• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تصوف وصوفی ازم دفاع اسلام کا ذریعہ۔۔علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی

تصوف وصوفی ازم دفاع اسلام کا ذریعہ۔۔علامہ پیر محمد تبسم بشیر اویسی

تصوف،صوفیانہ مسلک ،صوفی ازم اور صوفیانہ ورثہ یہ ایسے الفاظ اور اصلاحات ہیں جن کی تفہیم اور تشریح میں بے شمار ابہام پوشیدہ ہیں ۔مگر اس فلاسفی کا انسانی سماج کے ساتھ انتہائی گہرا اور عمیق ترین رشتہ موجود ہے ۔مغرب ہو یا مشرق بے شمار انسانوں نے اس نامعلوم صداقت کی جستجو مسلسل جاری رکھی ہے ۔بلکہ ایسے افراد اور فلسفی جو بظاہر اس جہت کے خلاف مانے گئے ان کے خیالات و افکار میں بھی کہیں نہ کہیں ہمیں اس روشنی اور آگہی کے اس مرکز کی جستجو یا اس ادراک کی خواہش ملتی ہے ۔جسے ہم تصوف یا صوفی ازم کہتے ہیں۔

تصوف:تصوف تو حقیقت میں اسلام ہی کا نام ہے ،یہ کوئی نئی چیز یا اچنبہ عمل نہیں ہے اس کی بنیاد آیت قرآن :ان اللہ مع الذین التقو والذین ھم محسنون۔ترجمہ’’ اللہ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ سے کام لیتے ہیں اور احسان پر عمل کرتے ہیں ۔‘‘
اس آیت کے تحت ’’احسان ‘‘ روحانی ترقی کی اعلیٰ ترین منزل کا نام ہے احسان کی وضاحت میں ایک حدیث وارد ہوئی ہے جس کا ترجمہ ہے ’’احسان اس کا نام ہے کہ عبادت کرو اللہ تعالیٰ کی اس طرح کہ گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو پس اگر یہ مقام مشاہدہ تم حاصل نہ کر سکو پھر عبادت کرو اس طرح کہ یہ تصور رہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دیکھ رہا ہے ۔‘‘

مقام احسان کے حصول کا علم تصوف ہے ۔ کچھ لوگوں کو لفظ تصوف سے یہ اشتباہ ہوتا ہے کہ اس کا ذکر قرآن و حدیث میں نہیں ہے ۔اس لئے یہ خارج الاسلام طریقہ ہے۔ لوگوں میں اس علم پر شک کرنے کی ایک وجہ بے شک یہ بھی رہی ہے کہ اس کے بہت سے مدعیوں نے اپنی روش سے بھی اس کو بد نام کیا ہے۔ مسلمانوں کی بدعملی سے جس طرح اسلام مورد الزام نہیں قرار پا سکتا اسی طرح مدعیان تصوف کی غلط روش سے تصوف مذموم قرار نہیں پا سکتا ۔

تصوف کی اصل لفظ ۔’’صوف‘‘ ہے جس کے معنی ’’اون ‘‘ کے ہوتے ہیں ۔اونی لباس زیب تن کرنے والے ’’صوفی‘‘ کہلائے اور اونی لباس(کملی) کا پہننا انبیاء کرام کی روش رہی ہے ۔اس لئے صوفی انبیاء کرام کی روش پر چلنے والے قرار پائے ۔
انسانی معاشرے میں ایسے فراخ دل ،انسانی اقدار کے خوگر ۔مذہبی انتہا پسندی کے مخالف ، انسان کی قدرو منزلت پر یقین رکھنے والے ،ہر قسم کے تعصبات سے پاک، کسی شجر سایہ دار کی طرح مخلوق خدا کو حوصلہ ، ہمت، عزم اور روشنی دینے والے لوگ کون ہیں ؟ ان کی پہچان کیا ہے ؟ ان کی دمکتی پیشانیوں پر محروم و مجبور انسانوں کے لئے کیسی کیسی بشارتیں رقم ہیں ۔ان کے لہجوں میں سچائی اور امان کے کیسے درس ہوتے ہیں ۔ان کے عمل میں کیسی دل پذیری ہوتی ہے کہ لوگ ان کی طرف کھینچے چلے آتے ہیں اور ان کے دامن عافیت میں پناہ لیتے ہیں ۔خودکو فقیر و حقیر اور ناچیز سمجھنے والا انسان گودڑی پوش، اون میں لپٹا کیسے کیسے میٹھے بول بول لیتا ہے۔یہ لوگ عرف عام میں ’’صوفی‘‘ کہلائے۔ خدا،انسان، کائنات، ہر ذی روح اور خیر سے محبت کرنے والے، سراپا خیر ،اگر تصوف و صوفی ازم کی ابتداء پر غور کریں تو اس کو حضرت سیدنا آدم علیہ السلام سے پاؤ گے ۔ اس عالم میں پہلے صوفی حضرت سیدنا آدم علیہ السلام ہیں ۔جن کو مٹی سے پیدا کیا گیا۔ پھر قرب خاص عطا فرمایا خلافت عطا فرمائی اور صوفی بنایا۔

ان خاص معاملات کو اشاروں کے طور پر دیکھتے جائیے کہ صوفی کیسے بنائے گئے ۔مرید کو آغاز ارادت میں چلہ کرنا پڑتا ہے ۔اول حضرت آدم علیہ السلام نے طائف و مکہ کے درمیان چلہ کیا ۔جیسے ارشاد ہوتا ہے ’’میں نے اپنے قدرت والے ہاتھ سے آدم کی مٹی کو چالیس دنوں میں خمیر کیا ۔‘‘ جب یہ تجدید کا چلہ ختم ہو چکا تو اللہ تعالیٰ نے اس میں روح عنایت فرمائی اور عقل و دانش کا چراغ اس کے دل میں روشن کیا ۔ پھر کائنات نے دیکھا کہ کائنات کے پہلے صوفی کو دل سے زبان تک باتیں آنے لگیں کہ منہ سے انوار واسرار کے پھول جھڑنے لگے۔ جب آپ نے اپنا یہ رنگ دیکھا تو مستی سے جھوم گئے اور خدا کا شکر و احسان بجالائے ۔ نبی اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا’’جس نے خلوص سے دل سے 40دن خدا کے لئے خاص کر دئیے اللہ تعالیٰ اس کی زبان اور دل سے حکمت کے چشمے جاری فرمائے گا۔

صوفیوں کا یہ بھی معمو ل ہے کہ کسی خاص جگہ پر بیٹھ کر آپس میں مل جل کر راز و نیاز کی باتیں کیا کرتے ہیں ۔چنانچہ دنیا کے پہلے صوفی حضرت سیدنا آدم علیہ السلام کی اس خلوت در انجمن کے لئے خانہ کعبہ کی بنیاد ڈالی گئی ۔یعنی دنیا میں پہلی خانقاہ کعبہ معظمہ ہے ۔اس سے پہلے کسی خانقاہ کا وجود نہ تھا ۔خرقہ اور خانقاہ کی اصل حضرت آدم علیہ السلام کے وقت سے قائم ہے ۔پھر حضرت نوح علیہ السلام نے دنیا میں صرف ایک کمبل پر اکتفا کیا جو ان کو عنایت فرمایا تھا ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی ہمیشہ جامہ صوف پہنا کرتے تھے ۔پھر جب دور مبارک حضرت محمد ﷺ آیا تو سرکار دو عالم علیہ السلام نے بھی اسی طرح کمبل اختیار فرمایا اور اسی خانقاہ کعبہ شریف کا قصد فرمایا علاوہ اس کے خود مسجد نبوی شریف میں ایک گوشہ معین فرمادیا ۔اصحاب میں وہ گروہ جو سالکان راہ طریقت تھا اسی گوشہ میں ان سے راز و نیاز کی باتیں ہوا کرتی تھیں ۔اس خاص جماعت صوفیہ کے لوگ قریباً 70اشخاص تھے سرکار مدینہﷺ کا یہ بھی معمول تھا کہ جب کسی صحابی کی عزت و تکریم فرماتے تو ان کو ردائے مبارک یا اپنا پیراہن شریف عنایت فرماتے ۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں وہ شخص’’صوفی‘‘ سمجھاجاتا تھا۔

اب تو آپ کو معلوم ہو چکا ہو گا کہ تصوف کی ابتداء حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی اور اس کو بام عروج تک امام الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺنے پہنچایا۔اس فیضان تصوف کو پوری دنیا میں پہنچایا گیا ۔عرب و عجم کے فرق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صوفی ازم دنیا کے کونے کونے تک پہنچا۔

یہ خوش بختی و خوش نصیبی بر صغیر میں سب سے زیادہ ہمارے حصہ میں آئی کہ اس سر زمین کے سینے پر خانقاہیں ہیں ۔کٹائیں، گھاس ،پھوس کی جھونپڑیاں اور درویشوں ، فقیروں کے ڈیرے آباد ہوئے ۔ا ن سفیران محبت میں خواجہ عبد الخالق اویسی، حضرت شاہ رکن عالم، حضرت داتا علی ہجویری، حضرت خواجہ معین الدین چشتی ،حضرت بابا فرید، خواجہ محکم الدین سیرانی،حضرت سائیں فقیر اللہ اویسی، حضرت سلطان باہو ،بابا بلھے شاہ، حضرت لال حسین ،بدرالمشائخ پیر سائیں محمد سائیں اسلم اویسی اور میاں محمد بخش(رحمۃ اللہ علیہم ) جیسے صوفیاء کرام نے اس سر زمین کو علم و آگہی ،معرفت و طریقت ،فقر ، مذہبی رواداری اور انسان دوستی کی ایسی لازوال خوشبو سے مہکادیا کہ آج تک یہ دھرتی ان خوشبوؤں سے سرفراز ہے اور مسلسل مہک رہی ہے ۔

صوفی ازم و تصوف کی بدولت یہاں کے باسیوں میں درویشی سوز و گداز ،رواداری اور انسان دوستی تہذیب و تمدن بن کر ہمارے رہن سہن کی سب سے بڑی شناخت بن چکی ہے۔ مگر اس کے باوجود ہم ابھی تک تصوف کی ایک جامع تعریف کے متلاشی ہیں ایسی تعریف جو ہماری ہتھیلیوں پر ایسے چراغ روشن کر دے جس کے ذریعے ہم سلوک کی منازل کا مشاہدہ کر سکیں ۔صوفیاء کے افکار میں پیغمبرانہ گہرائی کو محسوس کر سکیں۔حضرت شاہ شمس تبریز نے تصوف ہی کی تلوار سے مولانا رومی   کے عالمانہ زعم کو دو ٹکڑے کر دیا اور رومی  ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تصوف کی ازلی روشنی کا حصہ بن گیا اور عشق کی سر مستی رومی کے روم روم میں سما گئی ۔
صوفیاء کرام کی روحانی کائنات کے سبھی منطقے توحید و رسالت کے مدار پر طواف کرتے نظر آتے ہیں جب بر صغیر میں بھگتی تحریک نے زور پکڑا ۔بھگت کبیر ۔میرابائی یا گرو نانک جیسی شخصیات کی اجتہادی ذکاوتوں نے تصوف کی ہندوستانی شکل میں عمومی سماجی زندگی پر برق رفتاری سے اثرات مرتب کرنا شروع کیے اور تصوف ایک نئی صورت میں عوامی تحریک بن کر ابھر نے لگا تو مسلمان صوفی شعراء نے مسئلہ وحدت الوجود کا سہارا لے کر اس طوفان بلا خیز کے سامنے ایک بند باندھ دیا ۔مسئلہ ہمہ اوست نے خدا، انسان اور مظاہر فطرت کو ہم رشتہ کیا۔ انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کے عظیم منصب اور امتیاز کو ایسی فوقیت عطا کی کہ نامرادی ،سیاسی ،سماجی جبر ،بے بسی اور لاچاری کے اندھیروں میں بھٹکنے والے انسانوں میں اپنی اہمیت اور فضلیت کی لوجل اٹھی ۔خدا اور اس کے بندے سے پیار کا پرچار صوفیاء کی شاعری و تعلیمات کا سب سے مقبول ترین موضوع بنا ۔کیونکہ تصوف براہ راست محبت کا مذہب ہے ۔ یہ دل اور روح کی طرف جانے والا سیدھا راستہ ہے۔ اس لئے انسان کے دل تک رسائی ضروری تھی ۔انسان کو خود شناسی اور اعتماد کی دولت سے سرفراز کرنا تھا ۔اسی لئے صوفیاء کرام نے اپنے افکار و اشعار میں سب سے زیادہ انسان کو مخاطب کیا ہے ۔کیونکہ کائنات کا حسن بھی انسان سے ہے اور خدا کی لازوال محبت کا مقصود بھی انسان ہی ہے ۔

انسان ہی حق تعالیٰ کی صفات کا مظہر اورحکمت و دانش، عشق و سرمستی ،نامعلوم کی جستجو اسی کی سرشت میں شامل ہے۔ جب خود شناسی و خود آگہی کی منزل انسان طے کر لے تو دست نگر رہنے کی بجائے وہ دستگیری کے بلند مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔ معرفت ذات کے ساتھ اسے معرفت خدا بھی حاصل ہو جاتی ہے کل جہاں اس کی دسترس میں ہوجاتے ہیں ۔یہی وہ درس عظیم تھا جو صوفیاء کرام نے قوانین اسلام کے مطابق یہاں بسنے والے ہر انسان کو دیا جس سے ان کے دلوں میں خود شناسی کی ایک نئی روح پیدا ہو گئی۔ اس سر زمین کی فضاؤں میں صوفیاء نے جذب و مستی ،فقر و درویشی ،محبت و عاجزی ،ایثار و تعظیم ،قناعت و خوشی اور ازلی و ابدی صداقتوں کی ہر سو روشنی بکھیر دی۔

مذکورہ بالاسطور سے نتیجہ نکلتا ہے کہ تصوف خلاف اسلام نہیں بلکہ اسلام کی اشاعت کا بہترین ذریعہ ہے ۔تصوف کسی خاص طبقے کی میراث ہی نہیں بلکہ تصوف کا رشتہ عوام سے بھی بڑا گہرا ہے ۔تصوف کا تعلق براہ راست ایمان اور وجدان سے ہے۔ تصوف کے بنیادی مطالب مشرق و مغرب میں کم و بیش یکساں ہیں ۔جن میں اصل ہستی ذات باری تعالیٰ ہے جو سب کا رب ہے جو بے امتیاز کافر و مومن کو رزق دیتا ہے ۔خدا تک پہنچنے کیلئے تصوف کی راہ اور صوفی ازم کو اختیار کرنا چاہیے ۔جو انسان کوشکوک و شبہات کی بھول بھلیوں سے نکال کر ان خطوں میں لے آتا ہے جہاں رحم و شفقت کی کرنیں سب پریکساں پڑتی ہے ۔تصوف کے راستہ پر چلنے کی شرط یہ ہے کہ انسان اپنے دل کو پاک و صاف کرے اور شریعت اسلامیہ کا پابند ہو ۔صوفی ازم اور تصوف کی منزلیں ایسی دشوار گزاہیں کہ منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے ایک ہادی و رہبر کی ضرورت پڑتی ہے۔ جس کو پیر و مرشد کہتے ہیں ۔اصطلاح صوفیاء میں جب انسان کا دل پاک و صاف ہو جاتا ہے تو وہ مختلف منزلوں سے گزرنے کے بعد وجد اور استغراق کے مرحلوں سے گزر کر ذات الہٰی کا قرب حاصل کر لیتا ہے۔ یہ بڑا بلند مقام ہے اور اسے فنافی اللہ کہتے ہیں اور بعض صوفی مدعی ہیں کہ اس کے بعد بھی ایک مقام ہے جس مقام بقاء کہتے ہیں ۔

نکلس نے کہا تھا’’تصوف صوفیائے کرام کا مذہب ہے جس میں تزکیہ نفس کا طریقہ اختیار کر کے قلب کی صفائی کی جاتی ہے اور صوفی پر ہیز گار بھی ہوتا ہے وہ غیر حق کو اپنے دل سے نکال دیتا ہے ۔ایک محقق کا خیال ہے کہ تصوف در اصل نام ہے واردات قلبی اور جذبات روحانی کا جس کا محرک ہمیشہ عشق ہوتا ہے اور عشق ایک جذبہ محترم ہے جس کے متعلق حکیم الامت علامہ اقبال نے فرمایا:

عشق کے مضراب سے نغمہ تار حیات
عشق سے نور حیات عشق سے نار حیات

مگر اسرارو معارف اور فلسفہ و حکمت کے رموز کو صوفیاء عشق کی گہرائی میں یو ں دیکھتے ہیں ۔
صدق خلیل بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق
معرکۂ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق

کسی شاعر نے عشق کو انسانی ضرورت قرار دیتے ہوئے کہا :

تم نہ مانو مگر حقیقت ہے
عشق انسان کی ضرورت ہے

صوفی شاعر خواجہ غلام فرید  نے اپنی زندگی کا محور و مرکز عشق ہی کو قرار دیتے ہوئے فرمایا:
عشق ہے ہادی پریم نگر کا
عشق ہے رہبر راہ فقر کا

یہ ایک حقیقت ہے کہ صوفیاء کرام نے اپنے عمل و کردار سے لوگوں کے سینوں میں حرارت بخشی اور غافل انسانوں کو ایک خدا، ایک رسول ، ایک قرآن اور ایک کعبہ کی طرف بلایا ۔ْانہیں اخوت و محبت کا درس عام دیا اور خود شناسی کو خدا شناسی کا بہترین ذریعہ قرار دیا ۔بعض صاحب عقل حضرات نے کہا ’’صوفی باصفا وہی ہوتے ہیں جو دنیا کی محبت کو دل سے نکال دیں اور معبود کی محبت کو زندگی کا قرینہ بنالیں ۔‘‘

مذکورہ بالا تمام تحریر کا مقصد اس بات کو واضح کرنا ہے کہ تصوف اور صوفی ازم اسلام سے متصادم نہیں بلکہ اسلام ہی کا حصہ ہے ۔صوفی ازم عالمی امن کا ضامن اور احترام انسانیت کا علمبردار ہے ۔صوفی ازم میں علاقائی ،نسلی، لسانی اوررنگ کی تفریق کو پس پشت ڈال کر وحدت ملت کا درس ہے ۔صوفی ازم و تصوف بے سکوں انسانیت کے لئے شجر سایہ دار ہے ۔آج دنیا میں جو مسائل ایٹم بم اور اسلحہ سے حل نہیں ہو رہے تعلیمات صوفیہ میں ان کا بہترین مکمل اور شافی حل موجود ہے ۔
’’تاریخ اسلام میں بارہا ایسے مواقع نظر سے گزرتے ہیں جس میں اسلام کے کلچر کو مٹانے کی کوشش کی گئی لیکن وہ مغلوب نہ ہو سکا کیونکہ ٹھیک اسی دم صوفیا کا گروہ اس کی مدد کو آجاتا اور اپنے انداز فکر سے اس ’’تن بیمار‘‘ میں اتنی توانائی اور قوت بخش دیتا تھا کہ ساری طاقتیں اس کے سامنے عاجز آجاتی تھیں ۔‘‘مؤلف تاریخ سلسلہ فردوسیہ نے تاریخ تصوف کو مختلف طبقات میں تقسیم کیا ہے اور قدرے تفصیل سے اس کے اہم پہلوؤں پر روشنی ڈالی ہے ۔

پہلے طبقہ کے صوفیاء کا دور 661ء سے 850ء تک متعین کیا جا سکتا ہے ۔اس طبقہ کے چند اہم صوفیا کے اسما گرامی یہ ہیں۔ حضرت سیدنا خواجہ اویس قرنی رضی اللہ عنہ، حضرت حسن بصری ، حضرت مالک بن دینار،حضرت محمد واسع، حضرت حبیب عجمی، حضرت خواجہ فضیل ابن عیاض ، حضرت ابراہیم بن ادہم، رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین۔ان صوفیاء کا پہلا مرکز بصریٰ اور کوفہ بنا جہاں کے اموی گورنروں نے ظلم و ستم ڈھائے تھے اور اپنے شرمناک رویوں سے انسانیت کو ذلیل کیا تھا۔اس دور کے صوفیاء کی چار بڑی خصوصیات نظر آتی ہیں۔ خشیت الٰہی ،حکمرانوں سے گریز ،تصنیف و تالیف سے بے توجہی ،گوشہ نشینی و مصروف بیاد الٰہی ،خشیت الہٰی کا یہ حال تھا کہ ایک واقعہ حضرت حسن بصری کا مشہور ہے کہ ایک شب زارو زار رو رہے تھے ۔لوگوں نے سبب پوچھا تو فرمایا! کہ میں خوف خدا سے ڈرتا ہو ں کہ شاید ناواقفیت میں اور بلا ارادہ کوئی ایسا فعل سر زد ہو جائے جو باری تعالیٰ کی نہ خوشنودی کا سبب ہو تو پھرمیرا کیا انجام ہو گا۔

حکمرانوں سے گریز اور بے تعلقی کا یہ عالم تھا کہ ان کو دیکھنا بھی پسند نہیں فرماتے تھے اور اگر اتفاقاً کہیں آمنا سامنا ہو جاتا تو بڑی بے باکی سے ان کی بے راہ رویوں پر ان کو متنبہ کرتے تھے اور غیر اسلامی طرز حکومت پر کڑی تنقید کرتے تھے ۔حضرت خواجہ فضیل بن عیاض کا ایک واقعہ تذکرۃ الاولیاء میں مذکور ہے کہ

ایک دفعہ خلیفہ ہارون الرشید اپنے وزیر فضل کے ساتھ آپ کے گھر حاضر ہوا ۔وزیر نے دستک دی ۔ خواجہ نے اندر سے پوچھا کہ کون ہے ۔کہاہارون الرشید۔خواجہ نے فرمایاان کو مجھ فقیر سے کیا کام اور میرا ان سے کیا واسطہ !وزیر نے کہا امیر کی اطاعت واجب ہے ،اندر آنے کی اجازت دیجئے ورنہ ہم حکماً آسکتے ہیں۔ چنانچہ وزیر اور ہارون الرشید اندر داخل ہو گئے ۔خواجہ نے چراغ بجھا دیا اندھیرے میں خواجہ کاہاتھ ہارون الرشید کے ہاتھ سے مس ہو گیا ۔خواجہ نے فرمایا کیسا ہی نرم ہاتھ ہے ، اے کاش!کہ دوزخ کی آگ سے محفوظ رہے ۔ہارون الرشید پر اس بات کا بہت اثر ہوا ۔فرمایا کچھ نصیحت فرمائیں ۔

خواجہ نے فرمایا تمہارا باپ رسول اللہ ﷺ کا چاچا تھا ۔ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ سے کسی صوبہ کی گورنری کی درخواست کی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا کہ یا عم بل نفسک۔یعنی ’’اے چاچا جان میں نے آپ کو آپ کے نفس کا امیر کیا۔‘‘ہارون الرشید نے کہا کچھ اور ہدایت فرمائیں ۔فرمایا:’’یہ ملک تیرا گھر ہے اور خلقت تیری اولاد ہے ۔ماں باپ کے ساتھ نرمی ،بہن بھائیوں کے ساتھ مہربانی ،بچے بچیوں سے نیک سلوک کر ،اگر کوئی مفلس بڑھیارات کو بھو کی سوجائے گی تو قیامت کے دن وہ بھی تیری دامن گیر ہو گی تیرے ساتھ جھگڑے گی ۔‘‘

اس قسم کے بہت سے واقعات ملتے ہیں جن سے اس زمانہ کے صوفیاء کا جرأت مندانہ انداز حق گوئی و بیباکی، نیز امر اوملوک ، کا پتہ چلتا ہے۔تیسری خصوصیت اس طبقہ کے صوفیاء کی یہ نظر آتی ہے کہ انہوں نے تصنیف و تالیف کی طرف توجہ نہیں دی ،اس لئے اس زمانہ کی تصنیفات کم نظر آتی ہیں ۔چوتھی خصوصیت ان صوفیاء کی یہ تھی کہ مشغول یاد الہٰی میں ان کا انہماک تھا اور اپنے گرد تلامذہ و مریدین کا اجتماع ان کو پسند نہ تھا ۔دنیا سے ان کی طبیعت اچاٹ تھی اس لئے گوشہ نشین ہو کر یاد الٰہی میں مصروف رہنا پسند کرتے تھے ۔مختصریہ کہ موتو قبل انت موتو۔کی مکمل تفسیر تھے۔

صوفیاء کا دوسرا طبقہ عقلیت و سے بے زاری کے نتیجہ میں پیدا ہوا ۔اس دور کے مشہور صوفیاء کے کچھ اسمائے گرامی میں حضرت خواجہ بایزید بسطامی ،حضرت ذوالنون مصری رحمۃ اللہ علیہ،حضرت خواجہ جنید بغدادی کے نام نمایاں نظر آتے ہیں ۔خلفائے عباسیہ اور بالخصوص مامون الرشید کو فلسفہ یونان سے صرف شغف ہی نہیں بلکہ گرویدگی کی حد تک سر میں سودا پیدا ہو گیا تھا ۔چنانچہ دنیا کے چپہ چپہ سے فلسفہ و حکمت کی کتابیں جمع کی گئیں ان کا ترجمہ کرایا گیا ۔ہارون الرشید کے بیت الحکمت نے اس سلسلہ میں نمایاں کام سر انجام دیا اور مامون الرشید ان کتابوں کا شیدائی اور بالخصوص ارسطو کی کتابوں کا عاشق زار تھا ۔

نتیجہ یہ ہوا کہ سرکاری سرپرستی میں اور اس سے متاثر ہو کر صاحبان علم نے از خود بھی یونانی فلسفہ و حکمت کی بے شمار کتابوں کو عربی میں منتقل کر دیا ۔ا س کے نتیجہ میں عقلیت کی ایسی آندھی اٹھی کہ عقائد و ضیعت کا بھی سیلاب امڈ آیا اور بقول مولانا آزاد مرحوم’’فطرت سے جب بُعد ہوجاتا ہے اور وضعیت کا استغراق طاری ہو جاتا ہے تو طبیعتیں اس پر راضی نہیں ہوتی کہ کسی بار کو ا س کی قدرتی سادگی میں دیکھیں ۔سادگی کے ساتھ حسن و عظمت کا تصور کر نہیں سکتیں وہ جب کسی بات کو بلند اور عظیم دیکھنا چاہتی ہیں تو کشش پیداکرتیں ہیں کہ زیادہ سے زیادہ وضعیت اور ضاعیت کے پیچ و خم پیدا کریں ۔‘‘

اس عقلیت و وضعیت کے سیلاب نے مذہب کے تمام گوشوں کو متاثر کیا ،ذات و صفات باری تعالیٰ ،خلق قرآن ،دوزخ ،جنت ،معجزات ،معراج سب ہی زیر بحث آنے لگے اور قرآنی آیات کی تاویلیں ہونے لگیں۔اس دور فتن میں اس دور کے صوفیائے کرام کے ماسوا شاید ہی کوئی اپنا دامن بچاسکا ۔ان صوفیاء نے اس فتنہ کا مقابلہ کیا اور محکمات عقائد و اعمال اسلامی جو سلف سے چلے آرہے تھے اس پر صرف ڈٹے ہی نہیں رہے بلکہ ان افکار باطلہ کے مقابلہ کے لئے ’’عشق الٰہی ‘‘ کے تصور کو عام کیا ۔اس طبقہ صوفیاء نے عشق الٰہی سے عقلیت اور وضعیت کا علاج کیا کیونکہ یہی اس کا مناسب علاج تھا ۔

اس دور کی دوسری اہم خصوصیت یہ تھی کہ فلسفہ و حکمت کے پیدا کردہ ذہنی انتشار و لامرکزیت کو قلب کی طاقت سے دور کرنے کی کوشش کی گئی ۔اس سلسلہ میں حضرت معروف کرخی نے ’’استغراق‘‘ پر زور دیا ۔حضرت سری سقطی نے توحید پر زور دیا اور حضرت ذوالنون مصری نے اپنی تصنیف میں ’’حال و مقام‘‘ پر بحث کر کے اس فتنہ پر قابو پانے کی کوشش کی۔

صوفیاء کا تیسرا طبقہ دسویں صدی عیسوی کی پیداوارہے جب کہ اسلامی فتوحات کی وسعت نے نئے نئے مسائل سے لوگوں کو دوچار کیا ۔جس کے نتیجہ میں استنباط و اجتہادکی ضرورت لاحق ہو گئی ۔اس سلسلہ میں حضرت امام ابو حنیفہ ،امام مالک امام شافعی اور امام احمد بن حنبل نے فقہ کی تدوین کا کام اپنی پوری دینی بصیرت کے ساتھ سر انجام دیا اور اس طرح چار فقہی مسائل میں حیلہ بازی کا دروازہ بھی ایسا کھل گیا کہ عوام اور امراء طرح طرح کے حیلے طراشنے لگے۔

مولانا آزاد مرحوم نے اس صورت حال کا خوب نقشہ کھینچا ہے ۔لکھتے ہیں ۔۔

’’کتاب و سنت کی تقدیم و حفظ کا بند تو پہلے ہی ٹوٹ چکا تھا ۔اور بنیاد فقاہت محض اٹکل اور ظن و وہم پر قرار پا چکی تھی ۔پھر کیا تھا ہر ذہن نے تیزی دیکھائی اور ہر قیاس نے بلند پروازی کی ۔نتیجہ یہ نکلا کہ شریعت الہٰی جو عدل و صداقت کے قیام کے لئے آئی تھی اسی کے نام سے مکر و فریب اور ظلم و غضب کے تمام کاروبار جاری ہو گئے اور دنیا کی تباہی کے لئے اس سے بد تر وقت اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ خدا کا پاک نام لیکر اس کی دنیا میں برائی پھیلائی جائے ۔کتنی ہی زنا کاریاں ہیں جو حیلے نکال کر نکاح شرعی بنائی گئی۔ کتنے ہی غضب وظلم و اکل اموال بالباطل کے معائب ہیں جن کو ایک شرعی معاملہ بنا کر جائز کیا گیا ۔کتنے ہی حج ہیں جو ساقط ہوئے ۔کتنی ہی زکوٰتیں ہیں جو کبھی ادا نہیں کی گئیں کتنے ہی شارب الخمر اور زانی محض ہیں جو حدود شرعیہ سے صاف بچالئے گئے ۔‘‘

ان حیلہ بازیوں نے مذہب کی صورت ہی مسخ کر ڈالی اور ایسا معلوم ہونے لگا کہ یہ فتنہ تقدس مذہب اور روح اسلام کو فنا کر کے ہی دم لے گا کہ پھر صوفیاء کا گروہ سامنے آگیا اور اس فتنہ کی بیخ کنی کے لئے سرگرم ہو گیا ۔اس تیسرے دور کے صوفیاء میں قابل ذکر اسمائے گرامی یہ ہیں ۔
شیخ ابو سعید بن العربی،شیخ ابو محمد الخلدی،یخ ابو نصر السراج،شیخ ابو طالب مکی،شیخ ابو بکر،اور شیخ ابو عبد الرحمن اسلمی،رحمۃ اللہ علیہم۔
اس دور کے صوفیا کی خصوصیت تذکیہ قلب اور اصلاح باطن کی طرف زور دینا تھا اور عملی اقدام کر کے لوگوں کو صحیح راہ دیکھانا تھی۔

ان صوفیاء نے صوفیائے متقدمین کی تعلیم و سوانح حیات کو احاطہ تحریر میں لا کر تصنیف کی شکل میں پیش کیا ۔شیخ ابو سعید بن العربی کی تصنیف ’’طبقات‘‘ شیخ ابو محمد الخلدی کی ’’حکایت الاولیاء‘‘ ابو عبد الرحمن اسلمی کی ’’طبقات الصوفین‘‘اس سلسلہ کی اہم تصانیف ہیں ۔ان صوفیائے کرام نے شریعت اور طریقت میں پوری مطابقت قائم کی اور ایک دوسرے کو لازم و ملزوم قرار دیا ۔چنانچہ اس سلسلہ میں شیخ ابو طالب مکی کی ’’قوت القلوب‘‘ اور شیخ ابو بکر کی کتاب’’التعارف المذہب اہل تصوف‘‘بہت اہم کتابیں لکھی گئیں جن میں شریعت و طریقت کی ہم آہنگی پر مدلل بحثیں کی گئی ہیں ۔

اس دور کی دواہم باتیں یہ ہیں ۔ایک یہ کہ تصوف کی اصطلاحات وضع ہوئیں اور دوسرا یہ کہ صوفیاء کے گروہ اور حلقے کا ذکر تحریری شکل میں بھی منظر عام پر آگیا ۔حضرت سیدداتا علی ہجویری نے اپنی تصنیف کشف المحجوب میں گیارہ گروہوں کا ذکر کیا ہے جن میں دو ۔ حلولی اور حلاجی تو اپنے برے عقائد تناسخ کی بنیاد پر مردود قرار پائے ۔باقی نوگروہ اپنے اپنے بانیوں کے ذوق و مزاج کی بنا پر اپنے الگ الگ رنگ سے ممیز ہوئے مثلاً طیفوریہ جس کی نسبت حضرت خواجہ بایزید سے ان کے یہاں ذوق و مستی کا غلبہ تھا اور یہ سکر کو’’صحو‘‘ پر ترجیح دیتے تھے ۔نوریہ جس کے بانی شیخ ابو الحسن نوری تھے ۔ان کے یہاں تصوف کو فقر پر ترجیح دی جاتی تھی اور صحبت کو عزلت سے بہتر سمجھا جاتا تھا ۔اسی طرح دوسرے گروہ تھے جیسے قصاریہ ،محاسبیہ ،تستریہ ،حکمیہ، خرازیہ ،خفیفہ ، سیاریہ اور ان کے بانیوں کے نام بالترتیب یہ ہیں ۔شیخ حمدون قصار، حارث محاسبی ،شیخ سہل بن عبد اللہ تستری، حضرت ابی عبد اللہ بن علی الحکیم الترمذی، شیخ ابو سعید خرازی ،شیخ ابو عبد اللہ محمد بن خفیف ،شیخ ابو العباس سیاری ،رحمۃ اللہ علیہم۔کچھ اصطلاحات جو اس دور میں رواج پائیں وہ یہ ہیں ۔صحو ،سکر، فقر، مقام، حال، ولایت، فنا، حضور ،غیبت، جمع، تفریق۔

Advertisements
julia rana solicitors

دسویں صدی کے بعد تصوف نے باقاعدہ ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی اور یہ ایک علم بن چکا تھا اس علم پر تصانیف وجود میں آچکی تھیں اور اصطلاحات بھی وضح ہو چکی تھیں اور صوفیوں کے گروہ بھی بن چکے تھے ۔اس گروہ سے مراد کوئی متنازع گروہ بندی نہیں ،مقصد تو سب کا ایک تھا مگر طریقہ تعلیم میں کچھ تفوق و ترجیح میں فرق پایا جاتا تھا ۔گویا دسویں صدی عیسوی میں تصوف باقاعدہ ایک علمی اور عملی فن بن چکا تھا ۔اگلے تین سو سال ان بنیادوں کو مزید مستحکم کرنے میں لگے اور اب یہ ایک مکمل شکل اختیار کر گیا اور مسلمانوں کی دینی زندگی کا ایک اہم جزوبن گیا۔لہٰذاتصوف کوئی شجر ممنوعہ نہیں بلکہ اسلامیہ و ترویج دین کی ایک منظم تحریک کا دوسرانام ہے بلاشبہ بر صغیر میں اشاعتِ اسلام کا سہرا انہی صوفیا ء کرام پاکیزہ ہستیوں کے سر ہے ۔آج ہم صوفی ازم سے منہ موڑ کر ترقی کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں کر سکتے ۔کیونکہ اسلام درخت ہے اور تصوف شاخیں ۔شریعت تن ہے تو تصوف روح۔دنیا میں قیام امن کیلئے بھی صوفی ازم ہی کردار ادا کر سکتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ تصوف و صوفی ازم سے معاشرہ، ملک و قوم اور عالمی برادری کو فیضیاب ہونے کی توفیق دے ۔آمین!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply