اسلام میں معاملات کی اہمیت

دین اسلام، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکامات پر مبنی وہ نظام حیات ہے، جو ہر اعتبار سے کامل ومکمل ہے، اور انسانی زندگی کے ہر شعبے کی ضروریات کے متعلق بہترین راہنمائی کرتا ہے، اس میں انفرادی زندگی سے لےکر اجتماعی،بین الاقوامی زندگی کے ہر گوشے کے بارے میں راہنمائی موجود ہے، بلکہ اسلامی قوانین انسانی زندگی کے لیے پیدائش سے لے کر موت تک پورے معاشرے کے وجود کا احاطہ کیے ہوئے ہیں۔عمومی طور پر اسلام کو پانچ اہم شعبوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
عقائد، عبادات، معاملات، معاشرت اور اخلاقیات۔آج اس مضمون میں ہم صرف معاملات سے بحث کریں گے۔
باہمی لین دین، خرید وفروخت قرض وغیرہ کو “معاملات” کہتے ہیں، انسانی زندگی میں باہمی ربط وتعلق کی وجہ سے ایک دوسرے کے ساتھ معاملات ناگزیز ہیں، بلکہ زندگی کا دارومدار ہی معاملات پر ہے.اسلام نے دیگر شعبہ ہائے زندگی کے ساتھ معاملات میں بھی انسانوں کی راہنمائی کی ہے، تاکہ لین دین کرتے وقت انسان احکام شرح اور وحی الہٰی کی روشنی میں اپنے معاملات کو جائز اور پاک صاف رکھ سکیں، ایک دوسرے کے ساتھ دھوکہ دہی، جھوٹ و فریب وغیرہ جیسی چیزوں سے پرہیز کر سکیں۔
آئیے!سب سے پہلے نصوص شرعیہ کی روشنی معاملات کی اہمیت دیکھتے ہیں۔
1:حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے بازار میں بیچنے کے لیے کوئی سامان رکھا اور اس کے بیچنے کے سلسلے میں قسم کھائی تو یہ آیت نازل ہوئی۔ ترجمہ: جو لوگ اللہ کی قرار پر اور اپنی قسموں پر تھوڑا سا مول لے لیتے ہیں ان کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔ قیامت کے دن ان سے نہ اللہ بات کرے گا اور نہ ان کی طرف نگاہ کرے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔آل عمران
(تفسیر مظھری 2/75)
2:ایک اور حدیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ،جس آدمی نے جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کاحق دبایا تو اس نے اپنے لیے آگ کو واجب کیا، راوی نے عرض کیا یا رسول اللہ اگر وہ کوئی معمولی چیز ہو تب بھی؟ آپ علیہ السلام نے جواب فرمایا “اگر چہ وہ درخت کی سبز ٹہنی ہی کیوں نہ ہو” (مسلم بحوالہ معارف القران 2/94)
3: رسول اللہﷺ ایک شخص کے پاس سے گزرے جو کوئی غذائی جنس بیچ رہا تھا۔ آپؐ نے دریافت کیا یہ کیا ہے؟ آپؐ نے اس کے دام پوچھے اس نے بتا دیے۔ آپؐ نے اس کے اندر ہاتھ ڈالا تو اسے پانی سے نم پایا۔ آپؐ نے دریافت فرمایا،یہ کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ بارش کا پانی پڑ گیا ہے۔ آپؐ نے فرمایا تو اسے اوپر کیوں نہیں رکھا کہ لوگ دیکھ سکتے؟ پھر آپؐ نے فرمایا جس نے فریب کاری کی وہ ہم میں سے نہیں۔ (ترمذی 1/245)
4:حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں میں دو شریکوں کے درمیان تیسرا رہتا ہوں، جب تک ان دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے سے خیانت نہ کرے، اگر کوئی ایک بھی خیانت کرتا ہے تو میں نکل جاتا ہوں.
(ابوداؤد 2/125)
5:حضرت حکیم بن حزامؒ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’خریدو فروخت کرنے والے جب تک الگ نہ ہوجائیں انہیں (سودا منسوخ کرنے کا) اختیار باقی رہتا ہے۔ اگر دونوں سچائی سے کام لیں گے تو ان کے سودے میں برکت ہوگی۔ اور اگر جھوٹ بولیں گے اور چھپائیں گے تو اس کی برکت مٹا دی جائے گی۔(بخاری4/561 الطاف سنز )
6:حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےپاس بیٹھے تھے کہ ایک جنازہ لایا گیا، آپ سے نماز پڑھنے کی درخواست کی گئی، آپ نے پوچھا اس کے ذمہ قرض ادا کرنا ہے ؟ صحابہ نے عرض کیا نہیں .پھر پوچھا کیا اس نے کچھ ترکہ چھوڑا ہے، جواب دیا گیا نہیں، آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی، پھر ایک اور جنازہ لایا گیا صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ! اس کی نماز جنازہ پڑھائیں، آپ نے پوچھا کیا اس کے ذمہ قرض ادا کرنا ہے؟ عرض کیا جی ہاں! پھر پوچھا کیا اس نے ترکہ میں کوئی چیز چھوڑی ہے؟ عرض کیا گیا تین دینار چھوڑے ہیں، آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھا لی، ایک اور جنازہ لایا گیا صحابہ نے عرض کیا یارسول اللہ اس کی نماز جنازہ پڑھا لیں، آپ نے دریافت فرمایا کیا اس کے ذمہ قرض ادا کرنا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا جی ہاں! آپ نے پھر سوال کیا کہ کیا اس نے ترکہ میں کوئی چیز چھوڑی ہے؟ عرض کیا گیا جی نہیں! حضور نے فرمایا اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو، حضرت ابوقتادہ رضہ نے عرض کیا یارسول اللہ اس کا قرض میرے ذمہ ہے، آپ جنازہ پڑھا لیں، پھر آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی.
(بخاری 1/306)
7:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دھوکے کی بیع سے منع فرمایا ہے.
(ترمذی 1/233)
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ارشاد فرمایا سچا اور امین تاجر قیامت کے روز انبیاء، صدیقین اور شھداء کے ساتھ ہوگا
(مرقاہ المفاتیح 6/53)
ہم پر ان نصوص شرعیہ کی روشنی میں معاملات کےجائزہ سے تو یہ بات بخوبی واضح ہوجائے گی کہ اسلام کے دیگر احکام کی طرح معاملات میں بھی اسلامی قوانین میں کس طرح کوتاہی اور سستی برتتے ہیں، جھوٹی قسموں کے ذریعے چیزوں کی فروخت کرنے کے بارے میں کس قدر سخت وعیدات آئی ہیں، جہنم کی آگ کو واجب قرار دیا گیا ہے، لیکن ہمارے تمام ترمعاملات جھوٹی قسموں پر موقوف ہیں، جھوٹی قسمیں کھا کر گاہگ کو کس طرح پھانسے کے جتن کرتے ہیں.دوسری حدیث میں بیان کیا گیا کہ جس نے دھوکہ دہی اور فریب سے معاملہ کیا وہ ہم میں سے نہیں ہے، لیکن آج دھوکہ دینا، دو نمبر چیزکو اعلیٰ کوالٹی بتا کر فروخت کرنا، ناپ تول میں کمی کرنا، اورملاوٹ کرنا ایک بازاری اور کاروباری اصول بن چکا ہے ۔
معاملات میں خیانت کرنا کس قدر عام اور معاشرتی رواج بن چکا ہے ، جس کی بدولت ہماری چیزوں سے برکت اٹھا لی گئی ہے،۔سچے اور امین تاجر کے لیے کس قدر خوش بختی ہے کہ روز قیامت وہ انبیاء، شھداء اور صدیقین کے ساتھ ہوگا، لیکن ہماری تجارتی زبان ہی جھوٹی ہوگئی ہے، مارکیٹ میں کاروبار کرتے وقت جب تک ہم جھوٹ اور خیانت نہ کریں ہمیں یہ خیال ہوتا ہے شاید اس کے بغیر ہم منافع حاصل ہی نہ کر پائیں گے۔
قرض کے لین دین میں آج کل کتنی لاپرواہی اور کوتاہی ہوتی ہے، قرض نہ دینے اور غصب کر جانے کے لیے کس قدر کوششیں کی جاتی ہیں لیکن جس شخص کے ذمہ قرض تھا حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔اور یاد رہے کہ قرض حقوق العباد میں سے ہے وہ کسی صورت میں معاف نہیں ہوسکتا.آئیے! آج سے اپنے معاملات کو درست کریں، جھوٹ، دھوکہ، فریب، خیانت، ملاوٹ اور ناپ تول میں کمی کرنا ترک کریں.
پھر دیکھیں تجارت میں کس قدر برکت ہوتی ہے.
سچائی اورایمانداری سے تجارت کر کے ہم دین ودنیا میں کس قدر ترقی حاصل کرسکتے ہیں.
اللہ عمل کی توفیق نصیب کرے.

Facebook Comments

نعیم الدین
لکھنے پڑہنے والا ایک ادنی طالب علم

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply