مکالمہ میرا خواب

مسلسل دو سے تین گھنٹے ہوگئے کچھ لکھنے کی کوشش کررہا ہوں لیکن ہر دفعہ چار پانچ سطریں لکھ کر مٹا دیتا ہوں۔کوئی جاندار موضوع مل ہی نہیں رہا جس پر لکھ سکوں۔حالانکہ یہ ملک بڑا زرخیز ہے اس حوالے سے جس موضوع پر بھی لکھنا چاہو مواد مل جائے گا۔یہاں فرقہ واریت کی لڑائی ہے اور لسانیات کی جنگ بھی ۔روشن خیالی کا ڈرامہ بھی ہے اور انتہاء پسندی کا ناسور بھی۔سیاسی تماشہ بھی ہے اور مذہبی جھگڑے بھی، ہر طرف ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے ۔جس کا جی چاہے پوری کتاب لکھ ڈالے۔ دانشور سیر حاصل گفتگو کرلے لیکن گتھی ہے کہ سلجھنے کو نہیں آ رہی ۔۔میں ان تمام معاملات سے ہٹ کر سوچ رہا تھا۔میری تمام تر توجہ مکالمہ پر تھی کہ اس حوالے سے کچھ لکھوں۔مسلسل کچھ دنوں سے کچھ سازشیں ہو رہی ہیں۔کبھی اس گروپ کے ایڈمن کو تذلیل کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو کبھی مکالمہ میں لکھنے والے ساتھیوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔اک بات سمجھ سے بالاتر ہے اک شخص نے ایک کتھا تحریر کی اس کا موضوع کچھ بھی تھا وہ چاہے معاشرتی اتار چڑھاؤ پر تھا یا سیکس ایجوکیشن پر۔لکھنے والے نے اپنی گفتگو کو بڑے خوبصورت پیرائے میں بیان کردیا ۔اب اس پر تنقید کرنا، نکتہ چینی کرنا اس میں سے لغویات کو نکال باہر کرنا آپ کا کام ہے لیکن تدبر کے ساتھ دلیل کے ساتھ ۔یہ آپ کا حق ہے اگر آپ کو کسی بات سے اختلاف ہے تو آپ دلیل سے بات کریں لیکن کسی کی تذلیل نہ کریں ،کسی کی تضحیک اور دل آزاری نہ کریں۔ہر شخص کا اپنا موقف ہے۔وہ اپنے موقف کو جس پیرائے میں بھی پیش کرے وہ اس کی مرضی ہے۔ اگر کسی شخص کو اس کے موقف سے تکلیف ہے پیٹ میں مروڑ اٹھتے ہیں تو پھر اسے بھی ہمت کرنی چاہیے۔ وہ بھی میدان میں آئے اور اس کی بات کو اپنے دلائل سے جھٹلائے لیکن اگر اتنی طاقت اور ہمت نہیں تو پھر کسی کی توہین کرنے کا حق کسی کو نہیں پہنچتا۔یہ نوبت یہاں تک کیسے پہنچی اور نوجوان طبقہ اپنے معیار سے اتنا کیوں کر گر گیا کہ بجائے مخالف سمت کی بات سننے کے جذباتی ہو جانا اور سرعام ماں بہن کی گالیاں دینا یہ چلن اتنا عام کیوں ہوگیا۔دوسرے کی بات کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیوں نہیں کرتے۔اس مہذب معاشرے کا یہ چلن تو نہیں تھا۔آخر یہ قوم اتنی دلبرداشتہ کیوں ہوگئی۔اس قوم سے جو امیدیں وابستہ کر رکھی تھیں میرے بزرگوں نے ۔یہ قوم تو اس کا عشرے عشیربھی نہیں۔نوجوانوں میں یہ بڑھتی ہوئی بے چینی کیوں۔دوسرے کی بات کو سننے کا حوصلہ کیوں نہیں۔آج سوشل میڈیا پر جو جنگ چل رہی ہے۔وہ ہے ہی اختلاف کی جنگ۔ہر کوئی اس جنگ کو جیتنا چاہتا ہے۔کوئی مذہب کی جنگ لڑ رہا ہے۔کوئی رنگ ونسل کی جنگ لڑ رہا ہے ۔کوئی مسلک کی جنگ لڑ رہا ہے۔ تو کوئی انتہاء پسندی اور روشن خیالی کے بندھن میں بندھا ہوا ہے۔کہیں سیاستدانوں کی سیاسی لڑائیاں ہیں تو کہیں لسانیات کی بنیاد پر لوگ ایک دوسرے سے دست و گریباں ہیں۔ہر طرف بے سکونی کا ایک عالم لیکن انہی لوگوں میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں۔جن کی خواہش ہے کہ لوگوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مہیا کیا جائے جہاں لوگ آپس میں مل بیٹھیں۔، ایک دوسرے کو سمجھیں ،گفت و شنید کریں مذاکرات کریں۔ایک دوسرے کی بات کو دلیل سے سنیں ،ٹاکرے کریں ، بجائے دست و گریباں ہونے کے ایک دوسرے کے موقف کو سننے کی جرات کریں۔خود میں سچ بولنے اور سچ سننے کا حوصلہ پیدا کریں۔جب یہ تمام خوبیاں ہم میں سمٹ آئیں گی تو پھر کسی دشمن کو یہ جرات نہیں ہوگی کہ وہ میرے دین کا میرے مسلک کا میرے بزرگوں کی قربانیوں کا مذاق اڑائے ۔یہ آج اگر دشمن کو میسر آئی ہے تو وہ میری کمزوریوں کی وجہ سے۔اب بھی وقت ہے کچھ نہیں بگڑا۔ ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا خود میں حوصلہ پیدا کریں اور مخالف کی بات کو سننے کی خود میں صلاحیت پیدا کریں۔لہذا سوشل میڈیا کو اکھاڑہ بنانے کی بجائے ایک ایسا پلیٹ فارم بنائیں جہاں ہم ایک دوسرے کو دور کرنے کے بجائے قریب لاسکیں اور اس کے لیئے نوجوانوں نے خوبصورت ادبی محفلیں شروع کی ہیں۔جہاں آپ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاسکتے ہیں۔خود میں مزید نکھار پیدا کرسکتے ہیں۔مکالمہ بھی اسی تسلسل کی ایک کڑی ہے ۔یہاں بھی نوجوانوں کو نکھارنے کا موقع دیا گیا ہے اور یہ مکالمہ ممبران کی بہت بڑی کاوش ہے کہ انہوں نے اس دور میں نوجوانوں کو اک نئی روشنی دی۔آج اگر مکالمہ پر کچھ غلط لوگ آکر اس کے ماحول کو خراب کرنا چاہتے ہیں یا کوئی رخنہ ڈالنے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں تو یہ انکی بھونڈی سوچ اور خام خیالی تو ہوسکتی ہے لیکن حقیقت کا اس سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو مکالمہ میرا خواب تھا اور اس کی تعبیر انعام رانا صاحب۔۔ تو پھر میں کیوں نہ کروں پیار اس مکالمہ سے اس میں رہنے والے لوگوں سے جن کے دم سے یہ مکالمہ ہے۔اگر کسی ساتھی کے ساتھ ایسا کوئی حادثہ ہو بھی جاتا ہے تو دل چھوٹا نہ کریں اور نہ ہی مکالمہ سے خود کو توڑنے کی کوشش کریں بلکہ ایسے لوگوں کا مقابلہ کریں جو ماحول خراب کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔اگر کسی ساتھی کی دل آزاری ہوئی ہے اور وہ ناراض ہے تو دل کی گہرائیوں سے معذرت لیکن مکالمہ کو نہ چھوڑیں اس سے جُڑے رہیں۔آخر میں تمام ساتھیوں کے لیئے ثابت قدمی کی دعا۔آمین

Facebook Comments

Khatak
مجھے لوگوں کو اپنی تعلیم سے متاثر نہیں کرنا بلکہ اپنے اخلاق اور اپنے روشن افکار سے لوگوں کے دل میں گھر کرنا ہے ۔یہ ہے سب سے بڑی خدمت۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply