ایماندار قوم کی چھوٹی چھوٹی خوشیاں

کل آپ نے فلاں کتاب کے پچاس صفحات کا مطالعہ کر کے آنا ہے۔ ہمارے استاد محترم کلاس چھوڑنے سے قبل ہمیں اگلے دن کا کام دیتے ہوئے بتاتے۔۔ سر یہ بہت ذیادہ ہیں اور بھی بہت کام ہوتے ہیں کچھ کم کر دیں، رحم کریں۔ پورا کلاس روم کچھ اس طرح کے جملوں سے گونج اٹھتا ۔
ساٹھ! استاد محترم بلند آواز سے پکارتے۔ ہم سراپا احتجاج بن کے رہ جاتے۔ کچھ معصومانہ انداز سے تو کچھ اپنے دوستانہ تعلقات کا واسطہ دیتے ہوئے استاد محترم سے بوجھ ہلکا کرنے کی گزارش کرتے لیکن استاد محترم ہمارے اس مستقل احتجاج کے درمیان ہر پانچ سیکنڈز کے وقفے سے دس دس صفحات کا اضافہ کرتے جاتے ۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے استاد محترم کی زبان سو کا آکڑا بولتی تو تمام کلاس اپنا سا منہ لے کر خاموش ہو کے بیٹھ جاتی کہ اب شور مچانے سے مزید نقصان ہی ہو گا۔ اتنے میں ایک لطیف آواز ہمارے کانوں میں گونجتی “پچاس” جو کہ استاد محترم کی زبان سے ہی نکلی ہوتی تھی۔ ہماری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہتا۔ ہم اپنے استاد محترم کا شکریہ ادا کرتے اور ان کی فیاضی پر انکی درازیء عمر کی دعا کرتے ۔ کچھ ہی لمحے پہلے جو شخص ہمیں ہٹلر کا روپ دھارے نظر آ رہا تھا اب وہ ہمیں نیلسن منڈیلا جتنا مہربان نظر آ رہا ہوتا۔ پرانی بات ہے، ٹی وی چلایا تو خبر چل رہی تھی پٹرول دس روپے مہنگا ہو گیا، دل بیٹھ گیا، اب کیا ہو گا، وہ تو اللہ بھلا کرے اپوزیشن جماعتوں کا جنہوں نے شور مچایا اور حکومت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں تب جا کر کہیں انہوں نے دس کی بجائے پٹرول سات روپے مہنگا کرنے کی منظوری دی۔ ہماری خوشی کی انتہاء نہ رہی، مہینہ بھر میں جتنا پٹرول ہم خریدتے تھے اسے تین سے ضرب دے کر خواب دیکھنے لگے ۔ واہ موجاں ای موجاں۔ پاسپورٹ بنوانے کے لئے لمبی لائن تھی اور لائن کے آخر پر ہم۔۔ گرمی کا موسم، وقت کی رفتار تو یوسین بولٹ کی طرح تیز تھی البتہ ہماری لائن تو جیسے چیونٹی کی رفتار سے آگے بڑھ رہی تھی اور کبھی کبھی ہوا کے جھونکے سے اچانک پھر پیچھے آ جاتی تھی، اللہ اللہ کر کے باری آئی تو کسی کارندے نے نوید سنائی کہ آپ کا پاسپورٹ نہیں بن سکتا۔ کیوں جی ہم میں بھلا کیا کمی ہے کیوں نہیں بن سکتا ہمارا پاسپورٹ۔ اس لئے کہ آپ کا مستقل پتہ فلاں ضلع کا ہے وہاں جائیں آپ کا پاسپورٹ وہیں سے بنے گا۔ کیوں جائیں ہم وہاں ۔ ہم اُس جگہ کو اب خیرباد کہہ چکے ہیں عارضی پتہ یہیں کا ہے اس لئے پاسپورٹ بنوانے کے لئے یہیں آئے ہیں۔ کہہ دیا نا کہ نہیں بنے گا۔ کیا کریں۔۔۔ سر کوئی تو طریقہ ہو گا یا بالکل ہی نہ سمجھوں؟۔ پندرہ سو زائد لگے گا۔ ہماری خوشی کی انتہا نہ رہی۔ کیسے کیسے شاہین عطا ہوئے ہیں ہمیں۔ وہ کام جو کسی صورت ہو ہی نہیں سکتا تھا صرف پندرہ سو کے عوض وہ کام سمجھیں ہو گیا۔ پندرہ سو زائد فیس دے کر سارا کام منٹوں میں کروا کے ہم باہر نکلے تو لوگ ابھی بھی باری کے انتظار میں تھے۔ ایک دفعہ پھر دل سے دعا نکلی۔ جگ جگ جیو میرے شاہینو۔ ریلوے ٹکٹ خریدنے کے لئے لائن میں لگے۔ کاؤنٹر پر بیٹھی موصوفہ خوش گپیوں میں مصروف تھیں۔ تو کیا ہوا انکا بھی حق ہے. وہ بھی انسان ہیں ان کا بھی دل کرتا ہے کچھ دیر فریش ہو لیں لیکن یہ کچھ زیادہ ہی ہو رہا تھا آخر لوگوں نے شور مچایا تو وہ متوجہ ہوئیں۔ باری آنے پہ پتا چلا کہ تمام ٹکٹیں فروخت ہو چکی ہیں۔ لائن سے نکل کر باہر جاتے ہوئے ایک شخص نے پریشان دیکھا تو پوچھا کیا ہوا۔ صورتحال بتائی تو فرمایا کہ وہ سامنے والے ہوٹل پہ چل کے چائے پئیں اور پھر معجزہ دیکھیں۔ ہم نے چائے پی تو واقعی معجزہ ہو گیا۔ ہماری مطلوبہ ٹکٹیں جو کہ متعلقہ محکمے کو بھی ڈھونڈنے پر نہ مل رہی تھیں وہ ایک عام سے شخص نے پتا نہیں کہاں سے ہمیں مہیا کر دیں۔ میری خوشی اس وقت دیدنی تھی۔ تین سو روپے فی ٹکٹ زائد از اصل قیمت اسے دیئے اور گنگناتے ہوئے واپسی کی راہ لی۔

Facebook Comments

محمد شفیق عادل
ذیادہ لکھنا پڑھنا نہیں آتا. اور ذیادہ کوشش بھی نہیں کی. بس کبھی آنکھ کھلتی ہے تو قلم پکڑ لیتا ہوں.

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply