بالی وڈ کی “شمی آنٹی” کی زندگی پر ایک نظر۔۔صفی سرحدی

ماضی کی مشہور بالی ووڈ ادکارہ شمی آنٹی 89 برس کی عمر میں انتقال کرگئیں۔ شمی کا جنم پارسی آتش پرست خاندان میں 24 اپریل 1929 کو گجرات میں نانا کے گھر پر ہوا تھا۔ جب شمی چند ماہ کی ہوئی تو انکا خاندان ممبئی منتقل ہوگیا۔ شمی کے والد پارسیوں کے مندر میں اگیاری تھے اور ماں ایک عام گھریلو خاتون تھیں۔
شمی جب تین سال کی ہوئی تو انکے والد انتقال کرگئے۔ مجبوراً  شمی کی والدہ نے روزگار کے طور پر اپنی  پارسی برادری کی مذہبی تقریبات میں کھانا پکانے کا کام شروع کردیا۔ ماں کا بوجھ  کم کرنے کیلئے شمی کی بڑی بہن مانی رباڑی نے ٹاٹا ٹوائے فیکٹری میں کام کرنا شروع کیا۔ اور بعد میں جانسن اینڈ جانسنز فیکٹری  میں بطور سیکرٹری کام کرنے لگی۔
لیکن کچھ عرصہ بعد مانی رباڑی نے فیشن انڈسٹری کو جوائن کیا اور بعد میں بطور بالی ووڈ فیشن ڈریس ڈیزائنر کے   انہوں نے 1967 سے لیکر 1994 تک کام کیا۔
شمی نے میٹرک کرنے کے بعد جانسن اینڈ جانسنز فیکٹری میں ماہانہ سو روپے میں ٹیبلیٹ پیکنگ کا کام شروع کیا۔ کام کے دوران جو ٹیبلیٹس پیکنگ مشین سے رہ جاتے تھے تو اسے شمی ایک بوتل میں جمع کرنے کے بعد روز ہسپتال لیجاکر مریضوں میں مفت بانٹ دیا کرتی تھیں۔ شمی کا خاندان زیادہ مذہبی تھا اس لیے فلموں سے ان کا خاندان دور رہتا تھا لیکن ان کی بڑی بہن مانی رباڑی پیپلز تھیٹر کی ایکٹوممبر بن گئی تھیں۔ ایک دن جب شمی اپنے بہن کے ساتھ تھیٹر گئی تو ڈرامہ ریہرسل کے دوران شمی کی ملاقات اس وقت کے مشہور زمانہ فلمساز محبوب خان کے اسسٹنٹ چمن کانت گاندھی سے ہوئی۔ جو ان کے گھر آیا کرتے تھے اور ان کے گھر میں انہیں چینو ماما کے نام سے پکارا جاتا تھا۔
چمن کانت گاندھی کی اس وقت کے معروف اداکار شیخ مختیار سے اچھی دوستی تھی اور ان دنوں شیخ مختار اپنی فلم استاد پیڈرو کیلئے سائیڈ ہیروئن کی تلاش میں تھے۔ اس لیے چمن کانت گاندھی نے شمی سے فلم میں کام کرنے کے بارے میں پوچھا۔ لیکن شمی کے ماموں نے بڑی مخالفت کی۔ لیکن والدہ نے ان کی حمایت کی۔
چمن کانت گاندھی نے شمی کو شیخ مختار سے ملنے کا کہا۔ شمی شیخ مختیار سے ملنے ان کے گھر پہنچ گئی۔ شیخ مختار نے انہیں دیکھتے ہی پوچھا کیا تم روانی سے ہندی بول سکوگی کیونکہ تم ایک پارسی گھرانے سے ہو۔ شمی نے شیخ مختیار سے کہا میں ابھی آپ کے ساتھ ہندی میں ہی تو بات کررہی ہوں اور اگر مجھے آگے بھی بولنے کا موقع ملے گا تو میں آگے بھی روانی سے ہندی بول کر دکھاؤں گی۔
شیخ مختار شمی کے جواب سے بہت متاثر ہوئے اور سیدھا انہیں اپنی فلم استاد پیڈرو میں سائن کرلیا۔ یہ فلم اٹھارہ مہینے میں بنی اور 1951 میں اس فلم کو ریلیز کردیا گیا۔ اس فلم کی کاسٹ میں شیخ مختار نذیر احمد انصاری بیگم پارہ اور شمی شامل تھے۔ شمی نے اس فلم میں نذیر احمد انصاری کے مقابل کام کیا۔ فلم استاد پیڈرو کے ڈائریکٹر تارا مہیش تھے وہ اپنی اگلی فلم گلوکار مکیش کی پروڈیوس کردہ فلم ملہار، ڈائریکٹ کرنے والے تھے۔ تارا مہیش اس سے پہلے 30 اور 40 کی دہائی  میں اداکار وگلوکار رہ چکے تھے۔ وہ محبوب خان کے ساتھ فلم ہم تم اور وہ، عورت، بہن، اور ایک ہی راستہ، میں کام کرچکے تھے۔ تارا مہیش فلم استاد پیڈرو میں شمی کی اداکاری سے بہت متاثر ہوئے تھے اس لیے انہوں نے فلم ملہار، میں شمی کو اداکار ارجن کے ساتھ بطور ہیروئن کاسٹ کیا۔ یہ فلم بھی 1951 میں   ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں لتا اور مکیش کی آواز میں یہ گیت “بڑے ارمانوں سے رکھا ہے بلم تیری قسم، پیار کی دنیا میں یہ پہلا قدم” بہت مشہور ہوا۔ اس فلم میں ان کے کردار کا نام شمی تھا اور اس فلم کے بعد ہی ان کا نام شمی اور کچھ سال بعد کیریکٹر رولز ادا کرنے کیوجہ سے ان کا   شمی آنٹی پڑ گیا اور پھر باقاعدہ انہیں فلم نگری میں بالی ووڈ کی آنٹی کے طور پر پہچانا جانے لگا۔
دراصل شمی کا اصل نام نرگس رباڑی تھا۔ لیکن اس دور میں اداکارہ نرگس کی بڑی دھوم   تھی۔اس لیے تارا ہریش نے انہیں فلم ملہار میں ادا کیے ہوئے رول شمی کو ہی فلمی نام رکھنے کا کہا۔ اس وقت شمی کپور فلموں میں نہیں آئے تھے ورنہ تارا ہریش انہیں اس نام کے بجائے شاید کوئی اور نام تجویز کرتے۔1952 میں شمی کو بڑا چانس دلیپ کمار کے ساتھ فلم سنگدل میں سیکنڈ ہیروئن کے طور پر ملا۔ شمی اس فلم کی شوٹنگ کے دوران دلیپ کمار کے قریب رہنے کی کوشش کرنے لگی لیکن جب انہیں معلوم ہوا کہ مدھوبالا اور نرگس بھی دلیپ کمار کے قریب رہتی ہیں اس لیے شمی نے رومانوی طور پر دلیپ کمار سے دور رہنا مناسب سمجھا۔ دلیپ کمار کا فلم سیٹ پر بہت رعب ہوتا تھا جب وہ فلم سیٹ پر پہنچتے تو سب خاموش ہوجاتے تھے ایک دن شمی نے اس سے کہا کیا تم خدا ہو جو تمہارے آتے ہی سب خاموش ہوجاتے ہیں۔ یہ سن کر دلیپ کمار ہنسنے لگے اور مذاق میں شمی سے کہنے لگے اگر آئندہ میرے آتے ہی تم بولی تو میں تمہیں ماروں گا۔ اس کے بعد دونوں اچھے دوست بن گئے۔ شمی کو فلم سیٹ پر دلیپ کمار کے قریب دیکھ کر کافی لوگوں آکر اسے بتاتے کہ تم پر وہ کسی دن غصہ ہوں گے اس لیے کام کے علاوہ کوئی بات اس سے نہ کیا کرو۔ لیکن دلیپ کمار ان پر کبھی غصہ نہیں ہوئے۔ اور یہی وجہ ہے کہ اب تک شمی باقاعدہ دلیپ کمار کے گھر جاکر ان سے ملا کرتی تھیں۔
50 کی دہائی میں شمی نے جن فلموں میں کام کیا ان میں باغی، آگ کا دریا، مُنا، رخسانہ، پہلی جھلک، بندش، مسافرخانہ، الزام، پہیلی، ہلاکو، سن آف سندباد، راج تلک، خزانچی، گھر سنسار، آخری داؤ، بہن بھائی، آزاد، دل اپنا  اور پریت پرائے جیسی اہم فلمیں شامل ہیں۔
شمی نے تقریباً 200 فلموں میں کام کیا جن میں انہوں نے چھوٹے بڑے دونوں قسم کے رول نبھائے۔
شمی نے 80 کی دہائی میں ٹیلی ویژن پر بھی خوب کام کیا۔ انہوں نے دیکھ بھائی دیکھ، شریمان شریمتی، کبھی یہ کبھی وہ، فلمی چکر اور ایک گھر ہو اپنا جیسے مشہور ڈراموں میں کام کیا۔ بالی ووڈ میں ان کی بہترین دوست  آشا پاریکھ تھیں۔ جس کے ساتھ انہوں نے مشترکہ پروڈکشن میں ٹیلی وژن شو باجے پائل، اور کوڑا کاغذ، کنگن، اور کچھ پل ساتھ تمہارے، جیسے یادگار سیریلز بنائے۔ 70 کی دہائی میں شمی فلموں میں ماں کے کیریکٹر میں بھی آنے لگی۔ اور 90 کی دہائی کے بعد وہ دادی اور نانی کے کیریکٹر میں بھی آئی ۔ شمی کی شادی اپنے دوست جانی واکر کے دوست سلطان احمد سے 1970 میں ہوئی تھی۔ دونوں کی ملاقات جانی واکر کے دفتر میں ہوئی تھی ۔ پہلی ملاقات کے بعد دونوں نے ایک دوسرے میں دلچسپی لینا شروع کی اور کچھ عرصہ بعد دونوں نے شادی کرلی۔
شادی کے بعد سلطان احمد نے بطور فلم پروڈیوسر اپنا نام بنانا چاہا شمی نے شوہر کی مدد کرتے ہوئے 1973 میں ہیرا اور 1978 میں گنگا کی سوگندھ  جیسی فلمیں بنائیں۔ لیکن بدقسمتی سے دونوں میں سات سال بعد علیحدگی ہوگئی کیونکہ سلطان احمد شمی کو استعمال کرکے فلمی دنیا میں  آگے بڑھنا چاہتے تھے۔ شادی کے بعد وہ کسی دوسری عورت میں دلچسپی لینے لگے اور بعد میں انہوں نے اسی سے شادی بھی کرلی۔ شادی کو شمی اپنی زندگی کی سب سے بڑی غلطی قرار دیا کرتی تھی۔ اس دوران شمی فلم پروڈیوسر بھی بن گئی علیحدگی کے بعد شمی نے کلیان انند جی کے بیٹے رمیش شاہ کو لیکر فلم پگھلتا آسمان بنائی یہ فلم 1985 ریلیز ہوئی جس کی کاسٹ میں ششی کپور، راکھی گلزار، رتی اگنی ہوتری، شامل تھے اس فلم کی موسیقی کلیان انند جی نے دی تھی۔ شمی کی آخری فلم 2013 میں شیری فرہاد کی تو نکل پڑی تھی۔ جس میں شمی نے فرح خان اور بومن ایرانی کے ساتھ کام کیا تھا اس فلم کی کہانی ایک پارسی خاندان کے گرد گھومتی ہے۔
ہیروئن ماں دادی اور نانی کا بہترین کردار ادا کرنے والی شمی نے اپنے فلمی کیرئیر میں مزاحیہ اداکاری سے لے کر سنجیدہ کردار بھی خوب نبھائے۔ فلم انڈسٹری میں شمی کے اچھے دوستوں میں نرگس، مینا، وحیدہ رحمان، ششی کپور، آشا پاریکھ، سائرہ بانو، ہیلن، سادھنا، راجیش کھنہ، اور امیتابھ بچن شامل تھے۔
شمی نے چند سال پہلے اپنے ایک اخباری انٹریو میں کہا تھا “میں نے کبھی بھی اپنے کیریئر کی منصوبہ بندی نہیں کی تھی اور نہ ہی میں نے خود کو بہت مہنگی اداکاروں میں شمار کیا۔ اس لیے جو کوئی بھی پیشکش میرے لیے آئی تو میں نے اسے قبول کیا۔ یہی وجہ ہے کہ میں کیریکٹر ایکٹریس کے طور پر زیادہ مشہور ہوئی۔ اور مجھے اس بات کا کوئی افسوس بھی نہیں کیونکہ ایک کیریکٹر ایکٹریس کے طور پر میں مصروف اور خود کو مکمل محسوس کرتی رہی۔ جسکی وجہ سے میرا کیریئر کبھی سست نہیں ہوا ہے۔ اور نا میں نے یہ سوچا کہ میں کبھی کام نہیں کروں گی۔
سلطان احمد سے شمی کی کوئی اولاد نہیں تھی اس لیے   شمی نے سلطان احمد کے بڑے بھائی کے بیٹے اقبال رضوی کو گود لیا تھا۔اقبال رضوی شمی کا بہت خیال رکھا کرتے تھے۔ اقبال رضوی ٹی وی انڈسٹری کے معروف ڈائریکٹر مانے جاتے ہیں۔
شمی کا فلیٹ گلمہر سوسائٹی جوہو ممبئی میں تھا جہاں وہ زیادہ تر میوزک سنتی یا پھر کتابیں پڑھنے میں مشغول رہتی تھیں۔ شمی روحانیت کیطرف بہت زیادہ مائل ہوچکی تھی۔ چند سال پہلے ایک اخباری انٹریو میں وہ کہتی ہے۔
زندگی کے بارے میں میرا نظریہ بالکل صاف شفاف ہے میں نے اپنی زندگی جی ہے وہی کچھ جو کہ میں نے اس زندگی میں پانا تھا اور پا لیا ہے۔ اور یہ سب جو مجھے ملا ہے۔ یہ میں اپنے رب کی نعمت سمجھتی ہوں۔ اور میں بہت شکر گزار ہوں کہ لوگوں سے مجھے اتنا سارا پیار ملا۔ مجھے زندگی میں اقبال جیسا تابعدار بیٹا ملا۔ میں اپنی زندگی سے مطمئن ہوں مجھے اور کیا چاہیے۔
کچھ مہینوں سے انکی طبیعت ناساز رہتی تھی اس لیے خرابی صحت کی وجہ سے اقبال رضوی انہیں ملت نگر اندھیری ویسٹ میں واقع اپنے گھر لیکر آگئے تھے۔ لیکن طبیعت سنبھلنے پر وہ واپس اپنے جوہو فلیٹ چلی گئی تھی۔ جہاں ان کے   انتقال کے وقت کوئی موجود نہ   تھا۔
شمی انٹی کے انتقال پر اداکاروں سمیت مداح بھی ان کے بچھڑنے پر اظہار افسوس کر رہے ہیں۔ امیتابھ بچن نے ان کے ساتھ اپنی ایک یادگار تصویر ٹویٹر پر پوسٹ کرتے ہوئے دکھ سے لکھا۔ آہستہ آہستہ سب دور جارہے ہیں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply