کرپشن معاشرے کا ناسور

کیا ہم اپنے ملک سے کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں؟ کیا اس ملک سے کبھی کرپشن کا خاتمہ ہو سکے گا؟ میرے یہ سوال حکمرانوں سے نہیں بلکہ اس ملک میں بسنے والے بیس کروڑ عوام سے ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ آپکا میرا ہم سب کا جواب ہاں ہی ہوگا۔ ہم سب لوگ کرپشن ، میرٹ کا قتلِ عام، چور بازاری ، ملاوٹ ، لوٹ مار غرضیکہ ایسی لا تعداد معاشرتی برائیوں کا شکار ہیں کہ ہم چاہتے نہ چاہتے ان برائیوں کا رونا روتے ہیں اور پھر کبھی حکومتِ وقت اور کبھی اپنے نصیب کو کوستے ہیں مگر در حقیقت اس چوری، بد عنوانی، میرٹ کے قتل عام، ملاوٹ اور کرپشن ان سب کی جڑیں کہاں ہیں آئیے غور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ آپ کسی بھی سرکاری غیر سرکاری روزمرہ سہولت اور ضرورت کا نام لے کر دیکھیں۔ مثال کے طور پر
ہسپتال: پرائیویٹ ہو یا سرکاری اکثریتی دوائیاں جعلی، سرکاری ہو تو ڈاکٹر کی موجودگی سوالیہ نشان، ڈاکٹرز غیر ضروری ، غیر معیاری اور مہنگی ادویات سے نسخہ اس لئے بھر دیں گے کہ انہوں نے میڈیسن کمپنی سے انکی دوائیاں بیچنے کے لئے کمیشن لیا ہوا ہے، کھابے کھائے ہوئے ہیں، غیر ملکی دورے کیے ہوئے ہیں گھر میں اے سی لگوایا ہوا ہے گاڑی لی ہوئی ہے وغیرہ وغیرہ ۔
تعلیم: ایک چمکتا ہوا کاروبار، غریب کے بچے کے لئے تعلیم اتنی مہنگی کہ اللہ کی پناہ۔ کمپیوٹر، موبائل فون اور گاڑیوں کی طرح تعلیم بھی اب برانڈڈ ہو چکی ہے۔ سرکاری سکول میں بچوں کو تعلیم نہیں ملتی اور پرائیویٹ سکولوں میں غریب کے بچے کو گھر سے فیس نہیں ملتی۔ کاروباری ادارے میں نوکری، اعلیٰ تعلیمی ادارے میں داخلہ اور حتیٰ کہ سرکاری نوکریوں پر بھی مہنگے تعلیمی اداروں سے قیمتی ڈگریاں حاصل کرنے والوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
خوراک: دودھ۔۔ خالص کی تو بات ہی چھوڑیں، اصلی کہاں سے ملتا ہے کوئی نہیں جانتا، مرچیں، دالیں، چاول آٹا زبردست ملاوٹ شدہ، گوشت ہو تو خریدتے وقت دل میں دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ پتہ نہیں بچھڑے کا ہے یا گدھے کا، مرغی زندہ تھی یا مری ہوئی، گھی ہڈیوں کے گودے کا ہے یا واقعی بناسپتی ہے، پچھلے چند سالوں سے وجہ اموات زیادہ تر جگر اور گردوں کی بیماریاں ہیں لیکن کیوں؟
حکومتی دفاتر سے ملنے والی خدمات: اکثر دفاتر میں عملہ یا تو غیر حاضر رہتا ہے یا حاضری لگا کر بھی غریبوں کے لئے غیر حاضر رہتا ہے لیکن صدقے جاؤں قائد سے والہانہ محبت پر ان کی شکل دیکھتے ہی سلیمانی ٹوپی اتار کر عملہ حاضر ہو جاتا ہے لیکن کیوں؟
پاسپورٹ آفس: اگر آپ بادلِ ناخواستہ کسی تعلق داری اور سفارشی پرچی کے بغیر گئے ہیں تو ایک دو دن تو آپ کو فیس کی لائن اور ٹوکن لائن میں ذلیل ہونا پڑے گا لیکن اگر قائداعظم سے والہانہ محبت کرنے والے کسی عقیدت مند کے پاس چلے جائیں جو کہ پاسپورٹ آفس کے باہر ٹھیلے لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں تو آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں مگر ایسا کیوں؟
ٹرانسپورٹ اور ٹریفک: کسی بھی سڑک پر گاڑی کے مکمل کاغذات اور لائسنس ہوتے ہوئے بھی آپ کو منزل تک روانہ ہونے کا اجازت نامہ نہ مل رہا ہو تو ناکہ پر کھڑے سادہ لوح پولیس ملازم کے دل میں موجزن قائد سے محبت کا فائدہ ہی اٹھانا پڑتا ہے، ٹوکن ٹیکس ہو، سرکاری نمبر پلیٹیں بنوانی ہوں تو بھی ایجنٹوں اور قائد کی تصویر والے کاغذ کے ٹکڑوں کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے مگر کیوں؟ اب قائد کے احسانات کا بدلہ کہاں کہاں دیں گے؟ اس سوال کا جواب اپنے اندر تلاش کریں، سوچیں ! ہم بحیثیت قوم کس منزل کی طرف رواں دواں ہیں، سوچیں، ہمیں کون مجبور کرتا ہے کہ ہم پاسپورٹ آفس جا کر ایجنٹوں سے ڈیل کر کے اضافی پیسے دے کر پاسپورٹ بنوائیں، ہمیں کون مجبور کرتا ہے کہ ہم ڈومیسائل بنوانے کے لئے ایجنٹوں کو رشوت دیں، ہمیں کون کہتا ہے کہ ہم بچوں کا پیدائش اندراج نہ کروائیں اور دیر سے کروانے پر رشوت بھریں، ہمیں کون کہتا ہے کہ ہم اپنی غربت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک فٹ پاتھ پر ریڑھی یا ٹھیلہ لگا لیں جس سے آنے جانے والوں کو دشواری کا سامنا ہو، ایمبولینس راستے میں رکی رہیں، دودھ مرچوں اور دوسری اشیاء خورد و نوش میں ملاوٹ کون کرتا ہے ،کیمیکل سے دودھ بنانے پر کون مجبور کرتا ہے؟میرٹ کا قتل عام کون کرتا ہے حکومت یا ہم لوگ جو نوکری کے لئے اپلائی کرنے سے پہلے رشوت کے پیسے اکٹھے کرنے لگ جاتے ہیں اور ایم این اے، ایم پی اے کے ڈیروں پر سفارش کے لئے روزانہ چکر لگاتے ہیں، سکولوں میں پڑھانے والے یا سرکاری دفاتر سے غائب رہنے والے ہم ہی لوگ ہیں یا ہمارے وزیر ایسا کرنے کا حکم نامہ دیتے ہیں۔ جعلی دوائیاں بنا کر ڈاکٹروں کو لالچ دے کر بیچنے پر کون اکساتا ہے؟ ہمارے ہی جیسا غریب آدمی۔ ہم اس قدر بدحالی کی طرف جا رہے ہیں کہ ایک جوتا پالش کرنے والے کو جوتا پالش کرنے کے لئے دے کر اگر وہاں سے چلے جائیں تو دل میں دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ پتا نہیں اس نے صحیح طرح پالش کیا بھی ہو گا یا نہیں۔ دراصل مسئلے کو اس کی بنیاد سے سمجھنے کی ضرورت ہے اور مسئلے کو نہیں اس کی وجوہات کو درست کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم نہ جانے کونسی جلد بازی کا شکار ہیں یہ ایجنٹ مافیا حکومتی اہل کار نہیں بلکہ ہماری ہی ضرورت کی پیداوار ہیں، ہم لائن میں لگنے کو اپنی شان میں گستاخی سمجھتے ہیں کہ کوئی دیکھے گا تو کیا کہے گا کہ میری ذرا بھی واقفیت نہیں ہے، ہم ہی ہیں جو ناجائز منافع خوری کے لئے جعلی ادویات، جعلی دودھ بنانے حتیٰ کہ گدھے کا گوشت تک بیچنے سے اجتناب نہیں کرتے ، ہم ہی ہیں جو کلاس سے غیر حاضر رہ کر حاضریاں پوری کروانے کے لئے شارٹ کٹ ڈھونڈتے ہیں، ہم ہیں جنہوں نے ہمارے ہی جیسے پولیس اہلکاروں اور دیگر سرکاری ملازمین کو قائد کی تصویر والے کاغذ کے ٹکڑوں کا دیوانہ بنا رکھا ہے۔ ان تمام معاشرتی برائیوں کی جڑیں ہمارے ہی وجود سے نکلتی ہیں اور ہماری ہی ہوس، لالچ ، جلد بازی اور اقرباء پروری سے یہ برائیاں اس معاشرے کا ناسور بنتی جا رہی ہیں، ہم کرپشن اور بدعنوانی کو اپنے لئے جائز اور وقت کی ضرورت اور دوسروں کے لئے حرام سمجھتے ہیں۔ اس کے علاج کے لئے ہمیں صرف اپنی چند عادتیں بدلنا ہیں، کوئی لمبی چوڑی مشقت ہرگز نہیں کرنی۔ قانون اور قواعدو ضوابط کو اختیار رکھنے کے باوجود نہ توڑیں، اپنے فرائض کی انجام دہی دیانت داری سے کریں اور
بلاوجہ جلد بازی کا شکار ہونے سے بچیں، جس میں راتوں رات امیر ہونے کا خواب بھی شامل ہے۔ یقین مانیے آپ ایک ہزار سال تک حکومت کو کوستے رہیں سوشل میڈیا پر جتنے بھی بڑے تجزیہ نگار بن جائیں لوگوں کی برائیاں اور کرپشن ثبوتوں کے ساتھ دکھاتے رہیں کوئی فرق نہیں پڑے گا جب تک آپ اپنی ذات سے جڑی ہوئی کرپشن، بد عنوانی اور لالچ کی جڑیں خود ختم نہیں کرتے، تب تک انقلاب نہیں آئے گا۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن ۔

Facebook Comments

نعمان نصیراعوان
سماجی شعبے میں عوامی خدمت کا کام کرتا ہوں اور سماجی مسائل کو اجاگر کر کے حل کی طرف لے کر جانا شوق ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply