ نفرت کی چنگاریاں محبت کی رہی سہی رسیوں کو بھی جھلسا رہی ہیں۔
اس نوجوان طالب علم کے اس انداز گفتگو سے کچھ حیرانی تو ہوئی مگر دل کو تسلی دینے کے لئے اتنا سوچا کہ یہ نئے زمانے کی نسل ہے شائد کسی سے کوئی تلخ کلامی ہوئی ہے تو اس طرح کی عجیب نوادرات کی بارش اس کی زبان سے چھلک رہی ہے۔ لیکن فوراً دل کی جانب سے اس کی نفی کی گئی اور اس کے خیالات کو مزید جاننے کے لئے گفتگو کرنے کو دل چاہا۔
میں نے پوچھا کہ قائد اعظم کا جو نظریہ مملکت اسلامیہ کا تھا وہ پاکستان کے مؤرخین اور ان کے سوانح نویس اچھی طرح درج کر چکے ہیں۔ مگر آپ کے دل میں یہ خیال کیوں ابھرا ۔تواس نوجوانِ پاکستان نے تفصیلی طور پر پاکستان کی تاریخ کے وہ پوشیدہ امور ظاہر کئے کہ جن کو جانتے ہوئے بھی ہمارے تاریخ دان اسے تاریخ کا حصہ نہیں بننے دیتے۔ لیکن اس تاریخ میں ان امور کاہی ذکر تھا جن میں اس کی اپنی ذات سے متعلق بے انصافی نظر آرہی تھی اور جس کاسبب آج کے اقتدار میں موجود لوگ تھے۔ لیکن اس نے پاکستان کے قیام کو ہی تمام امور کی بنیاد قرار دیتے ہوئے فرد جرم قائد اعظم پر عائد کر دی کہ ان کی سب سے بڑی غلطی پاکستان بنانا ہی تھی۔ یعنی نہ ہوتاپاکستان اور نہ ہوتی یہ مہنگائی ۔ نہ ہم بنیادی سہولیات سے محروم ہوتے اور نہ فرقہ واریت وعلاقائی منافرت۔
یہ صرف ایک نوجوان کا حال نہیں بلکہ آج کل تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس قسم کے خیالات کی حامل ہے۔ اس لئے سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس قسم کے حالات پیدا ہو گئے ہیں کہ ہم بانی ٔ پاکستان کی ذات پر یہ الزام لگا سکیں کہ انہو ں نے پاکستان بنا کر وہ غلطی کر دی جو کہ ناقابلِ تلافی جرم ہے اور قابل مؤاخذہ!!! (آج کل کی اصطلاح کے مطابق قابلِ محاسبہ)۔ مگر یہ لوگ اس امر سے ناواقف ہیں کہ یہ مسلمانوں کی خوش قسمتی تھی کہ ان کو قائد اعظم جیسا راہنما ملا۔جس نے دن رات ایک کر کے پاکستان کا حصول ممکن بنایا۔ ورنہ آج بھی مسلمان انگریز اور ہندؤوں کی غلامی میں ہی رہتا۔ بے شک انگریزوں اور ہندؤوں کے علاوہ ملاّ نے بھی قائد اعظم کی شدید مخالفت کی اور اگرملاّ ہی قابل تقلید رہتا تو اس ’’کافرِ اعظم‘‘ کی اتباع کس نے کرنی تھی۔
؂ ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اگر ان جیسی شخصیت آج بھی پاکستان میں پیداہو جائے تو پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔کیا ان کے ارشادات کالعدم ہو گئے ہیں؟ آیا ان کے احکام آج بھی پاکستان کے آئین کی بنیادی دفعات نہیں بن سکتے؟
ہمیں بچپن میں یہ بتایا گیا کہ کس طرح محنت و مشقت سے لوگوں نے اپنا نام بنایا۔ جواپنی منزل کے حصول کے راستہ پر چل پڑا تو اس نے اپنی منزل کو پا لیا ۔پس ایک لو، ایک لگن کی ضرورت ہے۔ کیا آج کا نوجوان خود اپنے پیر پر کھڑا نہیں ہو سکتا۔کیا آج کا نوجوان ان باتوں کے حق میں آواز نہیں اٹھا سکتا جو اس ملک کی سلامتی و بقا کے لئے ضروری ہیں۔آج نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والی سیاسی تنظیمیں قائد اعظم کے راہنما اصولوں کو بنیاد بنا کر ان کے لئے ایسا لائحہ عمل نہیں بنا سکتیں کہ نوجوانانِ پاکستان کا مستقبل سنور جائے ۔ گذشتہ سال کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں دنیا بھر کے ممالک کی نسبت یوتھ کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔تو کیا اربابِ اختیار ان کی تعلیم و تربیت کے لئے بجٹ میں منظور شدہ کوٹہ انہی پر خرچ نہیں کر سکتے۔ اکثر لوگ تو یہ بار خود ہی اٹھاتے ہیں۔ اس لئے کبھی ایک تندور پر کام کرنے والا اول آرہا ہے تو کبھی ایک چھوٹی ستارہ بروج اکبر اپنے نام کی حقیقت کو سمجھتے ہوئے ستاروں پر کمند ڈالنے کا مصمم ارادہ رکھتے ہوئے ترقیات کی منازل عبور کرتی چلی جا رہی ہے۔ یہ لوگ ارباب اختیار کے لئے ایک سوال چھوڑتے چلے جا رہے ہیں۔کہ تمہیں تو ہماری پرواہ نہیں ہے ۔ یہی پاکستان ہے جس کی زرخیز زمین نے جہاں عملی میدان میں دشمنوں کی صفوں کو چیرنے والے نڈرجوان پیدا کئے وہاں علم کے میدان میں نوبل پرائز حاصل کرنے والا عبد السلام پیدا کیا۔ جہاں شدت پسند اس زمین میں فساد برپا کئے ہوئے ہیں وہاں گل مکئی امن کا نوبیل حاصل کر رہی ہے۔ آج کے جوان کو اسی بات کی ضرورت ہے کہ اپنا مطمح نظر بلند رکھے۔ اگر چند پاکستانی ورلڈ ریکارڈ بنا سکتے ہیں تو کیوں اکثریت اس کا حصول ممکن نہیں بنا سکتی۔ٹیلنٹ کی کمی نہیں اپنی فیلڈ میں ماہر ہوں اور اپنی قابلیت کا لوہا منوا لیں۔اور قائد اعظم رحمۃ اﷲ علیہ کی مغفرت کے لئے دست دعا بلند کریں نہ کہ ان پر دست دراز۔۔۔۔۔ پہلے سوچئے آپ کتنے پانی میں ہیں؟؟؟
؂ دامن کو ذرا دیکھ ، ذرا بند قبا دیکھ

Facebook Comments

ذیشان محمود
طالب علم اور ایک عام قاری

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply