کب ٹھہرے گا درد اے دل، کب رات بسر ہو گی

اللہ جانے یہ ظالم رات کب بسر ہو گی؟۔اب تو دوسری نسل بھی بوڑھی ہوچکی۔تیسری کے بھی دائیں بائیں گُپ اندھیرا ہے۔

خان کے دھرنوں اور شہر بند کر دینے کی دھمکیوں سے دل میں اک جانا پہچانا سا خوف بیٹھ گیا تھا۔یہ خوف جو ایک مسلسل درد جیسی کیفیت اختیار کر چکا ہے۔ایسے موقعوں پر بچھو کے کاٹے جیسا رگ رگ میں سما جاتا ہے۔کچھ لوگ سمجھ رہے ہیں جمہوریت فتح یاب ہوئی۔ایسا نہیں ہے جی۔جہاں سیاست دان اور سیاست ہار جائے وہاں جمہوریت کی فتح کیسی؟۔جمہوریت اس وقت فتح یاب ہوتی جب اس مسئلے کا حل پارلیمان کے اندر تلاش کر لیا جاتا۔لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا۔اب اعلیٰ عدلیہ نے آگے بڑھ کر اس الجھائو کا سلجھائو تلاش کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ہم دعا گو ہیں کہ وہاں سے ایسا فیصلہ آئے جس سے عدل و انصاف کا پرچم بلند ہو۔ماضی کی عدلیہ سے اس قوم کو بہت شکوے رہے ہیں مگر حال کی عدلیہ سے بہت اُمیدیں وابستہ ہیں ۔ایک جمہوری بندوبست کے تین ہی تو ستون ہوتے ہیں۔ مقننہ۔عدلیہ اور انتظامیہ۔مقننہ ماں ہوتی ہے عدلیہ سرپرست اورمنصف اور انتظامیہ محافظ۔بڑی عدالت کے جج صاحب نے ٹھیک ہی کہا ہے کہ عدلیہ کے علاوہ کوئی فیصلہ ساز نہیں ہوتا۔جہاں قانون مقننہ کے علاوہ کسی اور ٹکسال میں ڈھالہ جانے لگے اور فیصلے ترازو کی بجائے تلوار کے سائے میں ہونے لگیں وہاں قوموں کا حشر وہی ہوتا ہے جو اس وقت ہمارا ہے۔

خان صاحب نے رائے ونڈ کے جلسے میں آئیندہ کا لائحہ عمل بتاتے ہوئے انگریزی کا لفظ لاک ڈائون استعمال کیا۔ کپتان نے ساری زندگی کرکٹ کھیلی ہے لفظوں کا کھیل اس کے بس کی بات نہیں۔چنانچہ ہر مرتبہ مار کھا جاتا ہے۔بھٹو جیسے لفظوں کے دھنی اس میدان میں مار کھا چکے ہیں۔ مونچھوں سے تسمے اور آرٹیکل چھ جیسی باتیں کرنی کی بھلا کیا ضرورت تھی؟۔ایک لیڈر کو اور کچھ آتا ہو یا نہ آتا ہو لفظوں کے برتنے کا سلیقہ ضرور آنا چاہیے۔حضرت ابوالحسن ع یاد آتے ہیں۔ ’’ زبان وہ درندہ ہے جو اکثر خود کو ذخمی کر بیٹھتا ہے، لوگو اپنی زبان کی حفاظت ایسے کرو جیسے سونے اور چاندی کی کرتے ہو‘‘ مگر آج کے لیڈروں کو یہ بات کون سمجھائے؟۔

بہت سارے اصحاب الرائے کا کہنا ہے خان ایک مرتبہ پھر ناکام ہو گیا۔سیاست مگر دوسرے کھیلوں جیسا کھیل کہاں۔ یہاں سو فی صد نہ فتح ہوتی ہے نہ شکست۔خان نے اگر کوئی شکست کھائی ہے تو اپنے بے تکے اندازوں سے۔بھلا دس لاکھ کی مالا جپنے کی کیا ضرورت تھی۔جی ٹی روڈ اور موٹر وے پر کنڈیکٹری کرنے والا بھی جانتا تھا کہ دس لاکھ آنے کو تو تیار ہیں مگر انہیں لائے گا کون؟۔ہاں اگر چوہدری سرور، علیم خان اور جہانگیر ترین جیسے دس بیس اور ہوتے تو یہ بھی ممکن تھا۔دسیوں لاکھوں تو وہ ہیں جو خود بیمار پڑ جائیں تو ہسپتال کی پرچی اور سوزوکی کے کرائے کے لیے ان کی جیب میں پیسے نہیں ہوتے۔اور جب وہ دل سے چاہتے ہوئے بھی نہیں آ سکتے تو بہت سارے فربہ پیٹوں والے آسودگی کا ڈکار مارتے ہوئے ٹی وی پر کہہ رہے ہوتے ہیں، وہاں تو دس بیس ہزار سے زیادہ نہیں تھے۔سچ یہ ہے کہ عام آدمی بے شک ووٹ اب کی بار بھی برادری اور فرقے کے خدائوں اور علاقائی بتوں پر چڑھاوا چڑھا کر ایک مرتبہ پھر اپنے پائوں پر کلہاڑی مار بیٹھے، مگر خان نے اسے سوچنے پر مجبور ضرور کیا ہے۔وہ جب اپنے علاقے کے چھوٹے چھوٹے پولیس ٹائوٹ نما سیاسی نکھٹووں کوکرنڈی اور بوسکی کے سوٹوں اور نئے ماڈل کی ایکس الائیوں میں گھومتے دیکھتا ہے جنہیں کل تک سوزوکی ڈرائیور بھی فرنٹ سیٹ پر بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتا تھا،تو حالات کی بے رحم چکی میں پسا ہوا طبقہ دیکھتا ہی نہیں اب سوچتا بھی ہے۔ وہ جب سنتے ہیں حکمرانوں کے بچے چھ سو کروڑ کے گھر میں رہتے ہیں تو وہ اب سوچتے ہیں کہ ہمارے بچے بارشوں میں گرنے والی چھتوں کے نیچے دب کیوںجاتے ہیں؟۔

مجھے خان کے طرز سیاست پر کوئی بھروسہ نہیں۔ اس کے الجھے ہوئے خیالات سے بہت اُلجھن ہوتی ہے۔وہ ابھی تک ہمیں نہیں بتا پایا کہ اس کے زیر انتظام ریاست میں مذہب اور سیاست کا آپس میں کیا رشتہ ہو گا؟۔اور بہت سارے سوالات ہیں جن کے جوابات ابھی باقی ہے۔میرا اخبار نویسوں ،سوچنے والے اور تجزیہ کرنے والے جس طبقے سے تعلق ہے اس طبقے کی اکثریت اس کا مذاق اُڑا رہی ہے۔کوئی اسے ہتھیار ڈالنے والا دوسرا نیازی لکھ رہا ہے۔کوئی اسے یو ٹرن خان کا خطاب دے رہا ہے۔کوئی اسے اسٹیبلشمنٹ کا پیادہ قرار دے رہا ہے تو کوئی بھیجے سے خالی سر والا۔میرا دانشوروں کے اس قبیلے سے ایک سوال ہے؟۔جو خدا پر یقین رکھتا ہے وہ اپنے خدا کو یاد کرکے، جو ایسے کسی بندھن سے آزاد ہے وہ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر بتائے کہ خان ان سب سے گیا گزرا ہے جو آج تک ہم نے بھگتائے ہیں؟۔ایک مرتبہ ہز ہائی لکسی غلام محمد سے لیکر’’چیف ایگزکٹو ‘‘جناب پرویز مشرف تک کی کہکشاں پر نظر تو دئوڑائیں۔ان میں معین قریشی سے لے کر شوکت عزیز تک کیا کیا دُم دار ستارے ہماری ان گناہ گار آنکھوں نے نہیں دیکھے۔جن کے دل پر ماش کے دانے پر سفیدی جتنا بھی عوام کے دُکھ درد کا نشان نہیں تھا۔اگر ہم سیاہ مقدروں کے مقدر میں ڈسا جانا ہی لکھا ہے تو کیوں نہ اس مرتبہ ایک نئے سوراخ سے ڈسوایا جائے۔کم از کم ان سے تو نہیں جنہوں نے مذہب اور سیاست کو ایک کاروبار بنا کر رکھ دیا ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

خان کو بھی اب یہ بات پلے سے باندھ لینی چاہیے کہ اپنے لیے حکمران چننے کا حق صرف اور صرف عوام کا ہے۔کوئی دوسرا طبقہ جب اس حق کو استعمال کرتا ہے تو اس کا فائدہ اس گروہ کو تو ہوتا ہے لیکن عوام ہمیشہ نقصان میں رہتے ہیں۔اب جلسہ جلسہ اور دھرنے مرنے کا کھیل چھوڑ کر عوام کی خدمت پر توجہ دیں۔ خیبر پختون خواہ میں آپ سے جتنی اُمیدیں تھیں ان کا عشرِ عشیر بھی ابھی تک حاصل نہیں ہوا۔وہاں عمل سے ثابت کریں کہ آپ اور آپ کی ٹیم اس قابل ہے کہ آئیندہ چنائو میں آپ پر بھروسہ کر کے عوام ایک مرتبہ پھر گھاٹے کا سودا نہیں کریں گے۔

Facebook Comments

سبطِ حسن گیلانی
سبط حسن برطانیہ میں مقیم ہیں مگر دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتا ہے۔ آپ روزنامہ جنگ لندن سے بطور کالم نگار وابستہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply