ٹائم فریم۔۔چوہدری نعیم احمد باجوہ

سوشل میڈیا پر میں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی پر ایک تبصرہ پڑھا کہ ’’ جج صاحب جج بنیں مولوی نہ بنیں ‘‘ْ اس پر مجھے ایک لطیفہ یاد آگیا ۔

کہتے ہیں کسی نے ایک شخص کو چوری کرتے دیکھااتفاقاً اس چور کی داڑھی بھی تھی ۔اس پر دیکھنے والے نے کہا توبہ توبہ کیسا زمانہ آگیا ہے کہ مولوی بھی چوربن گے ہیں۔ یہ بات سن کر کسی منچلے نے تبصرہ کیا کہ مولوی چور نہیں بن گئے، چوراں نے داڑھیاں رکھ لیاں نیں ۔ یعنی مولوی چور نہیں بن گئے چوروں نے داڑھیاں رکھ لی ہیں۔

واقعتاً کچھ ایسی ہی افسوسناک صورت حال وطن عزیز میں روز بروز ترقی پذیر ہے ۔ مذہب کی چادر اوڑھ کر اپنے ننگ چھپانے اور دنیا کو دھوکہ دینے کی کوشش رواج پکڑ گئی ہے ۔ دا ڑھی والے ’’ چور‘‘ مذہب پر ایسے گفتگو کرتے ہیں جیسے اس تاریک دور میں فقط وہی اک مینارہ روشنی ہوں۔ کچھ ایسا ہی مینارہ روشنی اور حواس باختہ قوم کا ہیرو بننے کی خودساختہ خواہش آج کل ایک معزز منصب پر فائز جناب جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کی ہے ۔ ان کا ایجنڈا کیا ہے ؟۔ خواہشات کیا ہیں۔۔بقول شکیب جلالی۔۔

کوئی اس دل کا حال کیا جانے
ایک خواہش ہزار تہہ خانے!

ان دیکھی خوشیوں اور خواہشات کی تکمیل میں ایک مقدمے کی سماعت کے دوران میں دیگر غیر متعلقہ معاملات کوگھسیٹتے چلے جا رہے ہیں۔ موصوف اپنی بانجھ خواہشات کے ساتھ خود بھی اس گڑھے کے کنارے پہنچ گئے ہیں جہاں سے کوئی آج تک باہر نہ آسکا۔
معزز جج صاحب اپنے فرض منصبی سے بہت دور جا کر خالق او رمخلوق ، عبد اور معبود   کے درمیان کھڑے ہو نے کی کوشش فرما رہے ہیں ۔

کہتے ہیں ایک دفعہ ارسطو کسی جگہ بیٹھا اپنے انداز سے غور و فکر میں مصروف تھا ۔ اچانک اس جگہ سے حاکم وقت کا گزر ہوا ۔ بادشاہ رکا اور ارسطو سے کہا آپ کو کسی چیز کی حاجت ہے تو بتائیے تاکہ اسے پورا کر دیا جائے۔ ارسطو نے نے کمال عظمت ،شان اور جرأت سے بادشاہ کو غلطی کی طرف توجہ دلائی ا ور کہا جناب والا ! مجھے کچھ نہیں چاہیے ۔ آپ براہ کرم میرے اور میری طرف آنے والی آسمانی روشنی کے درمیان حائل نہ ہوں ۔

یہی التجا آج ہر صاحب عقل و ایمان موصوف جج صاحب سے بھی بزبان حال و قال کر رہا ہے۔ جناب معزز جسٹس صاحب آپ میرے اور میرے خدا کے درمیان سے ہٹ جائیں ۔ اس جگہ کھڑے ہونے کی زحمت نہ فرمائیں جہاں کسی کو بھی کھڑے ہونے کی اجازت نہیں ۔
جناب شوکت عزیز صدیقی صاحب۔ آپ کس حکم خداوندی کے تحت اسلام میں داخل ہونے اور اسلام سے نکلنے پر پہرے بٹھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں ۔ یاد رکھیں ہر دور میں ایسی کوششیں ناکامی و نامرادی کا منہ دیکھتی رہی ہیں۔ اوراس کی وجہ یہ ہے کہ خا لق و مالک نے ا س معاملے میں گھسنے کی کسی کو اجازت کبھی دی ہی نہیں ۔ اس نے کبھی کسی کو اپنے اور اپنے بندے کے درمیان حائل ہونے کا اذن نہیں دیا ۔ ہمیشہ ایسی رکاوٹ ڈالنے والوں کو نیست و نابود کر کے نشان عبرت بنا دیا ۔ اگر آپ کلام الٰہی کا تھوڑا سا مطالعہ فرمالیں تو معاملہ بہت روشن ہو جائے ۔آپ کی سہولت کے لئے کائنات کے مالک کا یہ اعلان پیش خدمت ہے :
فرمایا ’’ اعلان کر دیجئے کہ تمہارے رب کی طرف سے دین حق آگیا ہے۔ پس جو چاہے ایمان لے آئے اور جو چاہے انکار کر دے۔ (سورہ کہف)

خدا تعالیٰ نے اپنے سب سے پیارے اور وجہ تخلیق کائنات ﷺ فدا ہ ابی و امی، کے ہاتھ میں بھی یہ اختیارنہ دیا کہ کسی کے ایمان کافیصلہ فرمائیں ۔ آپ ﷺ کو یہ اختیار نہ ملا کہ نو مسلموں کو کبھی کوئی وارننگ جاری کریں ۔ کوئی ٹائم فریم دیں ۔ کیا آپ نے سنا یا پڑھا کہ نو مسلموں کو کبھی ٹرائی پیریڈ پر مسلمان بنا یا گیا ہو ۔کبھی یہ کہا گیا ہو کہ دو تین ماہ نمازیں وغیرہ پڑھ کے ٹرائی کر لیں۔ اگر واپس جانا ہے تو اس عرصے میں جانا ہو گا۔ بعد ازاں یہ دروازہ ہمیشہ کے لئے بند ہو جائے گا ؟ پھر یہیں جینا مرنا ہو گا ۔ ہمیشہ کے لئے مسلمان ہی رہنا ہو گا خواہ تمھارا دل مطمئن ہو یا نہ ہو ۔ نماز پڑھو یا نہ پڑھو ، روزے رکھو یانہ رکھو،حج کرو یانہ کرو، زکوٰۃ دو یا نہ دو لیکن خبردار مسلمانی کا ٹائٹل چھوڑا تو ۔ کیا کبھی کسی دور میں ایسا ٹائم فریم دیا گیا  ؟

جناب جسٹس صاحب ! بطور ایک عام انسان اور دنیا دا رہی اپنے شعور و فکر کو تھوڑی زحمت دے لیجئے کہ آزادی انسان کا بنیادی حق ہے ۔ کیا عدل فاروقی کے نعرے لگانے والوں تک سیدنا عمر فارق رضی اللہ عنہ  کا یہ ارشاد گرامی نہیں پہنچا۔ جب انہوں نے بصرہ کے گورنر حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ کو ڈیوڑھی میں دربان کھڑے کرنے پر ڈانٹ دیا۔ اور فرمایا خدا تعالیٰ نے انسانوں کوآزاد پید اکیا ہے تم نے کب سے انہیں غلام بنانا شرو ع کر دیا ۔

دنیوی قوانین میں بھی آزادی کو بنیادی حق جبکہ گرفتاری او رقید کو مجبوری مانا جاتا ہے ۔جہاں تک ممکن ہو عدالتیں ملزم کو آزاد کرنے اور ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دیتی ہیں ۔ سوائے اس کے کہ یہ ثابت کر دیا جائے کہ ا س شخص کا آزاد رہنا خطرناک ہے ۔مذہبی معاملات میں بھی آزادی بنیادی حق ہے۔ مذہب پر پابندیاں لگانے کی خواہشات پالنے والے اور ایسی کوششیں کرنے والے ہر دور میں ظالم جابر ، فرعون اور ابو جہل کہلائے   اورہر فرعون ہر ابو جہل اپنے بد انجام کو پہنچا ۔

میڈیا کے مطابق جسٹس صاحب نے کہا کہ ’’شناختی کارڈ میں مذہب کی تبدیلی کے لئے صرف دو یا تین ماہ رکھیں ۔‘‘
آئیے اس دشمن حکمت اور  ر از عقل و خرد حکم کا جائزہ لیں ۔ بالفرض آج ایک شخص عیسائی ہے ۔اس کا شناختی کارڈ بطور غیر مسلم بن جاتا ہے ۔ اگلے سال وہ اسلام کی خوبصورت تعلیمات سے متاثر ہو کر مسلمان ہونا چاہتا ہے۔ لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسے نیا شناختی کارڈ تب ملے گا جب وہ آنجناب کی عدالت سے اپنی مسلمانی پر ٹھپہ لگوائے گا۔ اگر عدالت کو تسلی نہ ہوئی کہ یہ شخص دل سے اسلام قبول کررہا ہے یا ’’مسلمانوں‘‘ کی صفوں میں گھس کر کوئی کارروائی کرنا چاہتا ہے تو پھر کیا ہو گا؟ ۔ اوروہ منظر کیساہو گا جب آپ کی عدالت یہ حکم جاری کرے گی کہ اس نو مسلم کو مسلمان ’’بنایا ‘‘ جائے ۔ پھر اس حکیم ، نائی ڈاکٹر یاہسپتال کی باتصویر رپورٹ آپ ملاحظہ فرما کر اس پر مسلمانی کی مہر تصدیق ثبت کریں گے۔

اوراگر آج ایک شخص بطور مسلمان رجسٹریشن کرواتا ہے ۔ لیکن ایک سال بعد وہ آپ کے ’’ سرکاری اسلام ‘‘ میں نہیں رہنا چاہتا ۔ اس کا دل مطمئن نہیں تو کیااسے اور اس کی آئندہ نسلوں کو منافق بن کر جینا پڑے گا ۔ بالفرض وہ آپ کے سرکاری اسلام سے نکلنے کے لئے بصد احترام آپ کے حضور حاضر ہو ۔ اور دست بستہ سر جھکائے یہ عرض کرنے آ بھی جائے کہ حضور والا مجھے آپ کے مذہب میں نہیں رہنا۔ کیونکہ آپ کے اعمال بنی رحمت ﷺ کی سنت مطہر ہ سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ مسجد و محراب و منبر کے جھگڑے نے مجھے اس مذہب سے دل برداشتہ کر دیا ہے ۔ میں اس امام کے پیچھے نما زپڑھنے سے قاصر ہوں جو مسجد میں ننھے بچوں کے ریپ اور بعد ازاں قتل میں ملوث ہے۔ میں اس’’ مسلمان ‘‘ قاری کے پاس اپنے بچے قرآن پڑھنے کے لئے نہیں بھیج سکتا جسے میں نے خود مسجد میں آنے والے معصوم بچوں کے ساتھ جانوروں سے بد تر سلوک کرتے دیکھا ہے۔ میں اس ’’ مولانا ‘‘کو اپنی زکوٰۃ نہیں دے سکتا جو سالہا سال سے یتیموں اور بیواؤں کا حصہ کھاتا چلا جارہا ہے ۔ جس نے زکوٰۃ اور صدقات سے اپنی محل نما کوٹھی توبنالی ہے۔ لیکن مسجد کے ساتھ والے مکان میں یتیم بچوں اور بیوہ کی خبر گیری کبھی نہیں کی۔ امامت کے ’’ وظیفے ‘‘ سے اپنی عالیشان گاڑی تو لے لی لیکن منبر رسول پر چڑھ کر رالیں پھینکتے ہوئے ہمیں سادگی کا درس دیتے نہیں تھکتا ۔

حضور والا! مجھے سیاسی اور ذاتی مقصد کے لئے قتل کے فتوے دے کر اور فساد فی الارض کرنے والی مساجد کے محراب و منبر سے نفرت ہو گئی ہے ۔ ختم نبوت کے عظیم الشان اور مقدس خطاب سے کھلواڑ کرنے والے گندے سیاسی کارندوں کی تقریروں سے جی اکتا گیا ہے۔ اس پاک نام کی آڑ میں فحش گالیاں سننے کی برداشت ختم ہوگئی ہے۔ توہین رسالت کے بے بنیاد الزام پربے گناہ لوگوں کو زندہ جلانے کے عمل کو دیکھنے اور اس کا حصہ بننے کی سکت جواب دے گئی ۔ حضور والا ! مجھے ا س’ ’ اسلام ‘‘ سے مخلصی درکار ہے ۔مجھے اس مذہب سے باہر جانے کی  اجازت مرحمت فرمائیں ۔

کیا آپ اور آپ جیسی ’’عقل سلیم ‘‘رکھنے والے ’’معزز جج صاحبا ن‘‘ کی عدالت عالی وقار اسے بصد مسرت و احترام جانے کی اجازت عطا فرمائے گی؟ ۔۔۔ ہر گز نہیں!بلکہ اسے کافر و زندیق و مرتد جان کر ، مفت کی جنت کے حصول کے خواہاں ، ’’ مجاہدین ‘‘ کے حوالے کیا جائے گا۔’ جہاد فی سبیل اللہ‘‘کے منتظر جیالے اس کے خون کے پیاسے ہوں گے ۔ شاید آپ کی معزز عدالت سے باہر نکلنے سے پہلے ہی اس کے بیوی بچے مار دئیے گئے ہوں گے ۔ گھر جل کر گر رہا ہوگا۔ ایک ہجوم بیکراں اچھلتا کودتا ، نعرے لگاتا ، اسلام کو بچاتا فتح کا جشن منا رہا ہو گا ۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں انسانیت جل رہی ہو گی اور دنیا ہمیں لعن طعن کرر ہی ہو گی ۔اور ہمارے اسلام کا مذاق اڑا رہی ہوگی ۔

شوکت عزیز صدیقی صاحب مذہب کے معاملے میں دخل اندازی اور قدغنیں لگانے کی مثال پھسلن زدہ چٹان کی طرح ہے ۔ اس پر آج تک کوئی کھڑا نہ ہو سکا ۔ آپ بھی کھڑے نہ ہو پائیں گے۔ یہ وہ چٹان ہے جس سے جب پھسلن شروع ہو جائے تو رکنا ممکن نہیں اور انجام بخیر نہیں ہوتا ۔ جس نے بھی اس چٹان پر قدم جمانے کی کوشش کی اس کا انجام عبرت ناک ہوا ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

پاک سر زمین میں اسی پھسلتی چٹان پر اپنے اقتدار کی عمارت بلند کرنے کے چکر میں پاپولر عوامی لیڈر کو گلیوں میں گندی گالیوں کی گونج خود سننا پڑی ۔ دوسروں کے مذہب کا فیصلہ کرنے والے کو اپنا ایمان ثابت کرنے کے لئے رلتے اور روتے دیکھا گیا ۔ اس نے بھی خدا اور بندے کے درمیان کھڑے ہونے کی لا حاصل کوشش کی تھی ۔ اسے تو بعد موت بھی خاص’’ فوٹو سیشن ‘‘کے بغیر دفن ہونے کی اجازت تک نہ ملی۔ پر بعد میں  آنے والے نے بھی اس سے سبق نہ سیکھا۔ وہ خود کو مطلق العنان سمجھتا تھا  اور خود کو بڑا پہلوان تصور کرتے ہوئے اس پھسلتی چٹان پر قدم جمانے کی کوشش میں جہنم تک لڑھکتا چلا گیا ۔
آپ کو بھی متنبہ تو کیا جا سکتا ہے کہ اس پھسلتی زمیں پر قدم نہ رکھیں کہ اس کا شمار محارم اللہ میں ہوتا ہے ۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ جب تعصب اس قدر بڑھ جائے کہ
’’آنکھ کے اندھوں کو حائل ہو گئے سو سو حجاب ‘‘ تو واپسی مشکل ہو اکرتی ہے ۔ ایسے معاملات میں انجام کوئی انوکھا نہیں ہوتا بلکہ وہی ہوتا ہے جو ازل سے مقدر ہے ۔تاریخ کی سرچ لائٹ ایسے وجودوں کے ’’کارناموں‘‘ کے ننگ ظاہر کر کے نشان عبرت بنا دیا کرتی ہے ۔ فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے!!

Facebook Comments

چوہدری نعیم احمد باجوہ
محبت کے قبیلہ سے تعلق رکھنے والا راہ حق کا اایک فقیر

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply