چرچ میں بنی ایک مسجد ۔ احمد رضوان

 مسجد السلام کینیڈا امریکہ کی طرح امیگرینٹس یا مہاجرین کا ملک ہے۔ ایک ایسا ملک، جس میں مقیم کم وبیش سارے لوگ مہاجر ہیں ماسوائے کم تعداد میں موجود مقامی انڈینز کے۔ کچھ لوگ تو کئی نسلوں کے مہاجر ہیں، کچھ چندسالوں سے اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ ستر کی دہائی میں جب کینیڈین امیگریشن کے در وا ہونا شروع ہوئے تو پاکستانیوں کی قابل ذکر تعداد نے کینیڈا کا رخ۔۔۔۔۔۔۔ نہیں کیا کہ اکثر کے خوابوں کی سرزمین اور منزل ریاست ہائے متحدہ امریکا ہوتی تھی ۔جو قسمت اور شامت کا مارا کبھی بھولے سے ائر پورٹ پر انٹری ویزا لے کر آجاتا تو بسلسلہ ملازمت کسی بھی جگہ بس ایکبار جانا ہوتا تھا اور جاب کھڑے کھڑے اس کی جھولی میں ہوتی تھی۔

انہی دنوں میں آئے ہوئے تبلیغی جماعت سے منسلک جاوید بھائی، جنہیں پانچ سال کے بچے سے لے کر پچاسی سال تک کے بزرگ اسی نام سے پکارتے ہیں، بتاتے ہیں کہ تب نہ کوئی دیسی اسٹور ہوتا تھا نہ حلال فوڈ کی یوں دستیابی۔ حلال فوڈ کے طور پر انڈے یا مچھلی ہی کھائی جا سکتی تھی، سبزی کے علاوہ۔ ٹورانٹو میں شائد ایک آدھ مسجد تھی کسی بہت دور کی نکڑمیں اور جہاں جانا مکے جانا جیسا لگتا تھا۔ اور تو اور، جمعہ کی نماز چھٹی نہ ملنے کی وجہ سے اتوار کی چھٹی والے دن کسی نہ کسی دوست کے گھر پڑھی جاتی تھی۔ آج جب میں ماضی کے مقابلے میں موجود سہولیات پر نظر ڈالتا ہوں تو الحمدللہ دل طمانیت سے بھر جاتا ہے کہ اللہ جس جس طرح اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے انسان اس کا فہم وادراک بھی نہیں کرسکتا بفضل رب جلیل ایک سال پورا ہوگیا مسجد السلام کو مسلمانوں کے لیے نماز پنجگانہ ادا کرنے کے لئےاپنے دروازے کھولے ہوئے ۔پچھلے رمضان کی آمد کے ساتھ ہی یہ جاں فزا خبر ملی کہ جلد ہی گھر کے قریب ایک سابقہ چرچ کومسجد میں تبدیل کیے جانے کی اجازت مل چکی۔ سو اب مسجد السلام، اہل ایمان کو میسر ہوگی، اپنی جبین نیاز میں تڑپتے سجدوں کو بارگاہ الہ میں پیش کرنے کے لئے۔ مگر ٹھرئیے صاحب،وقت کے پہیئے کو تھوڑا پیچھے گھماتے ہیں۔

یہی کوئی سن 1904 کے آس پاس کہ جب “ماؤ نٹ پلیزنٹ” نامی ایک چھوٹے سے گاؤں کے پاس ایک مقامی آبادی کی ضرورت کے پیش نظر ایک چرچ کا افتتاح ہوا۔ ریلوے سٹیشن کے پاس موجود چرچ کی یہ عمارت ،مال گاڑیوں کے دھواں اڑاتے انجنوں اور پٹڑی پر پہیوں کے گھرر گھرر کی آواز پیدا کرتے ڈبوں اور سیٹی بجاتی مسافر ٹرینوں کو دن رات گذرتے سو برس سے زائد ہوا دیکھتی چلی آرہی ہے۔ ایک صدی سے زیادہ عرصہ چرچ کے بجتے گھنٹے اور ہالےلویہ سے گونجتی یہ عمارت، اتوار کی عبادت کے ساتھ ساتھ مرگ،شادی ،بپتسمہ ، کرسمس کی شام کی خاص عبادت اور کرسمس کے دن منقبت پڑھنے والوں کو اپنی خدمات پیش کرتی رہی۔ چرچ کی عمارت گوتھک طرز تعمیر کا ایک عمدہ نمونہ ہے جس میں لگی محرابی شکل کی منقش رنگین شیشوں والی دیو قامت کھڑکیاں اپنی خوبصورتی سے مبہوت کر دیتی ہیں ۔مقامی ورثہ میں شامل یہ عمارت اپنی پرانی طرز تعمیر کی وجہ سے اب قانوناً ہمیشہ کے لئے اپنی اصل بیرونی شکل میں ہی برقرار رکھی جائے گی۔ جتنا بھی مرمت کا کام نکلے گا کبھی، تو اسی لے آؤٹ کو دوبارہ تعمیر کیا جائے گا۔ یعنی وقت اس عمارت پہ رک گیا ہو جیسے، کم از کم بیرونی ڈھانچے کی حد تک۔

نائن الیون کے بعد جب امیگرینٹس کے سیلابی ریلے نے کینیڈا کا رخ کیا اور نئےآنے والوں نے موجودہ ٓآبادی کے قرب و جوار میں ٓآباد ہونا شروع کیا تو کھیت ،کھلیان، باغات آہستہ آہستہ ختم ہونا شروع ہوگئے اور انکی جگہ مکانو ں اور سڑکوں کا جنگل اگ آیا۔نئے گھر،سکول،کمیونٹی سنٹر،لائبریریز،ریکری ایشن سنٹرز،شاپنگ مالز نجانے کیسے کھمبیوں کی طرح اگ آئے ۔ جب معاشی اور رہائشی ضروریات پوری ہونا شروع ہوئیں تو وہیں اخلاقی و مذہبی تربیت کے مراکز کی کمی شدت سے محسوس ہونے لگی۔ براپمٹن، جسے پھولوں کا شہر کہا جاتا ہے، ایک ملٹی کلچرل شہر ہونے کے ناطے کم و بیش ہر رنگ،نسل کے لوگوں پر مشتمل ایک رنگ برنگ گلدستے کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ جس شہر کی ستاون فیصد آبادی رنگ دار اقلیت ہو (جس میں انڈینز، ویسٹ انڈین ،چینی،بلیک اور براؤن کمیونٹی شامل ہے) وہاں آپکو ہر طرح کے لوگوں اور ان کے رہن سہن کے ساتھ گذارہ کرنا پڑتا ہے اور یہی آپکے اندر مساوات اور برداشت کا بیج بو کر اسے پروان چڑھا کر شجر سایہ دار بنا دیتا ہے۔

اس شہر کی اکثریت قدامت پرست آبادی پر مشتمل ہے ۔ پچھلے سال کیے گئے ایک سروے کے مطابق ستانوے فیصد حصہ لینے والوں نے اپنے آپ کو مذہب کے ساتھ کسی نہ کسی حوالے سے جڑا ہونے کا اعتراف کیا جو سروے کرنے والوں اور عام لوگوں کے لیے ایک خوشگوار حیرت کا باعث تھا۔ ہاں ہمسایہ ملک امریکا میں صورتحال کافی مختلف ہے جہاں بہت سارے چرچ یا تو خالی پڑے رہتے ہیں یا بہت معمولی تعداد میں لوگ ادھر کا رخ کرتے ہیں ایک دلچسپ تجویز امریکا میں یہ دی گئی کہ کم آباد چرچوں میں میوزیکل پروگرام کرائے جائیں تاکہ لوگ دوبارہ ادھر کا رخ کریں۔ “ماؤنٹ پلیزنٹ” چرچ کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ انھیں لوگوں کی ضروریات پورا کرنے کے لئے ایک نیااور بڑا چرچ بنانا پڑے گا۔ سوال اٹھا پھر اس پرانی عمارت کو متروک تو نہیں کیا جا سکتا تو اس کا مصرف کیا ہوگا؟اس مرحلے پر سٹی انتظامیہ آگے آئی اور “زوننگ لاز” کے تحت اسے کسی اور مذہبی گروپ کو الاٹ کرنے کی تجویز دی گئی۔

اوپن نیلامی کے ذریعہ جو بھی دلچسپی ظاہر کرے اسے منتقل کر دی جائے۔اپنے محل وقوع اور نئی آباد ہوتی بستیوں کے تناظر میں تقریباََ تمام قابل ذکر قومییتوں اور مذاہب میں اسکی اہمیت اور مانگ تھی اور کوئی بھی اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتا تھا ۔مسلمانوں کی گرچہ ایک قابل ذکر تعداد اس کے ملحقہ علاقہ میں آباد ہے مگر اکثریت میں نہیں ہے اور معاشی طور پر اتنی مستحکم بھی نہیں۔ مگر قریب کوئی دوسری مسجد نہ ہونے کی وجہ سے سب کی دلی خواہش تھی کہ اے کاش خانہ ء خدا اگر گھر کے قریب بن جائے تو کتنی سہولت ہو جائے۔یہاں داد نہ دینا حق تلفی ہوگی ان صاحبِ حیثیت اور دردمند مسلمانوں کی جو جڑواں شہر مسی ساگا کے رہائشی تھے،آگے آئے اور دامے درمے قدمے سخنے بڑھ چڑھ کر اس کار خیر میں اپنا حصہ ڈالا۔ نیت فقط یہ کہ خدا کا گھر ہے اور بھلے ہم یہاں نماز پڑھنے نہ آسکیں مگر مقامی بسنے والے مسلمانوں کو سہولت میسر آئے گی۔ خلوص ِ نیت اور ارادے پختہ ہوں تو تائید ایزدی خود بخود شامل ہو جاتی ہےاور برکت پڑ جاتی ہے ۔سب سے ذیادہ بولی دے کر اس چرچ کو خرید لیا گیا ۔الحمد للہ آج نہ صرف با جماعت پنجگانہ نماز ادا کی جاتی ہے بلکہ منظور شدہ اسلامی سکول میں ۲۰۰ کے قریب بچے،بچیاں ناظرہ، تجوید،حفظ اور مرتب اسلامی نصاب میں حصول علم میں مشغول ہیں۔ “مسجد السلام” مسلمانوں کے عزم بالجزم اور یگانگت کی ایک کامیاب مثال ہے جس میں ساری دنیا سے آئے ہوئے مسلمان بلا امتیازِ رنگ ونسل اورفرقہ کے ایک ساتھ خالق دوجہاں کے سامنے سربجود ہوتے ہیں اور دل سے دعا نکلتی ہے انصاف پسند اور جمہوری سوچ کے حامل معاشرے کو جس میں برداشت،تحمل اور مذہبی رواداری آج کے دور کی تمام قباحتوں اور مغالطوں کے نہ صرف قائم و دائم ہے بلکہ پنپ رہی ہے۔ مسجد السلام کو ایک سال پوری ہونے پر دلی مبارک باد۔ اللہ اپنے اس گھر کو یونہی شاد و آباد رکھے اور تاابد آنے والی نسلیں خدا کی عبودیت بیان کرتی رہیں جس طرح آج میں ،میرے بچے اور میرے والدین اکٹھے یہاں ادا کر رہے ہیں۔ بس اتنا یاد رکھیے، کہ یہ کینیڈا جیسے جمہوری اور کھلے ذہن کے معاشرے میں ہی ممکن ہوا کہ اب ہمیں جمعہ کی نماز اتوار کو نہیں پڑھنا پڑتی۔

Advertisements
julia rana solicitors

(احمد رضوان کینیڈا میں مقیم صاحب دل ہیں۔ لائل پور سے خوش دلی اور شاعری کے بیج لے کر گئے تھے اور اب تک انکی آبیاری کر رہے ہیں۔)

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”چرچ میں بنی ایک مسجد ۔ احمد رضوان

Leave a Reply