جنگلات یا اس کی اہمیت کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ ایک جگہ لکھا تھا کہ ہر وہ شے جو موجود ہے اہمیت سے خالی نہیں ہے۔ یوں تو روز سورج نکلتا ہے غروب ہو جاتا ہے۔ اس کا ایک سا رقص توجہ کا مرکز نہیں بن پاتا۔ فطرت میں ہزار ہا چیزیں لا یعنی ہوتی ہیں مثلاً کسی کنارے کوئی پتھر ہے اور اس جیسے ڈھیروں پتھر موجود ہیں تو کیسے اس پتھر کو نایاب تصور کر لیا جائے اور اگر نایاب ہے تو بھی اہمیت کے اعتبار سے کیسے مختلف ہے۔ ہزاروں اشیاء فطرت کی گود میں ہیں لیکن لا یعنی ہیں۔ یہ لا یعنیت چشمِ بشر دیکھ رہی ہے۔ کئی مختلف آنکھیں مختلف نظریے سے دیکھتی ہیں اور اسی طرح بشری تصورات میں تفریق بھی نظر آتی ہے۔ انسانوں کی آواز میں جادو ہے لیکن شہروں کھلیانوں میں یہی آواز بے وقعت محسوس ہوتی ہے کیونکہ وہاں خاموشی ناپید ہے۔ جب صوتِ انسانی غائب ہو جائے تو کسی نُکر سے آتی آواز اہمیت حاصل کر لیتی ہے۔ انحصار ہی دراصل کائنات کے دیگر تصورات میں سے ایک تصور ہے۔ جنگلی جانور سارا سال بولتے رہتے ہیں لیکن ان کی موجودگی کا احساس نومبر دسمبر میں ہوتا ہے چونکہ دسمبر میں خاموشی ہوتی ہے۔ ایسی کئی مثالیں ملتی ہیں۔ یہ سب بے وقعت تصور کر لیا جاتا ہے بے وقعت ہے نہیں لیکن کچھ عوامل کی مدد درکار ہوتی ہے جب وقعت اور معنی اور وجودیت اور دیگر تصور کائنات سمجھ آتے ہیں۔
ایک خوبصورت بات نظر سے گزری ہے کہ ٹیکنیکل مضامین اور دیگر ضروریات زندگی پہ فوکس اپنی جگہ ضروری ہے لیکن زندگی میں فلسفے اور مشاہدے اور فطری میکانکیوں کو بھی جگہ مل جائے تو انسان احساس برتری کا شکار نہیں ہوتا۔ ضروری ہے، کسی حد تک تو بہت ضروری ہے۔
اب اس ساری کہانی کا ایک مرکز ہے۔ جیسے زلزلہ پھیل جاتا ہے لیکن اس کا ایک مرکز ہوتا ہے یہ کہانی بھی مرکزیت والے تصور سے نتھی ہے۔ جنگل تو ہیں، سرکاری درخت بھی ہیں، زراعت بھی خدائی منصوبے پہ خودکار طریقے سے کام کر رہی ہوتی ہے،ندی بھی ہے، نالے بھی رواں ہیں، سردیوں کی طویل راتیں ہیں،بار بار گھڑی دیکھتے ہیں تو دس بج رہے ہوتے ہیں، سردی کی شدت بھی محسوس ہوتی ہے۔۔ اب یہ سب ہو رہا ہے ،انتہائی خاموشی ہے۔ اس خاموشی میں وہ آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں جو سالہا سال تصورِ عدمیت کی قائل رہتی ہیں اور جگہ ملتے ہی تصورِ وجودیت کی قائل ہو جاتی ہیں۔
دسمبر کی خاموشی اور سردی کی شدت اپنی جگہ لیکن بہرحال فطرت مصروف عمل ہے۔ یہ عمل نکھر کے سامنے بھی دسمبر کے سکوت سے مشروط ہے۔ درخت کی اہمیت کم نہیں ہو جاتی۔ گھاس خزاں کے بعد اکڑ رہے ہیں کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انھیں آگ لگا دی جائے۔ صرف ایک چنگاری کیسے جنگل میں پھیل جاتی ہے اور اس کا کیا نقصان ہے ؟کیسے حشرات فی الارض نقصان بھرتے ہیں چڑیا گھونسلا بنانے میں کتنا وقت لیتی ہے کس مشاورتی عمل سے اسے گزرنا ہوتا ہے یا دیگر کئی موضوعات انسانی کھوپڑی میں آئیں بھی تو کیوں؟

کئی دنوں سے یہ خبریں موصول ہو رہی ہیں کہ جنگل میں آگ لگنے سے گھر بھی لپیٹ میں آ گئے۔ دو تین گھر جلنے کی خبریں موصول ہوئی ہیں۔ کئی جانوروں کے گھر ٹوٹے ہیں۔ کئی درختوں کو کاسا لیس ہونا پڑا ہے! کئی دن سے خود دیکھنے میں آرہا ہے آگ پھیل رہی ہے۔ صرف ایک چنگاری سے آگ بھڑک جاتی ہے اور جو ایک چنگاری پھینکتا ہے وہ بے خبر ہے یعنی اسے شاید علم ہی نہیں ہے کہ کتنا نقصان بھگت رہا ہے! اسے سورج کا ایک سا ناچ شاید پسند نہیں ہے یا وہ سورج کو صرف ایک آنکھ سے ہی دیکھ رہا ہے یا شاید دیکھتا ہی نہیں ہے! واللہ اعلم!
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں