میں اکیلا ہوں،میرا کوئی اپنا نہیں؟

ابراہیم جمال بٹ
میں اکیلا ہوں میرا کوئی دوست نہیں ، میری دوستی سے اگرچہ سب کو انکار تو نہیں لیکن سامنے آکر دوستی کا اعلان کر دے یہ کسی میں بھی ہمت نہیں ، کیوں کہ میں زمین کا ایک ایسا خطہ ہوں جس پر ایک ظالم وجابر قوم نے قبضہ کیے رکھا ہے۔ شاید اس ظالم کے ہاتھ اتنے پھیلے ہوئے ہیں کہ میری آہ وکراہ سن کر بھی میرے(مسلمان ممالک) ’’اَن سنی‘‘ کرجاتے ہیں ۔ رات دن میری زمین خون ناحق سے تر، کی جارہی ہے، میرے بچوں اور بہادر نوجوانوں کا حال یہ ہے کہ ان کا بچپن اور ان کی جوانی کا بھی کوئی خیال نہیں کیا جاتا بلکہ دن دیہاڑے کسی خوف کے بغیر انہیں مارا جا رہا ہے، اُن کی آنکھوں کی بصارت چھین کرزندگی بھرکے لیے معذوری کا تحفہ دیا جاتا ہے، گھروں میں آگ کے شعلے، بازاروں میں خوف کا ماحول قائم کیا جا رہا ہے۔
یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے؟ اس سوال کا جواب دینے کے بجائے مختلف بہانوں سے میری زبان پر تالے چڑھائے جارہے ہیں ۔ اگرچہ میری اس آہ وکراہ سے سب لوگ واقف ہیں لیکن کسی کو میری زندگی سے پیار نہیں ، سب انسانیت کی باتیں تو کرتے ہیں لیکن اصل انسانیت سے سب کوسوں دور ہیں ۔ کوئی اپنا ہو یا پرایا سب مجھ سے دور ہی رہ رہے ہیں ۔ کیوں کہ انہیں اپنے مفادات میرے ناحق بہتے خون سے زیادہ پسند ہیں ۔
انہیں اس بات کا خاص خیال ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے لیکن ہمارے ذاتی مفادات کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے۔ ان غیروں سے مجھے کوئی گلہ نہیں کیوں کہ وہ آخر غیر ہی تو ہیں ، لیکن اپنے (مسلمان ممالک) سے مجھے گلہ ہے، کیوں کہ وہ میرے اپنے ہیں ۔ انہیں حکم تو یہی دیا گیاتھا کہ ’’تم جہاں بھی رہو، اللہ سے ڈر تے رہو، اللہ کے ماننے والے اپنے بھائیوں کی مدد کرتے رہو، اُن کے غم میں برابر کے شریک ہو جایا کرو، انہیں اپنا بھائی سمجھو، ان پر کسی غیر کا ظلم تو دور کی بات انہیں ٹھیس پہنچانے کی کوئی سوچ بھی لے تو اپنے اس بھائی کے مددگار بنو۔ گلہ مجھے صرف اسی وجہ سے ہے کہ میں ان کا اپنا بھائی ہوں, لیکن وہ بھی اس قدر ’قوم پرستی ‘ اور ’مفاد پرستی‘ کا شکار ہو چکا ہے کہ اُنہیں کچھ بھی نظر نہیں آرہا ہے۔ انہیں محمد بن قاسم کا وہ کارنامہ بھی یاد نہیں کہ جب ہند سے ایک مظلوم بہن نے اپنی آہ کا اظہار کیا تھاتو اس آواز سے میرے اپنوں کا ہی دل دھڑک اُٹھا تھا، ان کے جذبۂ جہاد نے انہیں ایک لمحہ بھی بیٹھنے نہ دیا۔ بلکہ وہ اُٹھے اور اس قدر نکلے کہ تادم ایں ایسی تاریخ کا سبق دیکھا نہیں۔
اپنی اس مظلوم بہن کو اپنی عزت سمجھ کر اپنی جانوں کی پرواہ نہیں کی۔ آج میری زمین کو اس ’بھائی‘ کی تلاش ہے۔ میری رگ رگ سے آہ نکل رہی ہے، لیکن سننے کے بعد بھی کوئی سنتا نہیں ، آنکھوں سے دیکھنے کے باوجود کوئی یہ نہیں کہتا کہ یہ کیاہو رہا ہے؟ سب تماشائی بنے بیٹھے ہیں ، کسی کو میری پرواہ نہیں ، کوئی مجھ سے دلی وابستگی نہیں رکھتا، شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے مفادات میں میری ذات سے دلچسپی لینے میں نقصان ہے۔ میرے بچوں پر جب تلوار گرتی ہے تو آہ وفغاں اٹھتی ہے ، میرے جوانوں کی جب لاشیں گرتی ہیں تو آہ آہ کی صدائیں بلند ہوتی ہیں ، میری بہنوں اور بیٹیوں کی عزت جب تار تار کی جاتی ہے تو سسکیاں سنائی دیتی ہیں ۔
میری مائوں کے گود میں جب اپنے بچوں کی خون میں لت پت لاشیں تھما دی جاتی ہیں تو ان کی آنکھوں سے آنسوئوں کا سمندر بہہ جاتا ہے اور ان کی آہ سے ہوا میں خاموشیاں چھا تی ہیں ۔ لیکن میرے اپنوں (مسلم ممالک سے وابستہ حکمرانوں ) کے دلوں پر ایسے تالے چڑھے ہوئے ہیں ، اُن کی آنکھوں پہ ایسے پردے لٹکے ہوئے ہیں ، ان کے ہونٹ ایسے سلے ہوئے ہیں ، ان کے قدم ایسے جکڑے ہوئے ہیں ، ان کے ہاتھ ایسے بندھے ہوئے ہیں کہ کچھ محسوس ہی نہیں کر پاتے ۔ جب کبھی آنکھوں پر پٹی کھل بھی جاتی ہے تو اتنا کہہ کر مجھے خاموش کر دیتے ہیں کہ ’’ہم مجبور ہیں ‘‘۔ خدا را یہ بتائو کہ کیا مجبوری ہے؟ اگر کسی کا ڈر ہے تو خدا سے ڈرنے کا کیا مطلب؟
اگر کچھ ڈر نہیں تو آخر میری آواز پر کیوں لبیک نہیں ہوتا؟ جسے یہ یقین محکم ہو کہ ہمارا کوئی نہیں لیکن خدائے لم یزل ہے، جسے یہ معلوم ہو کہ سب طاقتوں پر حاوی ہے وہ طاقت جو ہماری محافظ ہے، اسے کیوں یہ پریشانی لاحق کہ اگر میں سامنے آیا تو میرا اپنا کیا ہو گا۔ خدایا ہم کو اپنی اصل حیثیت سے فیض یاب کر، ہمیں اس ’’ملت‘‘ کاجذبہ عطا کر جس سے میں جڑا ہوں ۔ شاید ہم بھول چکے ہیں کہ ہماری اصل کیا ہے، ہم اس دنیا میں کیوں آئے ہیں ،ہمارا جینا اور مرنا کیا مقصد رکھتا ہے، خدایا ہمیں اپنی اصل پر کھڑا کر دے، ہمارے مردہ دلوں میں جان بھر دے۔ تب ہی یہ ممکن ہے کہ میرے مظلوم بھائیوں کی کوئی داد رسی کرنے والا اٹھے گا۔ خدایا ہم پہ رحم کر دے۔

Facebook Comments

ابراہیم جمال بٹ
مقبوضہ جموں وکشمیر سے ایک درد بھری پکار۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply