لمبا ہاتھ ۔۔حسن رضا چنگیزی/افسانہ

اس کا اصل نام کچھ اور تھا لیکن اکثر لوگ اسے ملک صاحب کے نام سے جانتے تھے۔ وہ علاقے کا ایک جانا پہچانا اور معتبر نام تھا۔ اس کی عمر پینسٹھ سال کے قریب تھی لیکن قابل رشک صحت اور متناسب ڈیل ڈول کے باعث وہ بہ مشکل پچپن سال کا لگتا تھا۔ اس کے سر پر اب بھی بالوں کی اچھی خاصی مقدار موجود تھی جسے وہ بڑے سلیقے سے سنوار کر رکھتا تھا۔ سرخ و سفید چہرے پر سجی ہلکی داڑھی اس کی پر کشش شخصیت کے ساتھ بڑا میل کھاتی تھی۔ وہ ہمیشہ خوبصورت اور قیمتی عینک کا استعمال کرتا۔ لباس بھی ہمیشہ انتہائی نفیس زیب تن کرتا جس سے پھوٹنے والی غیر ملکی پرفیوم کی خوشبو ہمیشہ اس کا احاطہ کیے  رکھتی۔ وہ ایک پڑھا لکھا اور بڑے رکھ رکھاؤ والا شخص تھا۔ علاقے میں اس کی بڑی عزت تھی۔ اس کے حلقہ احباب میں سیاسی، سماجی، سرکاری اور کاروباری، الغرض ہر طبقے کے لوگ شامل تھے۔ کچھ برس قبل تک وہ خود بھی ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز رہ چکا تھا۔ اگرچہ اب وہ ایک ریٹائرڈ زندگی گزار رہا تھا لیکن وسیع کاروبار کا مالک ہونے کےباعث اس کی زندگی اب بھی بڑے شاندار طریقے سے بسر ہورہی تھی۔ اس کا وسیع و عریض مکان خوبصورتی میں اپنی مثال آپ تھا جس میں اس کے علاوہ اس کا چھوٹا بیٹا اپنی فیملی کے ساتھ رہ رہا تھا۔ بیوی کچھ عرصہ قبل اسے داغ مفارقت دے چکی تھی۔ بڑا بیٹا اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کئی سال قبل امریکہ شفٹ ہو گیا تھا جبکہ اکلوتی بیٹی بھی برسوں پہلے شادی کرکے سسرال جا بسی تھی۔ زندگی میں چونکہ دولت کی فراوانی تھی اس لیے گھر میں نوکروں کی بھی کوئی کمی نہیں تھی۔

اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ بڑا دردمند دل رکھتا ہے۔ خصوصاً جب سے وہ سرکاری ملازمت سے ریٹائر ہوا تھا تب سے اس نے بڑی تندہی سے سماجی کاموں میں حصہ لینا شروع کردیا تھا جس کی وجہ سے جلد ہی ہر طرف اس کی سخاوت کے قصے مشہور ہونے لگے تھے۔ یتیموں اور بیواؤں پر اس کی شفقت کے قصے عام تھے۔ وہ ایک مرتبہ حج بھی کر آیا تھا جبکہ دو بار عمرے کی سعادت بھی حاصل کرچکا تھا۔ گویا اس میں ایک اچھے انسان کی تمام خوبیاں موجود تھیں۔

اس کی پیدائش ایک متوسط گھرانے میں ہوئی تھی۔ باپ ایک چھوٹے درجے کا سرکاری ملازم تھا جس نے اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت پر بہت توجہ دی تھی۔ اس نے اپنی تعلیم مکمل کی تو دوستوں کے کہنے پر مقابلے کے امتحان کی تیاری شروع کردی۔ پڑھاکو تو تھا ہی اس لئے اس کی شبانہ روز محنت رنگ لائی اور اس نے پہلی ہی کوشش میں مقابلے کا امتحان پاس کرلیا۔ ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد اس کی پہلی پوسٹنگ ایک ایسے محکمے میں ہوئی جس کی دیواروں اور چھت سے ہمیشہ ہن برستا تھا۔ اس کے دفتر میں ہمیشہ درخواست گزاروں کا تانتا بندھا رہتا تھا جن کی اکثریت ریٹائرڈ اور حاضر سروس سرکاری ملازمین یا ان کے بیوی بچوں کی ہوتی جبکہ سائلین کی ایک بڑی تعداد ان ٹھیکیداروں پر مشتمل ہوتی جو سرکاری منصوبوں کی تکمیل کے بعد اپنے واجبات کی وصولی کے لیے ہفتوں بلکہ بعض اوقات مہینوں اس کے دفتر کا طواف کرتے رہتے تھے۔ اسے دفتر کے معاملات کو سمجھنے میں زیادہ عرصہ نہیں لگا اس لئے جلد ہی وہاں مروج نظام کا ایک اہم حصہ بن گیا۔

اب اسے تنخواہ کے علاوہ رشوت اور تحفے تحائف کی صورت میں بھی اچھی خاصی رقم ملنے لگی۔ اس کی زندگی آسائشوں کے بغیر گزری تھی اس لئے جب اسے بیٹھے بٹھائے بھاری آمدنی ہونے لگی تو اسے بہت اچھالگنے لگا۔ اچھی بات یہ تھی کہ اس آمدن کے حصول کے لئے اسے زیادہ تردد نہیں کرنا پڑتا تھا اور پیسے ایک خود کار طریقے سے اس کی تجوری میں منتقل ہوتے رہتے تھے۔ انہی دنوں اس کا پہلی بار اس نوجوان سے سامناہوا۔ اس دن بھی وہ عام دنوں کی طرح اپنے دفتر میں بیٹھا اپنے کام میں منہمک تھا۔ اس کے سامنے میز پر مختلف فائلیں پڑی ہوئی تھیں جن کا وہ بڑے غور سے مطالعہ کر رہا تھا۔ تبھی اس کے کانوں میں ایک لرزتی آواز آئی۔

بیٹا آپ ہی میرا مسئلہ حل کر دیں۔۔۔

اس نے سر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ایک ادھیڑ عمر خاتون کھڑی نظر آئی جس کے ہاتھوں میں ایک فائل دبی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے سے پریشانی عیاں تھی اور  وہ کافی تھکی ہوئی نظر آرہی تھی۔

جی فرمائیے، میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟ اس نے خاتون کی طرف دیکھتے ہوئے قدرے بے زاری سے کہا! اسے اپنے چپڑاسی  پر غصہ آرہا تھا جس کی غفلت سے وہ عورت یوں اس کے کمرے میں گھس آئی تھی۔

بیٹا میں کئی ہفتوں  سے یہاں کے چکر لگا رہی ہوں۔ میرے شوہر محکمہ تعلیم میں چپڑاسی تھے۔ چار مہینے قبل ان کے دفتر کے پاس جو دھماکہ ہوا تھا، اس میں وہ بھی شہید ہو گئے تھے۔ وہ گھر میں واحد کمانے والے تھے۔ ان کے جانے کے بعد  ہماری زندگی جہنم بن کر رہ گئی ہے۔  گھر میں کھانے کو کچھ نہیں۔ ادھار لے لے کر گزارہ کر رہے ہیں۔ ایک بیٹی بھی بیمار ہے۔  میں شوہر کے واجبات لینے ان کے دفتر گئی تھی لیکن  وہاں سے پتہ چلا کہ ان کی فائل کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے اس لئے مجھے یہاں بھیج دیا۔ اب میں کئی ہفتوں سے یہاں کے چکر لگا رہی ہوں لیکن  کوئی میری بات نہیں سن رہا۔ کسی نے کہا ہے کہ اگر آپ کوشش کریں تو مجھے میرے شوہر کے واجبات مل سکتے ہیں۔ تبھی شاید زندگی کچھ آسان ہو جائے۔  یہ کہتے ہوئے خاتون کی آواز بھرا گئی۔ اس نے خاتون سے فائل لے کر اس کا سرسری مطالعہ کیا اور قلم نکال اس پر کچھ لکھنے لگا۔ پھر اس نے فائل خاتون کو واپس کرتے ہوئے اسے ساتھ والے کمرے میں ایک مخصوص کلرک کے پاس جانے کی ہدایت کردی۔  کلرک اس کا خاص بندہ تھا جو اس طرح کے معاملات طے کرنے کا ماہر تھا۔  اس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ پتھر کو بھی نچوڑ کر اس سے رس نکال سکتا تھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ فائل پر لکھے مخصوص الفاظ کا مفہوم سمجھ جائے گا اور کام ہو جانے پر اس کا حصہ اسے بڑی ایمانداری سے پہنچا دے گا۔

اس نے گھڑی پر نظر ڈالی۔ نماز کا وقت ہو چکا تھا۔ وہ اٹھا اور وضو کرنے کی خاطر واش روم کی طرف جانے لگا۔ دفتر کے احاطے میں چونکہ کوئی باقاعدہ مسجد نہیں تھی اس لئے وہ نماز اپنے کمرے میں ہی ادا کرتا تھا۔ واش روم کافی بڑا تھا جس میں قطار میں کئی واش بیسن لگے ہوئے تھے۔ وہاں اس وقت اور بھی کئی لوگ وضو کرنے میں مصروف تھے۔ اس نے آستینیں چڑھائیں اور وضو کی تیاری کرنے لگا۔  تبھی اس کی نظر غیر ارادی طور پر سامنے دیوار پر لگے آئینے پر پڑی جس  میں ایک نوجوان کا ہیولا نظر آرہا تھا۔  قد کاٹھ  میں وہ اس کے برابر ہی تھا بلکہ عمر بھی شاید ایک ہی ہوگی۔ اسے  دیکھ کر وہ لمحے بھر کے لیے ٹھٹھک سا گیا۔  دیکھنے میں وہ ایک خوبصورت سا نوجوان تھا لیکن اس کے چہرے میں ایک عجیب بات تھی۔ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ بیمار ہو اور ابھی بستر سے اٹھ کر آیا ہو۔ چہرے پر زردی پھیلی ہوئی تھی اور آنکھوں میں ایک عجیب ویرانی تھی۔ اسے یوں لگا جیسے وہ اس سے کچھ کہنا چاہ رہا ہو۔ اسے ایک کراہت سی محسوس ہونے لگی اس لئے اس نے سر جھٹک کر اپنا دھیان ہٹایا اور وضو کرنے لگ گیا۔ لیکن اس نوجوان کے چہرے میں معلوم نہیں کیا خاص بات تھی کہ نماز کے دوران بھی وہ اس کے تصور سے چھٹکارا نہ پاسکا۔  پھر تو ایسا بار بار ہونے لگا اور  جب بھی وہ کوئی لمبا ہاتھ مارتا، وہ زرد رو نوجوان  موقع پاکر اس کی نظروں کے سامنے آجاتا جو کچھ کہے بغیرخشمگیں نگاہوں سے اسے گھورتا رہتا۔

وقت گزرتا گیا۔ اس کا بھی تبادلہ ایک دفتر سے دوسرے دفتر اور ایک شہر سے دوسرے شہر ہو تا رہا۔ اب اس کا حلقہ احباب بہت وسیع ہو گیا تھا اس لئے اس کا تبادلہ من پسند جگہوں پر ہونے لگا۔ اسے زیادہ خوشی اس وقت ہوتی جب اس کا تبادلہ دور   دراز علاقوں میں ہوتا۔ وہاں اس کی حیثیت علاقے کے بادشاہ کی سی ہوتی جہاں سڑکوں کی تعمیر سے لیکر ڈسپنسری  کی ادویات اور سکولوں کے ٹاٹ یا فرنیچر کی خریداری تک میں اس کی منظوری لازمی ہوتی۔ ایسے منصوبوں میں اس کا حصہ الگ سے رکھا جاتا جس کی وجہ سے اس کی آمدنی میں بھی تیزی سے اضافہ ہونے لگا۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ وہ جہاں بھی جاتا کسی نہ کسی موقع پر اس کا سامنا اس عجیب حلیے والے شخص سے ضرور ہوتاجس کے چہرے کے نقوش وقت گزرنے کے ساتھ اور بھی بگڑ تے جا رہے تھے۔ اب وہ پہلے کی نسبت کافی  بدشکل اور مکروہ نظر آنے لگا تھاجسے نظر بھر کر دیکھنا ملک صاحب کے لئے کسی عذاب سے کم نہیں تھا۔

وہ ملازمت سے ریٹائر ہوا تو اسے کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔ سرکاری ملازمت کے دوران وہ اتنا کما چکا تھا کہ اس کی کئی نسلیں آرام سے گھر بیٹھ کر کھا سکتی تھیں۔ یوں بھی اس نے بڑی ہوشیاری سے پیسے مختلف کاروبار میں لگا رکھے تھے جس سے اسے خاطر خواہ آمدنی ہو رہی تھی۔ ملازمت سے فراغت ملی تو اس کے سر پر سیاست کا بھوت سوار ہوا۔ اگرچہ اسے کافی عرصے سے مختلف سیاسی پاٹیوں کی طرف سے ترغیبات مل رہی تھیں لیکن فی الحال وہ بہت احتیاط سے کام لے رہا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ ابھی اسے کافی سارا ہوم ورک کرنا ہے۔ اس لئے اس نے کچھ سوچ کر مختلف فلاحی اداروں کی سر پرستی شروع کردی۔ اب اسے روز کسی نہ کسی تقریب میں شرکت کی دعوت ملنے لگی جہاں وہ دل کھول کر عطیات دینے لگا۔ اب اس نے چہرے پر ایک خوبصورت ہلکی داڑھی بھی سجا لی تھی۔ ساتھ ہی اس کے ہونٹوں پر ہمیشہ ایک دلفریب مسکراہٹ بھی رہنے لگی اور وہ ہر ایک سے انتہائی اخلاق سے پیش آنے لگا۔ وہ مطمئن تھا اورمستقبل سے اس کی بہت ساری امیدیں وابستہ تھیں۔

آج وہ اپنی زندگی کا ایک اور اہم سنگ میل عبور کرنے جا رہا تھا۔ انتخابات قریب تھے اور اس نے ملک کی ایک بڑی سیاسی پارٹی میں شمولیت کا فیصلہ کرلیا تھا۔  جواب میں پارٹی نے بھی بڑی خوش دلی سے اسے ٹکٹ دینے کی حامی بھر لی تھی جس کا اعلان  کچھ ہی دیر بعد ایک بڑے جلسے میں کیا جانا تھا۔ اس نے اپنا بہترین سوٹ پہن رکھا تھا اور جلسے میں جانے کے لئے تقریباَ پوری طرح تیار تھا۔  باہر سڑک پر درجن بھر گاڑیاں قطار میں کھڑی تھیں جبکہ بڑی تعداد میں لوگ سڑک پرکھڑے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ اس نے الماری سے ایک نئی خوبصورت ٹائی نکالی اور اسے گلے میں ڈال کر  قد آدم آئینے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ ٹائی میں گرہ لگاتے ہوئے اس نے جونہی آئینے پرنظر ڈالی تو اسے  ایک جھٹکاسا لگا۔ آئینے میں ایک بار پھر وہی بدصورت ہیولا نظر آرہا تھا۔  آج اس کی آنکھوں سے کچھ زیادہ ہی خباثت ٹپک رہی تھی اور وہ اپنے بدنما دانتوں کی نمائش کرتے ہوئے اسے مسلسل گھورے جا رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں پتلیوں کی جگہ مکاری ناچ رہی تھی ۔ اسے اپنے تن بدن میں ایک جھر جھری سی محسوس ہوئی۔ اس نے ایک لمحے کے لیے اپنی آنکھیں بند کرلیں لیکن جب  آنکھیں کھول کر دوبارہ آئینے میں دیکھا تو وہ اپنی تمام تر بدصورتی کے ساتھ اب بھی اس کے سامنے موجود تھا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک مکروہ زہریلی مسکراہٹ سجی ہوئی تھی اور منہ سے غلیظ رنگ کی رال ٹپک رہی تھی۔ اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے نمودار ہونے لگے۔ اس  نے ایک ٹھنڈی سانس بھری، پیشانی سے پسینہ پونچھا،  اپنی  ٹائی کی گرہ درست کی اور آئینے سے نظریں چراتے ہوئے باہر کی جانب قدم بڑھانے لگا!!!

Advertisements
julia rana solicitors

Save

Facebook Comments

حسن رضا چنگیزی
بلوچستان سے تعلق رکھنے والا ایک بلاگر جنہیں سیاسی اور سماجی موضوعات سے متعلق لکھنے میں دلچسپی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست ایک تبصرہ برائے تحریر ”لمبا ہاتھ ۔۔حسن رضا چنگیزی/افسانہ

Leave a Reply