عورت کو بس عورت سمجھ لو۔۔سید شاہد عباس کاظمی

صبح سے نعرے سن سن کے کان پک گئے، عورت کو اس کے حقوق دو، عورت سے امتیازی سلوک بند کرو، عورت کو معاشرے میں اس کا جائز مقام دو، عورت کو کم تر  سمجھنا بند کرو۔ ٹی وی لگایا، ٹی وی پہ تقاریر کی بھرمار، چینلز کے لوگو بھی تبدیل نظر آ رہے تھے، کہیں واک ہو رہی ہے، کہیں سیمینار، کہیں پہ احتجاج کا سا منظر ہے ، کسی جگہ عورتوں کی کوئی تنظیم میدان عمل میں اپنے بینرز اور پلے کارڈرز کے ساتھ موجود ہے، اخبارات پہ نگاہ دوڑائی تو خواتین تنظیموں کے اتنے نام نظروں سے گزرے کہ عقل حیران رہ گئی کہ ناتواں عورت کو مضبوط کرنے کے لیے اتنے لوگ میدان کارزار میں مصروفِ عمل ہیں۔ کہیں کالے چشمے لگے احتجاجی، کہیں چھتری تانے دھوپ سے بچتے مظاہرین ۔ سب کچھ تھا عورت کہیں نہیں تھی۔

حیران ہو گئے؟ کہ ہر مظاہرے میں تو عورت پہ بات ہو رہی ہے، خواتین بھی موجود ہیں، ہر احتجاج میں بھی خواتین شامل ہیں، ہر طرف رنگین پلو بھی نظر آ رہے ہیں ، ہر ٹیلی ویژن چینل پہ نشریات میں خواتین ہی خواتین نظر آ رہی ہیں تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنے اہم دن اتنی زیادہ تقریبات میں عورت کا وجود نظر نہیں آ رہا۔ لیکن واقعی اس پورے قصے میں عورت کہیں نہیں ہے۔ جو عورت سیمینار، ریلی ، جلسے ، جلوس، احتجاج، ٹی وی، اخبار تک رسائی رکھتی ہے اس عورت کو ہی ہم ہر جگہ دیکھتے ہیں، وہی اپنے حقوق کے نعرے بھی لگاتی نظر آتی ہے وہی اپنے حقوق حاصل بھی کرتی نظر آتی ہے،۔۔

چلیے بحث نازک ہو جائے گی ، اس دن کی مصروفیات میں شامل مرد حضرات کو ہی لیجیے وہ ان نعروں کو اپنی عملی زندگیوں میں نافذ کرنا چاہیے گے؟ ان میں سے کتنے ہی مرد حضرات ہوں گے جنہوں نے اپنی بیٹیوں کی شادیاں ان کی مرضی  جابے بغیر  کر دی ہوں گی، کیا ان کا ضمیر تک ان سے سوال کرنے کی جرات کرے گا کہ بھئی عورتوں کے حقوق پہ تقاریر بعد میں کرنا پہلے اپنے گھر کی تو کچھ سناؤ، اور کیا ہم میں سے کتنے ہی نہیں ہوں  گے جو لفظوں سے کھیلنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ہوں گے، جب مجمعے کے سامنے عورتوں کے مقام کے بارے میں نثر ، نظم، غزل اپنی رندھی آواز میں پڑھ کے سامعین پہ سحر طاری کر دیتے ہوں گے تو ان سے کیا ان کا ضمیر بھی سوال کی جرات کر پائے گا کہ آپ جو اپنی آواز میں آنسوؤں کو شامل کر کے اپنے لفظوں کو پُراثر بنا رہے ہیں کیا آپ نے اپنے گھر میں تعلیم کی خواہش مند مستورات کو گھٹ گھٹ کر جینے پہ مجبور تو نہیں کیا ہوا۔ اور تعلیم تو دور کی بات ان کی اپنی مرضی کا پہننے اوڑھنے کی بھی اجازت سلب نہیں کی ہوئی۔

ہم تو کسی بھی عورتوں کے حقوق کی تنظیم سے اتنا بھی شاید پوچھنے کی جرات نہیں رکھتے۔ کہ جناب آپ جو بڑے بڑے فائیور سٹار ہوٹلز کے ہال کرائے پہ لے کے لاکھوں روپے کرایہ ادا کر کے عورتوں کے حق میں سیمینارز منعقد کروا رہے ہیں ان میں سے کتنے ہیں جو اینٹوں کے بھٹے پہ گئے اور وہاں عرصے سے قرض کی دلدل میں پھنسی خواتین اور ان کے شیر خوار بچوں کی راہ نجات کا کوئی سامان کیا ہے۔ ہم تو یہ دن منانے میں اتنے گم ہیں کہ ہم پوچھنا تک گوارا نہیں کرتے کہ کیا ہمارے گھروں میں کام کرنے والی بچیاں، ماسیاں عورتیں نہیں ہیں؟ کیا ان کے حقوق نہیں ہیں۔ اور کیا ایسا بھی سوچنا گوارا کیا گیا کہ ان کے حقوق کی پاسدار ی بھی ایسے ہو کہ ان پہ ہونے والے ظلم کا مداوا سوشل میڈیا یا الیکٹرانک میڈیا پہ تشہیر سے منسوب نہ ہو۔

عورت کا دن نہ منائیے۔ عورت کو اس کا اصل مقام دیجیے۔ جہاں مرد اپنے باہمی جھگڑوں کا آغاز ہی ما ں بہن کی گالی سے کریں، وہاں کیا ہم اتنا شعور رکھتے ہیں کہ ان سیمینارز سے ہم عورت کو اس کا جائز مقام دے پائیں گے۔ ہم ایک ایسے معاشرے میں سانس لے رہے ہیں  جہاں مجبوری کے ہاتھوں  باہر  نکلنے والی عورت کو نظروں کے ایسے تیر سہنے پڑتے ہیں کہ وہ اپنے ہونے پہ  شرمندگی محسوس کرنے لگتی  ہے ،تو ہم کیا توقع رکھ بیٹھے ہیں کہ چند کلو میٹر اپنی گاڑیوں میں اے سی آن کر کے واک کرنے سے ہم عورتوں کو ان کے حقوق دے چکے ہیں۔ ہم ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں پیٹ کی آگ بجھانے کو محنت مزدوری کرنے والی عورت  ہوس اور زیادتی کا شکار ہوجاتی ہے، معاشرے کا کار آمد شہری بننا چاہے تو طنز ملتا ہے، اپنے خاندان کا سہارا بننا چاہے تو طعنوں سے استقبال ہوتا ہے، اپنے پاؤں پہ کھڑی ہونا چاہے تو اسے بے غیرتی کے طعنے دیئے جاتے ہیں، تو کیا ہم صرف سیمینارز کر کے عورت کو اس کے حقوق ادا کر رہے ہیں ؟

Advertisements
julia rana solicitors london

عورت کے لیے بے شک دن نہ منائیے، ہو سکے تو کوئی جلسہ نہ کیجیے، کسی قسم کی کوئی واک بھی نہ کریں، نہ ہی نعرے لگائیں، تقریروں کی تو چنداں ضرورت نہیں ہے، نہ ہی بل پاس کروائیے، بس عورت کو عورت سمجھ لیں، جب ہم نے عورت کو عورت سمجھ لیا ، وہ عورت جس کے بطن سے ہم ہیں، جس کے بطن سے ہماری نسل چلے گی، جو بہن بن کے ہمارا مان ، بیٹی بن کے ہمارا فخر، بیوی بن کے ہماری شریک حیات ہے اس عورت کو وہ عزت دیں جس کے وہ قابل ہے تو ہمیں نہ کوئی تنظیم بنانا پڑے گی نہ کوئی ادارہ۔ بلکہ عورت کی تکریم ہمارا دل کرے گا عورت کو مقام ہمارا دماغ دلوائے گا ۔

Facebook Comments

سید شاہد عباس
مکتب صحافت کی پہلی سیڑھی پہ قدم رکھنے کی کوشش ہے۔ "الف" کو پڑھ پایا نہیں" ی" پہ نظر ہے۔ www.facebook.com/100lafz www.twitter.com/ssakmashadi

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply