چور ،کرپٹ ،نااہل۔۔۔محمد عبدہ

آپ کو کوریا کا ایک سچا واقعہ سناتا ہوں جس کا کوریا میں رہتے ہوئے مَیں چشم دید گواہ ہوں۔ دنیا کے 200 سے زائد ممالک میں جنوبی کوریا ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ جس کا رقبہ پاکستان سے آٹھ گنا اور آبادی چار گنا کم ہے۔ وہاں تیل گیس معدنیات سمیت دنیا کے کسی قسم کے قدرتی وسائل نہیں ہیں۔ کوریا اپنی ضرورت کا تیل گیس لوہا خوراک گوشت پھل سبزیاں تک باہر سے منگواتا ہے لیکن اس کے باوجود کوریا دنیا کے 10 جدید اور امیر ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ کورین پاسپورٹ دنیا کا پہلے نمبر پر طاقتور ترین پاسپورٹ ہے۔

پچھلے سال کوریا کی صدر پر کرپشن کا الزام لگا کہ اس نے 60 ملین ڈالر یعنی تقریباً پاکستانی 6 ارب روپے کی کرپشن کی ۔ جبکہ صدر کا موقف تھا یہ کرپشن میں نے نہیں میری ایک دوست نے کی ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں کوریا جیسے امیر ملک جہاں ایک عام مزدور سالانہ 25 سے 30 لاکھ روپے کماتا ہو یہ رقم اتنی بڑی نہیں تھی۔ بات سامنے آتے ہی کوریا میں طوفان برپا ہوگیا۔ عوام سڑکوں پر نکل آئی اور ایک مہینے کے اندر اندر 30 لاکھ لوگ ریلیوں جلوسوں میں شامل ہوگئے۔ میڈیا نے کرپشن کے خلاف بھرپور تحریک چلائی۔ صدر کی اپنی پارٹی کے 35 سے زائد ممبر اسمبلی نے احتجاجاً پارٹی چھوڑ دی۔ اور صدر کو مجبور کرکے صدارت سے ہٹا دیا۔ جس کے بعد پہلے صدر نے روتے ہوئے قوم سے معافی مانگی اور اپنے آپ کو قانون کے آگے پیش کردیا۔ پھر صدر کی سیاسی پارٹی نے اسے پارٹی سے نکال کر قوم سے معافی مانگی۔ اس کی اپنی کابینہ نے صدر کی اس کرپشن پر لاتعلقی کا اعلان کرکے قوم سے  معافی مانگی۔ اب عدالت میں کیس چل رہا ہے اور سابق صدر کو ہر پیشی پر ہتھکڑی لگے بندھے ہاتھوں کے ساتھ عدالت میں پیش کیا جاتا ہے۔

کیا وجہ ہے کہ دنیا میں پاکستان سے بھی بہت چھوٹے اور غریب ممالک ہیں جیسے کمبوڈیا ویت نام چاڈ انگولا  وغیرہ وغیرہ مگر ان کی عزت پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔ وجہ اوپر بتا دی ہے۔ جب کورین صدر پر کرپشن کا کیس چل رہا تھا تو عالمی میڈیا میں کورین صدر کی کرپشن کی بجائے کورین عدلیہ میڈیا اور عوام زیادہ زیر بحث تھی جو بےایمانی چوری کرپشن کے خلاف متحد ہوگئی تھی۔ اس کے برعکس جب پاکستان میں وزیراعظم کی کرپشن سامنے آئی تو وزیراعظم صاحب ڈھٹائی سے چور مچائے شور شروع ہوجاتے ہیں۔ اس کی کابینہ سرکاری خرچ پر اس کا دفاع کرنے آجاتی ہے۔ میڈیا پیسے لیکر کرپشن کے حق میں بولنا شروع ہوجاتا ہے اور عوام جس کا کردار سب سے اہم ہونا تھا وہ مفت میں چور کی وکیل بن جاتی ہے۔ دنیا بھر میں اگر کانگو ایتھوپیا یوگنڈا روانڈا کی پاکستان سے زیادہ عزت ہے اور ان کی عوام کو غیر ممالک میں شرمناک سلوک کا سامنا نہیں کرنا پڑتا تو اس کی وجہ قدرتی وسائل کا زیادہ ہونا معیشت یا فوج کا مضبوط ہونا نہیں ہے بلکہ عوام کا اشرافیہ کی چوری بےایمانی کرپشن کے خلاف متحد ہوکر آواز اٹھانا ہے۔ جس کی چوری سامنے آجائے اسے لیڈر کی بجائے چور کہنا ہے۔ ایسا کرنے پر کسی ملک کا حکمران طبقہ، اشرافیہ بھلے کرپٹ چور بےایمان ہو دنیا اس ملک کی عوام کی عزت کرتی ہے اسے قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

میرے جاننے والے سب کورین کہتے ہیں اگر عوام میں شعور ہو تو حکمرانوں کا کرپٹ نکل آنا اتنا برا نہیں ہوتا۔ ہماری صدر چور نکلی ہم نے اسے چور کہا اور جو چور کی حمایت میں بولا اسے چور سے بھی بدتر کہا۔ تمہارا حکمران چور نکلا اور تم لوگ اب بھی اس کے لیے  جلسے کررہے ہو۔ تم نے خود فیصلہ کرنا ہے کہ تمہاری عزت کی جائے یا  ذلت ملے۔ جہاں ترقی اور عزت کی کوئی حد نہیں ہوتی وہاں غربت اور  ذلالت کی بھی کوئی آخری حد نہیں ہے۔ یہ مت سمجھو کہ اب دنیا میں بے عزت ہورہے ہو تو کل عزت مل جائے گی ، جو تم لوگوں کے حالات ہیں اس سے لگتا ہے  ذلالت کا سفر ابھی شروع ہوا ہے اور مزید ایک دو نسل تک چلے گا۔ تمہاری عوام بھیڑ بکریوں کی طرح ہے جسے ایک سیاستدان چند ارب اور ایک صحافی چند لاکھ لیکر جھوٹی کہانی کے پیچھے لگا لیتا ہے بلکہ گدھوں کی طرح ہے جو عقل استعمال کرنے کی بجائے جاہلوں کی طرح چور اور جھوٹ کے پیچھے چل پڑتے ہے۔

تو میرے پیارے پاکستانیوں! قوم کی ترقی پیسے اور تعلیم سے نہیں تربیت سے ہوتی ہے۔ عزت جھوٹ نہیں سچ کا ساتھ دینے سے ہوتی ہے۔ معیشت کی مضبوطی قدرتی وسائل کے مالک ہونے سے نہیں بلکہ ان وسائل کو ایماندار قیادت کے ہاتھوں سونپنے سے ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

یاد رکھیں چور کو جیل بھیجنے کی بجائے حکومت دیتے رہے۔ چور حکمران کو ہاتھ باندھ کر عدالت میں پیش کرنے کی بجائے عوامی جلسوں میں مظلوم بننے کا موقع دیتے رہے۔ میڈیا میں ایک عام سرکاری افسر احد چیمہ کی اربوں کی کرپشن   سے نظر ہٹانے کے لیے  جیو جنگ کا بکاؤ صحافی عمر چیمہ عمران خان کی شادی پر پلانٹڈ کہانی پر خوشی سے چھلانگیں مارتے رہے۔ سوشل میڈیا کے نام نہاد دانش فروش سینٹ میں ممبران اسمبلی کے بکنے پر ممبران اور ان کی سیاسی پارٹی سربراہان کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے جو لیڈر اپنے ممبران بکنے پر ان کے خلاف کارروائی کا اعلان کرے اسی پر قلم کی حرمت پامال کرتے رہے ،تو یہ ایک سی پیک کیا اس طرح کے درجنوں منصوبے بھی تمہاری  ذلالت اور پستی نہیں روک سکتے۔ جو دو نسلوں سے کررہے ہو اس سے حالات بہتر ہونے کی بجائے مزید بدتر ہورہے ہیں تو ایک بار اس کے برخلاف کرنے کی ٹھان کر دیکھو اگر پھر بھی تمہاری حالت نا بدلی تو پھر صبر اور سکون سے  ذلالت کا سفر جاری رکھتے ہوئے دجال کا انتظار کرو ،تمہارا آخری علاج وہی  کرے  گا۔ کیونکہ دجال کی نشانیاں بتاتی ہیں تمہارے یہ پسندیدہ چور حکمران دجالی میڈیا اور بکاؤ قلم فروش دجال کا ہر اوّل دستہ ہوں گے۔

Facebook Comments

محمد عبدہ
مضمون نگار "محمد عبدہ" کا تعلق فیصل آباد سے ہے اور حالیہ کوریا میں مقیم اور سیاحت کے شعبے سے تعلق ہے۔ پاکستان کے تاریخی و پہاڑی مقامات اور تاریخ پاکستان پر تحقیقی مضامین لکھتے ہیں۔ "سفرنامہ فلپائن" "کوریا کا کلچر و تاریخ" اور پاکستانی پہاڑوں کی تاریخ کوہ پیمائی" جیسے منفرد موضوعات پر تین کتابیں بھی لکھ چکے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply