کیا سزائیں بھی مذہبی ہوتی ہیں؟ ایک مغالطہ

ہر زمانے کی کچھ ضروریات ہوتی ہیں۔ اس میں ثقافت، کھانا پینا، رہن سہن، چیزوں کو استعمال کرنا اور حتیٰ کہ سزا اور جزا کا بھی اسی زمانے سے تعلق بن جاتا ہے۔ اسی طرح کبھی کبھی کچھ استعارے بھی کسی دور میں ظلم کی نشانی بن جاتے ہیں۔ اس کی وضاحت ہم اس طرح کرتے ہیں کہ پرانے زمانے میں سواری کے لیے اونٹ اور گھوڑے استعمال ہوتے تھے۔ اب موٹر کار اور جہاز۔ پہلے گھر مٹی سے بنتے تھے اب اینٹ اور لکڑی سے۔ پہلے کھانا لکڑیاں جلانے سے پکتا تھا، اب گیس سے۔ پہلے روشنی کے لیے دیا جلایا جاتا تھا اب بلب۔ پہلے ایک گھر میں درجنوں افراد رہتے تھے اب صرف ایک خاندان، پہلے روزی کے لیے کھیتی باڑی یا تجارت کی جاتی تھی اب لوگ فوج، سول یا ملٹی نیشنل کمپنیز مین نوکریاں کرتے ہیں۔ پہلے خرید و فروخت بارٹر سسٹم کے تحت ہوتی تھی، اب کرنسی نوٹوں کے ذریعے سے ہوتی ہے۔ پہلے سیر و تفریع کے لیے کسی کے گھر جانا ہوتا تھا اب شہر شہر اور ملکوں ملکوں گھومنا ہوتا ہے۔ پہلے منہ اُٹھا کر کسی بھی ملک چلے جاتے تھے۔ اب جب تک شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور ویزہ نہ ہو تو بارڈر پر مشکوک سمجھ کر گولی مار دی جاتی ہے۔
زمانے کے ساتھ ساتھ ہمارے لباس، کھانے پینے، بات چیت اور رہنے کے اسٹائل میں بھی زمین آسمان کا فرق آ چکا ہے۔
پہلے شادی کی کوئی عمر نہیں ہوتی تھی، اب کوئی چھوٹی عمر میں شادی کرنے کی کوشش کرے تو متعلقہ ادارے آ جاتے ہیں روکنے کو، پہلے بچے کو اسکول بھیجنے کا کوئی تصور نہیں تھا، اب نہ بھیجیں تو والدین کو جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے۔ حتئ کہ کوئی اپنے بچے کو پولیو کے قطرے بھی نہ پلاۓ تو اسے پولیس پکڑ کر لے جاتی ہے۔ پہلے غلام اور لاتعداد کنیزیں ہوتی تھیں۔ اب ان کے رکھنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اسلام کے ابتدائی دور میں جیل کا کوئی تصور نہیں تھا۔ موقع پر ہی سزا دی جاتی تھی۔ مگر جوں جوں معاشرے ترقی کرتے گئے، توں توں جرائم کی تعداد اور قسمیں بھی زیادہ ہوتی گئیں۔ اسی طرح جیل کا تصور اور سزاؤں کی قسموں میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ پہلے قتل یا بادشاہ سے غداری پر سر کاٹ دیا جاتا تھا مگر اب زمانے کے ساتھ ساتھ جیسے ہر چیز بدلی اسی طرح سزاؤں کی قسمیں بھی بدلی، جیسے چوری اور بدکاری کی سزا بھی جرمانہ اور قید میں تبدیل ہو گئی۔ اسی طرح کسی کو قتل کرنے پر سزا پھانسی یا عمر قید اور جرمانا ہو گیا۔ موجودہ زمانے میں جیسے جیسے چیزیں ایجاد ہوتی گئیں، ویسے ویسے مختلف نوعیت کے جرائم کا بھی اضافہ ہوتا گیا، جیسے ٹریفک یا بلڈنگ رولز کی خلاف ورزی پر سزا، درخت کاٹنے اور اغوا پر سزا وغیرہ۔ اسی طرح موجودہ دور میں پولیس، عدالتیں، جج اور وکیلوں کے ادارے وجود میں آئے۔ اب کوئی حکومت اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کہ ایک بندہ اپنے آپ سے کسی بھی مجرم کو سزا دے کیونکہ اس سے معاشرے میں انارکی پھیلنے کا اندیشہ ہوتا ہے۔
اسی طرح کوئی بھی قوم موجودہ دور میں اپنے آپ کو تمام دنیا کے معاشروں سے نہیں کاٹ سکتی اگر کاٹے گی اور اپنی ضد پر قائم رہے گی تو حشر صدام حسین، قزافی اور طالبان جیسا ہو گا اور بھگتنا عام عوام کو پڑ‎ے گا۔مانا کہ اسلام کنیز اور غلام کی اجازت دیتا ہے، مگر کیا دنیا کے سارے ممالک کسی ایک اسلامی ملک کو یہ حق دیں گے کہ وہ غلام اور کنیزوں کا سسٹم اپنے ملک میں رائج کر دیں؟ بہترین مثال ساؤتھ افریقہ کی ہے جس نے کئی سال قیدِ تنہائی میں کاٹے۔ حالیہ دور میں پاکستان میں ایک اور مسئلے نے بھی سر اُٹھایا ہے اور وہ ہے خدائی فوجداری کا مسئلہ۔ ایک طرف تو دنیا جہاں کی بُرائیاں اس انسان کے اندر ہوں گی مگر بات جب مذہب کی جانب جاۓ گی تو اُسے ایسا لگے گا کہ جیسے اس کے کانوں میں کسی نے بحر بیکراں کے عالم سے ایک طلسم پھونک دیا ہو اور اب وہ نیکی اور اچھائی کی اس معراج تک پہنچ گیا ہے کہ اسے خدا نے مذہب کی تمام سمجھ عطا کر دی ہے اور ساتھ ہی خدا نے یہ خدائی حق بھی دے دیا ہے کہ جا تو آزاد ہے جو قتل و غارت کرنی ہے مذہب کے نام پر کر۔۔ موجودہ دور میں ہمارے ساتھ ایک اور سانحہ بھی ہوا ہے کہ کچھ گروہوں کو مذہب کے نام پر وجود میں لایا گیا، پہلے ان کو مذہبی فریضہ کا نام دے کر لڑوایا پھر ان ہی میں سے مزید ایک اور گروہ بنا کر مذہب کے نام پر ہشتگردی کا بازار کھول دیا۔ ایک امن پسند مذہب کو دہشتگردی سے جوڑ دیا اور اس طرح سر کاٹنے کا عمل، جو کہ پرانے زمانے میں قتل کی سزا تھی، کو ایک ظلم کا استعارہ بنا دیا۔
اب اگر ہمارے ایک مکتبہ فکر کے کچھ نادان دوست سر کاٹنے کی بات کرتے ہیں تو دوسری قومیں فوراً اس سر کاٹنے کے عمل کو دہشت اور ظلم سے جوڑ دیتی ہیں اور اس طرح ہمارا امن کا مذہب اور اس کے ماننے والے، ظلم کا استعارہ بن جاتے ہیں۔ حالانکہ ان کی نیت ٹھیک ہوتی ہے مگر ایک غلط لفظ استعمال کر کے اس عمل کو مشکوک بنا دیتے ہیں۔ آج کل کے زمانے میں ہر کام کا ایک طریقہ کار متعین کر دیا گیا ہے۔ اس طرح اگر کسی نے کوئی قانون توڑا ہے تو خود سے خدائی خدمت گار اور پرہیز گار بننے کی بجاۓ ملکی قانون کا سہارا لینا چاہیے، اس کے بعد اگر اس انسان کو ملکی عدالت بے گناہ ثابت کر دے تو پھر کسی کو بھی یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ خود سے عدالت لگا کر بیٹھ جاۓ۔ خود ہی پولیس ، خود ہی جج اور خود ہی جلاد بن جاۓ۔ ایک معاشرے کو انارکی سے بچانے کے لیے کسی بھی بندے کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنے عقیدے یا نظریہ کے تحت دوسروں کے غلط فعل کو بزور بازو ٹھیک کرنے میں لگ جاۓ۔ کیا ہم کسی ایک شخص کو یہ حق دے سکتے ہیں کہ وہ دوسروں کو سزا دینے کا ٹھیکہ لے لے جبکہ اس کے اپنے کئی اعمال ملکی قانون کی گرفت میں آتے ہوں اور یا پھر وہ اعمال مذہب کے معیار کے مطابق نہ ہوں۔مضمون اس بات پر ختم کرتے ہیں کہ موجودہ زمانے کے ان پاکستانی مسلمانوں نے سوچنے سمجھنے کی اپنی صلاحیتوں سے جان چھوڑا کر اپنی لگامیں مذہب فروشوں کے سپرد کر دی ہیں جو ہر چیز کو مذہب کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں۔ حتئ کہ جزا اور سزا کو بھی ریاست کے ہاتھوں سے لے کر اپنے ہاتھوں میں لے لیا ہے۔ اس انارکی سے بچنے کے لیے اس کا حل صرف اور صرف یہی ہے کہ بجاۓ خدائی فوجدار بننے کے، ریاست پر چھوڑ دیا جائے کہ کون گنہگار ہے اور کون بے گناہ۔ آج کل کی صورتِ حال کے تحت ایک معاشرے کے فرد کا کام صرف اور صرف برائی کی نشاندہی کرنا ہے اور بس۔

Facebook Comments

عامر کاکازئی
پشاور پختونخواہ سے تعلق ۔ پڑھنے کا جنون کی حد تک شوق اور تحقیق کی بنیاد پر متنازعہ موضوعات پر تحاریر لکھنی پسند ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply