شیخ محسن علی نجفی کون؟

شیخ محسن علی نجفی کون؟
تحریر: عامر حسین شہانی
پاکستان کے شمالی علاقہ جات اسکردو بلتستان کی تحصیل کھرمنگ کے گاؤں منٹھوکھا میں 1938 کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گھر میں اپنے والد صاحب سے حاصل کی۔بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لیے آپ 1966 ء میں حوزہ علمیہ نجف عراق تشریف لے گئے جہاں اس دور کے ممتاز اساتذہ کرام سے جدید علوم سے بہرہ مند ہوئے۔ آپ حوزہ علمیہ نجف اشرف میں حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سید ابو القاسم الخوئی اور شہید صدر جیسی شخصیات کے شاگردوں میں شمار ہوتےتھے ۔ چنانچہ وطن واپسی کے وقت آیۃ اللہ العظمیٰ قدس سرہ نے انہیں اپنا وکیل معین کر دیا۔انہوں نے نجف اشرف میں اپنی طلبگی کے زمانہ میں ہی عربی زبان میں ایک کتاب ” النہج السوی فی معنی المولی والولی ” لکھی جس سے ان کی علمی صلاحیت اور عربی زبان پر دسترس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ اس کتاب میں مولیٰ اور ولی کے معنی و مفہوم کو کتاب و سنت اور لغت کے اعتبار سے مکمل واضح کیا گیا ہے۔ شیخ محسن نجفی 1974ء میں وطن عزیز پاکستان واپس تشریف لائے اور انہوں نے اپنی قوم اور ملت کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کا عزم کیا۔ انتہائی مشکلات کے باوجود انہوں نے اسلام آباد سے اپنے اس سفر کا آغاز کیا اور بہت ہی جلد پاکستان کے دور دراز علاقوں میں تعلیم اور فلاحی امور کےجال بچھادئے۔ انہوں نے محلات اور بڑے مکانوں میں رہنے کی بجائےاسلام آباد میں واقع اپنی درسگاہ جامعہ اہلبیت کے ایک گوشے میں نھایت سادہ طرز زندگی میں رہنا پسند کیا۔

جہاں ان کا علمی اور فلاحی امور میں نام ہے وہیں آپ اتحاد بین المسلمین کے سب سے بڑے داعی بھی ہیں۔ انہوں نے اپنےتمام شاگرد وں کو اتحاد اور اتفاق کی تعلیم دی۔وہ ہر سال “اتحاد امت” کے نام سے کئی کانفرینسز انعقاد کرتے ہیں جس میں تمام مسالک دینیہ (اہل سنت، اہل حدیث، اہل تشیع) کے جید علمائے کرام اتحاد امت کے موضوع پراپنے پیغامات دیتے ہیں۔ انہوں نے اپنے فلاحی امور میں خصوصاً 2005 کے زلزلہ زدگان اور 2010 کے سیلاب زدہ گان کے لئے 11000 مکانات بلا امتیاز مذہب و مسلک تعمیر کئے۔ انہوں نے کبھی بھی مسلک کی بنا پر تفریق نہیں کی۔ انہوں نے ہمیشہ احترام انسانیت کو مد نظر رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں، تقریروں میں کبھی بھی کسی قسم کی نفرت آمیز مواد کی بو بھی نہیں آتی۔ آئیے ہم ان کے فلاحی، رفاہی ، تعلیمی اور دیگر خدمات کا مختصر جائزہ لیتے ہیں۔

گزشتہ 30 سال کے دوران انہوں نے اپنی علمی خدمات کے ساتھ ساتھ رفاہی اور معاشرتی میدانوں میں بھی ملت پاکستان کے لئے متعدد بنیادی اور گرانقدر خدمات انجام دی ہیں جن کا خلاصہ کچھ یوں پہے۔
1. علمی خدمات
الف۔ ترجمہ قرآن کریم جو بلاغ القرآن کے نام سے شائع ہوا، اور علمی حلقوں میں بہت مقبول ہے۔
ب۔ تفسیر الکوثر قرآن کریم جو دس جلدوں پر مشتمل ہے۔
ج۔ مختلف موضوعات پر عربی اور اردو زبان میں دسیوں مستقل تالیفات، تصانیف نیز متعدد کتابوں کے ترجمے۔
2. تعلیمی خدمات
الف۔ اسوہ ایجوکیشن سسٹم پاکستان
 12 انٹر میڈیٹ کالجز
 4 ٹیکنیکل کالجز
 2 پیرا میڈیکل کالجز
 1 IGSC کالج
 22 سیکنڈری سکولز
 28 مڈل سکولز
 8 پرائمری سکولز
 2 انٹرمیڈیٹ گرلز کالجز
 ان اداروں میں زیر تعلیم طلباء و طالبات کی تعداد 20781
 ان اداروں میں موجود اساتذہ کی تعداد 1310
 ان اداروں میں موجودہ سٹاف کی تعداد 785

سکالر شپ پروگرام : ذہین اور نمایاں کارکردگی دکھانے والے سینکڑوں نادار اورمستحق طلباء و طالبات کو میڈیکل، انجینئرنگ اور دیگر شعبہ ہائ تعلیم میں تعلیم کو جاری رکھنے کے لیے سکالر شپ دی جاتی ہے۔

ب۔ دینی تعلیم
مدارس
 طلاب کےلیے 18 مدارس
 طالبات کے لیے 9 مدارس
مجموعی طور پر ان مدارس میں 2000 سے زائد طلباء و طالبات تعلیم حاصل کر رہے ہیں
نوٹ:۔
۱۔ ان مدارس کے فارغ التحصیل سینکڑوں علمائے کراماور ریسریچ اسکالرز استاد العلماء علامہ شیخ محسن علی نجفی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اندرون ملک و بیرون ملک نہایت کامیابی کے ساتھ اسلام کی سربلندی اور پاکستان کے استحکام کے لیے کوشاں اور انسانیت کی خدمت میں مصروفِ عمل ہیں، اور علمی، سماجی، فلاحی اورمعاشرتی گرانقدر خدمات سر انجام دے رہے ہیں جن میں ہر ایک اپنی اپنی جگہ ایک اہم علمی اور سماجی شخصیت کے طور پر جانا جاتا ہے ۔ ان مدارس میں سے ایک جامعۃ الکوثر ہے جو پاکستان کے دینی مدارس میں ایک اعلیٰ مقام رکھتا ہے جہاں اعلیٰ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ مروجہ دنیوی تعلیم کی سہولیات بھی موجود ہیں۔ یہاں کے سینکڑوں فارغ التحصیل طلباء اندرون ملک اور بیرون ملک علمی حلقوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکے ہیں۔سینکڑوں طلبہ ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر چکے ہیں۔

3. سماجی و فلاحی خدمات
 321 مساجد کی تعمیر
 4784 یتیم اور نادار بچے اور بچیوں کی شادی کا انتظام
 اتحاد امت کے عنوان سے ہر سال 10 سیمینارز کا انعقاد
 2005 میں زلزلے سے متاثرہ 51210 (اکیاون ہزار دوسو دس) خاندانوں کی ضروریات کی تکمیل
 2010 سیلاب سے متاثرہ 26862 (چھبیس ہزار آٹھ سو باسٹھ) خاندانوں کی ضروریات کی تکمیل
 2005 اور 2010 کے زلزلہ اور سیلاب سے متاثرین کے لیے 10091( دس ہزار اکیانوے) گھروں کی تعمیر
 سالانہ 4035 (چار ہزار پینتیس) غریب، نادار، یتیم اور بیواؤں کی کفالت
 3 ہسپتال جو روزانہ 375 مریضوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔
 8 ڈسپنسریز جو روزانہ 211مریضوں کو مفت علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔
 میڈیکل کیمپس جو سالانہ 5675 مریضوں کو علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرتے ہیں۔
 واٹر پمپ 165 ( آب رسانی کے ذرائع)

Advertisements
julia rana solicitors london

حسینی فاؤنڈیشن : قدرتی آفات اور انسانی سانحات پر دکھی انسانیت کی فوری امداد اور فلاح و بہبود کے اقدامات میں پیش پیش، صدر پاکستان اور وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے حسن کارکردگی ایوارڈ کا حامل فلاحی ادارہ ہے۔
4. نادار، مستحقین، بیوہ، یتیم اور مہاجرین کے لیے رہائشی کالونیاں
• 1999 کی کرگل جنگ کے متاثرین مہاجرین اور دیگر یتیموں، بیواوں ، ناداروں اور فقراء کے لیے کالونیوں کی تعمیر جو 333 گھروں پر مشتمل ہیں جن میں 1924 افراد رہائش پذیر ہیں جنہیں کھانا، میڈیکل، تعلیم اور تمام دیگر بنیادی سہولیات مہیا کی جاتی ہیں۔
• کوٹ ادو کے مقام پر 2010 کے سیلاب زدہ گان کے لئے 100 گھرانوں پر مشتمل ہر طرح کی سہولیات سے آراستہ ماڈل ویلیج بنایا ۔
• ضلع گنگچھے بلتستان کے پسماندہ گاؤں کوندوس میں 80 گھرانوں پر مشتمل کالونی بنائی گئی۔
اس کے علاوہ ان کی خدمات کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے جن میں سے ہر ایک کا تفصیلی ذکر کرنا ممکن نہیں ہے۔
ستم بالاے ستم تو یہ ہے کہ اس عظیم سماجی شخصیت کی قدر کرنے کی بجاے ان کا نام فورتھ شیڈول میں ڈال دیا گیا اور ان کے اکاونٹس منجمد کر دیے گیے ہیں. ہمارا مطالبہ ہے کہ اس عظیم شخصیت کا نام فورتھ شیڈول سے خارج کیا جائے اور ان کے تمام منجمد اکاؤنٹ بحال کیے جائیں.

Facebook Comments

عامر حسین شہانی
ریسرچ سکالر جامعۃ الکوثر اسلام آباد

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply