ماں کی مامتا سے محروم بیٹے کا اپنی ماں کےنام خط

پیاری امیّ جان
السلام علیکم!

امید ہے کہ آپ کے مزاج اور صحت بخیر ہوں گے اور آپ کی سوئی ہوئی مامتا ابھی زندہ ہوگی۔ یاد ہے آپ کو جب میری عمر چار سال تھی اور آپ زرا سی تلخی پر ابّا جان اور مجھے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر چلی گئی تھیں۔ امی جان میں زندگی کی اب چھبیسویں بہار دیکھ رہاہوں لیکن آپ کے بغیر بائیس بہاروں کے ہر سیکنڈ، ہر منٹ اور ہردن کا حساب ہے میرے پاس۔ میرے اندر ایک سوال ہر روز صبح دستک ہے کہ ”مامتا کیاہے؟” وہ مامتا جسکی وجہ سے ماں کے قدموں تلے جنت ہوتی ہے، وہ مامتا جسکی وجہ سے ماں کا درجہ افضل ہے اور وہ مامتا جسکی وجہ سے ہر دکھ، ہر تکلیف میں امی جان آپ یاد آتی ہیں۔ لیکن میں پوچھنے کا حق آپ سے محفوظ رکھتا ہوں کہ آپ کی مامتا اتنی سفاک اور اتنی خود غرض کیوں ہوگئی جس نے آپ کے ضمیر پر آکر ایک بار بھی دستک نہیں دی کہ آپ کے بچے بھی ہیں؟ آپ کاکوئی انتظار کررہا ہو گا؟

جب کسی سے ڈانٹ پڑتی ہے تو دل دہل جاتا ہے، آنکھوں سے آنسو بہتے ہیں اور آپ یاد آتی ہیں۔ لیکن امی جان گزشتہ بائیس سالوں میں آپ نے ایک بار بھی اپنے بچے کو ملنا گورا نہیں کیا۔ آخر کیوں؟ امّی جان میری زندگی کا ہر پل اضطراب میں مبتلا ہے، ہر لمحہ کرب سے لبریز ہے لیکن آپ کی مامتا کبھی بوجھل نہیں ہوئی؟

امّی جان خاندانی زندگی میں تلخیاں، لڑائیاں ہوتیں ہیں، جھگڑے ہوتے ہیں، لیکن اس کا مطلب نہیں ہوتا کہ آپ اپنی اولاد کو پس پشت ڈال کر اپنی علیحدہ اور خالی زندگی کا آغاز کردیں۔ ایسی زندگی جس میں اولاد کی قربانی، مامتا کا قتل اور سفاکی شامل ہو۔

امی جان آپ کے بغیر میرا بچپن ادھورا تھا، میں آج بھی آپ کے ہاتھ کا بنا دودھ پینے کو ترس رہا ہوں۔ امی جان میں آج بھی آپ کے پہلو میں سر رکھ کر سونا چاہتاہوں۔ امی جان بچپن میں آپ کے بغیر میری ضدیں ادھوری، میرے شوق نامکمل رہے اور خواہشات نے خودکشی کرلی۔ امی جان آپ کے بغیر مجھے غلیظ طعنے ملے، مجھے زمانے کی سننی پڑیں، مجھے مختلف ہدایات دی گئیں۔ لیکن ان تمام باتوں کو رد کرنے کی کوشش میں مجھے ایک سوال باربار تنگ کرتا ہے کہ ” آپ کیسی ماں ہیں جس نے اپنی انا کی تسکین کی خاطر اپنے بچے تیاگ دئیے۔” آج میری زندگی میں لفظ مامتا اور ماں بے معنی ہیں۔ آج مجھ سے کوئی پوچھے کہ مامتا کیا ہے؟ آج کوئی پوچھے ماں کیا ہے؟ میں اس کا کیا جواب دوں کہ ماں کے معنی ضمیر پر پتھر، اولاد کے جذبات کے خون کا نام ہے؟

امّی جان جب لڑکپن کی پوہ پھوٹتی ہے تو ہزاروں خواہشیں جنم لیتی ہیں۔ کپڑے ایسے ہوں، گیٹ اپ ایسا ہو وغیرہ وغیرہ۔ لیکن میرا لڑکپن اسی انتظار میں گزر گیا کہ آپ آئیں گی اور میرے لئے کپڑے لائیں گی۔ امّی جان میٹرک کے دنوں میں مجھے بڑا شوق تھاکہ میں بھی اپنے سکول بیگ میں لنچ باکس رکھ کر لے جاتا اور بریک ٹائم دوستوں کے ساتھ کھاتا۔ لیکن امی جان میری یہ حسرت ، حسرت ہی رہ گئی کیونکہ گھر میں تو روٹی بمشکل کوئی پکا کردیتا تھا۔ اگر پک بھی جاتی تو ہزار طعنوں سے بھری ہوئی۔ امی جان میرے بچپن میں لگی آگ کو لڑکپن نے مزید بھڑکایا اور میں وقت سے پہلے ہی بڑا ہونے لگا۔ میرے اندرایک ایسا جوان جنم لے چکا ہے جس کے نزدیک عورت کی کوئی اہمیت نہیں، ماں کے نام سے نفرت ہے اور کوئی وفا کا کہے تو وہ بڑا جھوٹا ہے۔

امّی جان جب میں بچپن اور لڑکپن کی تلخیاں دامن میں بھرے جوانی کی سرحد پر پہنچا تو آگے سے جواب آیا ” شادی کرلو”۔ میں نے کہا کیوں؟
جواب ملا، اکیلاپن دور ہوجائے گا، مشاورت میں مدد ملے گی اور تمہارے ابّا بھی تو بوڑھے ہوچکے ہیں۔
میں نے کہا، کس سے شادی کروں؟
جواب ملا، کسی نیک لڑکی سے!
میں نے کہا، کون نیک لڑکی؟
کہا وہ جو تمہاری شریک حیات بنے گی، تمہارے بچوں کی ماں بنے گی۔
امّی جان جب لفظ ماں میرے کانوں نے سنا، میرا وجود یک لخت اک عذاب سے گرز گیا، میری روح دہل گئی اور میری زبان نے فوراً کہا، نہیں نہیں۔
بھائی کیوں، کس لیے نہیں؟
کہا بے وفا، سفاک اور خود غرض یہ ہے عورت۔
آخر کیوں ؟
سارا قصہ سنایا تو جواب آیا، جا اپنی ماں کے پاس اور اپنی بھڑاس نکال۔

امّی جان اب میں اپنے سوالوں کے جواب کی تلاش میں ہوں ، میں آپ کی تلاش میں ہوں۔ کہاں ہیں آپ؟ آجائیے میرے سوالوں کے جواب دیجیے۔ امّی جان سنا ہے کہ قیامت کےدن بچے کو ماں کے نام سے اٹھایا جائے گا۔ لیکن آپ تو میرے پاس ہیں ہی نہیں تو کیسے اٹھائیں گے؟
امّی جان زیادہ تعلیم اور وہ بھی غربت میں کسی عذاب سے کم نہیں۔ امی جان آپ کے بغیر زندگی بوجھل ہے، میری تحقیق ادھوری ہے۔ امّی جان جلدی آ جائیے، مجھے اپنی گود میں لیجیے اور پچپن یاد دلا دیجیے۔ میں آپ کی راہیں تک رہا ہوں، میں ہر روز صبح دروازے پر کھڑا ہوتا ہوں کہ شائد آپ آجائیں، امی جان آپ آ جائیے میرا انتظار ختم کردیجیے، میرے سوالوں کے جواب دے دیجیے اور مامتا کے معنی سمجھا دیجیے۔ امّی جان آ بھی جائیے۔

Advertisements
julia rana solicitors

والسلام ،
آپکا غمگین بیٹا،
محمود شفیع بھٹی

Facebook Comments

محمود شفیع بھٹی
ایک معمولی دکاندار کا بیٹا ہوں۔ زندگی کے صرف دو مقاصد ہیں فوجداری کا اچھا وکیل بننا اور بطور کالم نگار لفظوں پر گرفت مضبوط کرنا۔غریب ہوں، حقیر ہوں، مزدور ہوں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply