احمد ایک یونیورسٹی میں پروگرام اسسٹنٹ تھا۔اچھی جاب چل رہی تھی مگر پھر اس نے اچانک باہر جانے کا ارادہ کیا اور سٹوڈنٹ ویزا اپلا ٰئی کیا ۔ کچھ ہی دنوں میں ا س کو ویزا مل گیا سو وہ خوشی خوشی سب کو بتانے لگا ۔سب دوست رشتہ دار اس کومبارکباد دے رہے تھے۔
اس کے دوست اور رشتہ دار وں کا مشورہ بھی ساتھ ہی تھا کہ وہاں جا کر واپسی کا سوچنا بھی مت۔ احمدنے بھی سب کو بتایا اگر اس نے پاکستان ہی میں رہنا ہوتا تو وہ پروگرام اسسٹنٹ ٹھیک تھا تنخواہ بھی ٹھیک تھی لیکن وہ بھی ادھر کے حالات سے ہی تو بھاگ رہا تھا۔سب اس کو قسمت والاسمجھ ر ہے تھے احمدبھی خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا!
محترم قارئین!
یہ ایک احمد کی کہانی نہیں ہے ہر اس پاکستانی نوجوان کی ہے جو سب کچھ چھوڑ کر اپنے ملک سے کسی نہ کسی طرح باہر نکلنا چاہتے ہیں ۔
کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جس طرح ہمارے نوجوان جس تیزی سے ملک چھوڑ رہے ہیں اس کی وجوہات کیاہیں اگر اسی طرح ہمارے پڑھے لکھے نوجوان ملک چھوڑتے رہیں گے تو اس کا ملک کی معیشت پر کیا اثر پڑے گاا ور ملک کیسے ترقی کرے گا جب اس کا قیمتی سرمایہ یہ نوجوان ایسے ہی چھوڑ کر جاتے رہیں گیا ۔
آخر کیاُ وجہ ہے کہ ہمارے نوجوان اپنے ملک کو چھوڑنے کے لیے اپنے گھر تک بیچنے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں ۔بہترین نوکری چھوڑ کر وہ دوسرے ملک جا کر ویٹر تک کا کام خوشی سے کر لیتے ہیںِ ۔لوگ وزٹ ویزا پر جاتے ہیں اور دس دس سال تک واپس نہیں آتے آخر کیوں؟
آپ اندازہ کریں کہ جو نوجوان ہمارے اپنے ملک میں ماسٹر ڈگری کر کے ،بلکہ کچھ تو ایم فل کر کے جب بیرون ملک آتے ہیں تو کسی سروس سٹیشن پر کام کر لیتے ہیں کوئی بھی مشکل سے مشکل جاب یہاں تک کہ مزدور بن کر بھی کام کر لیتے ہیں یا کسی دوکان پر نوکری کر لیتے ہیں لیکن واپسی کا نام نہیں لیتےآ۔۔خرکیوں ہماری نوجوان نسل اتنی زیادہ مایوس ہے ؟
اگر آپ نوجوانوں سے پوچھیں گے تو شاید سب کے ملے جلے ایک جیسے ہی جواب ہوں ،جیسے۔۔
ملک نے ہمیں دیا ہی کیا ہے ،
انٹرویو کے لئےُ جاؤ تو کہا جاتاُ ہے کہ تجربہ نہیں، نوکری ہی نہیں ملتی۔
اگر مل جاۓ تو کس وقت فارغ کر دیے جائیں،کسی کو نہیں معلوم۔۔
جاب پر اس طرح سلوک کیا جاتا ہے جیسے ہم کسی اور دنیا کی مخلوق ہیں ۔
تنخواہ بھی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے اوپر سے مالکان ہمیشہ پریشر میں رکھتے ہیں ۔ آج کل میڈیا میں جو لوگ کام کر رہے ہیں ان کو بھی ایسا تجربہ ہو رہا ہے
کو ئی نوکری بغیر سفارش نہیں ملتی ۔
تعلیم کے مطابق نوکری نہیں ملتی ۔
میرٹ کا خیال کسی بھی جگہ نہیں رکھا جاتا ۔
جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون ہے آپ کو جائز کاموں کے لیے بھی رشوت دینا پڑتی ہے ۔
اگر ہم ان سب باتوں کا جائزہ لیں تو کچھ باتیں ہمارے نوجوانوں کی ٹھیک بھی ہیں لیکن ہم سارا ملبہ حکومت پر یا پھر سسٹم پر بھی نہیں ڈال سکتے۔اگر کچھ باتیں ہم اپنے ذمہ لے لیں تو بہت حد تک ہم ان سب چیزوں پر قابو پا سکتے ہیں ہم اپنے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈال سکتے ہیں۔
حکومت کی نوکری ہر کوئی کرنا چاہتا ہے لیکن ایسا ممکن نہیں کہ حکومت ہر کسی کو نوکری دے سکے ۔لیکن کچھ چیزیں ہیں جن پر ہم آسانی سے کام کر سکتے ہیں اور ہم اپنے نوجوانوں کی مایوسی بھی دور کر سکتے ہیں اور اپنے پڑھے لکھے نوجوانوں کو با ہر مزدوری کے بجاۓاپنے ملک میں محنت پر بھی لگا سکتے ہیں۔
سب سے پہلے تو میں والدین سے گزارش کروں گا کہ جب وہ اپنے بچوں کو ا علیٰ تعلیم دلوانا چاہتے ہیں تو کچھ ایسے لوگوں سے ضرورہ مشورہ کرلیا کریں جن کو مارکیٹ کی ڈیمانڈ کا پتا ہو ۔بچوں سے بھی مشورہ کریں کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں کبھی بھی حال میں اپنی مرضی ان پر تھوپنے کی غلطی نہ کریں۔اگر اس کی تعلیم اچھی ہو اور اس کو اپنے گھر کے پاس ہی اچھی جاب بھی مل جاے تو اس کو کسی دوسرے ملک میں دھکے کھانے کی کیا ضرورت ہے۔۔
ایک اور بڑا مسلہ یہ بھی ہے کہ بہت سے والدین ان پڑھ ہوتے ہیں ان کو کسی بھی چیز کا پتا نہیں ہوتا ہے کہ بچوں کو کس فیلڈ میں بھیجنا ہے، کیا بہتر ہے اور آگے کس فیلڈ میں کامیابی کے زیادہ مواقعُ ہیں۔۔ بس وہ کہتے ہیں بچہ ایم اے کر جاۓ پھر وہ کامیاب ہو جائے گا اوربچہ بھی آ سان سے مضمون رکھ لیتا ہے اور جب ڈگری اس کے ہاتھ میں آتی ہے تو اس کو اپنی غلطی کا احساس ہوتا ، تب اسُ کو اندازہ ہوتا ہے کہ جس ڈگری کے لئے اس نے اتنا وقت دیا اس کی مارکیٹ میں ڈیمانڈ ہی نہیں ہے ۔
کچھ مسئلے ایسے ہیں جن پر صرف اور صرف حکومت کا ہی کنٹرول ہے اور اس میں حکومت کو سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔جیسے بجلی،پانی اورگیس کا مسئلہ ہے ۔ ملک میں لا قانونیت ہے ،طاقتور کی مرضی ہی چلتی ہے مظلوم کی کو ئی نہیں سنتا ۔غریب کی کسی جگہ کوئی شنوا ئی نہیں نتیجتاً لوگ اپنی زمین جائیداد بیچ کر اپنے بچے باہر بھیج دیتے ہیں کہ پیسہ ہو گا تو وہ عزت کی زندگی گزاریں گے
اس پر تو حکومت کو ہی توجہ دینا ہو گی اور ہمیں چاہیے کہ قلم ، زبان اور اگر با حیثیت ہوں کسی گورنمنٹ پوسٹ پر ہوں ایم پی اے ، ایم این اے ، ناظم ، کونسلر کچھ بھی ہوں تو اپنے تئیں حل کرنے کی کوشش کریں یا کروانے کی ، یہ ہمارا اگلی آنے والے نسلوں پر احسان ہو گا ۔
میں والدین سے بھی درخواست کروں گا کہ بیرون ملک زندگی اتنی آسان نہیں جتنا سمجھی جاتی ہے بس جو آتا ہے وہ مجبوری کی وجہ سے واپس نہیں جا سکتا ورنہ کبھی آپ میرے کہنے پر ایک منٹ کے لیے آنکھیں بند کر کے سوچیے گا کہ آپ جاب سے گھر آتے ہیں گھر آپکو کھانا خود بنانا ہے۔عید ہے اور آپ جاب پر ہیں یا زیادہ سے زیادہ گھر آ کر سو جا ئیں گے۔ایسے ہی اور بھی سوشل زندگی ایسی ہی ہے بہت کم خوش قسمت ایسے ہوتے ہیں جن کے پورے پورے خاندان باہر ہوں ورنہ ہر شخص کے پاس وقت کی قلت ہی رہتی ہے ۔
دن ، رات شفٹ ، گھر چھٹی والے دن بس سوئے رہنا ، یا بیوی اور بچے ہو جائیں تو ان کے ساتھ وقت گزاری لیکن ویسی سوشل لائف نہیں جیسے اپنے ممالک میں ہم گزارتے ہیں ۔
دوست بھی بمشکل وقت دے پاتے ہیں ورنہ تو آپ اگر دوستوں کے ساتھ جس گھر میں ہوتے ہیں اس میں رہنے والے ایک ایک مہینے کے بعد ایک دوسرے کی شکل دیکھتے ہیں ادھر کو ئی روٹین نہیں ہے آپ کی جاب رات کے بارہ بجے بھی شروع ہو سکتی ہے اور صبح کے چاربجے بھی ، کچھ لوگ ہوتے ہیں جو اپنا بزنس کر رہے ہوں یا پروفیشنل جاب وہ اس سے مبرا ہیں ۔
میں آپ کو مایوس نہیں کر رہا حقیقت بیان کر رہا ہوں۔جو پیسہ آپ نے ادھر آنے پر لگانا ہے اپنے ملک میں اپنا کاروبار کریں ملک بھی ترقی کرے گا آپ بھی۔میں مانتا ہوں بہت مسئلے ہیں لیکن جب آپ نیک نیتی کے ساتھ کام کریں گے لگن کے ساتھ تو ایک دن ضرور آپ کامیاب ہوں گے۔انشااللہ
Related
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں