قضیہ خدا کا۔۔۔

قرآن اناٹومی یا تاریخ کی یا مثلاً علوم البشریات یا فلکیات کی کتاب نہیں ہے۔ قرآن میں جو کچھ ہے وہ خدا کی جانب سے انسان کی ہدایت کا ابدی اور حتمی غیر محرف سامان ہے۔ ہر دور میں ہر علم کے مبتدیوں اور منتہیوں کے لیے قرآن میں رہنما اشارات نہ پائے جائیں تو قرآن کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ کسی دور میں مختلف علومِ ارضی و سماوی وغیرہ کے ماہرین، جن کو قرآن “علماء” کے لفظ سے یاد کرتا ہے، اگر قرآن سے کوئی ایسا نکتہ نکال لاتے ہیں جو کسی سابقہ عالم کے حاشیہ خیال میں نہیں آیا تو اسے نہ تو علمائے قدیم کی ہتک جاننا چاہیے اور نہ خدا کے منہ میں اپنی من چاہتی بات ڈالنا۔ یہ قرآن کا اعجاز ہے جو ہر دور کے ذہین ترین ماہرینِ علوم یعنی علما کو عاجز کرتا رہے گا۔
مثلاً یہ بحث کہ آدمِ قرآنی سے پہلے بھی انسان موجود تھا، آج پیدا نہیں ہوئی بلکہ اس کی جڑیں ہزاروں سال پرانی ہیں اور قرآن نے بھی اس کے بارے میں غیر مبہم اشارات مرحمت فرمائے ہیں جو ہر دور میں پیدا ہونے والے ہر سطحی سوالات کے جوابات کے لیے رہنمائی کرتے رہیں گے۔ یا مثلاً اگر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ قرآن کے مطالعہ کے بعد اس نے یہ جانا کہ خدا کا کوئی وجود نہیں ہے، تو اس میں پریشان ہونے والی کیا بات ہے؟ قرآن جب اتر رہا تھا تب بھی تو عین مکہ و مدینہ میں بہت سارے لوگ یہی خیال رکھتے تھے کہ خدا کا کوئی وجود نہیں ہے۔ کیا ان کے اس خیال نے اس وقت حضرت محمد علیہ السلام کی نبوت کو منہدم کر دیا تھا جو آج اس خیال کے حاملین سے اسلام کو کوئی قرار واقعی خطرہ ہو؟ خوب یاد رکھیے کہ خدا کا وجود ایک اطلاع ہے جو نبی کریم علیہ السلام نے دی ہے جسے ہم نے تسلیم کیا ہے۔ یہ وجود کیسا ہے؟ اس کا کوئی جواب نہ کسی کے پاس ہے نہ روزِ قیامت تک ہوگا۔ وجودِ باری کا دعویٰ کرنے والے بھی ایک خبر کی بنیاد پر یہ دعویٰ کر رہے ہیں اور اس کا انکار کرنے والے بھی اپنے اندازوں کی بنیاد پر یہ انکار کر رہے ہیں۔ علمِ حقیقی کسی گروہ کے پاس نہیں۔ یہ دونوں گروہ ہمیشہ سے ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔
نیز مثلاً اگر آج کچھ ارب لوگ اس نظریے کے حامل ہیں کہ ہم دنیا میں ایک پروسیجر ہیں، پیدا ہوئے، مر جائیں گے اور decompose ہو جائیں گے اور کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا، تو اس میں نئی بات کون سی ہے؟ یہ نظریہ رکھنے والے پہلے بھی تھے جن کا قرآن میں ذکر ہے۔ ان کا وجود قرآن کے زندہ کتاب ہونے کی دلیل ہے۔
ارے بندگانِ خدا، ہم مسلمانوں کو تو ایسے سوالات اور ایسے نظریات رکھنے والوں کے وجود پر خوش ہونا چاہیے کہ جو کچھ صحابہ کرام کو پیش آیا وہی آج ہمیں درپیش ہے۔ المختصر جب تک انسان موجود ہے اور اس میں جوہرِ انسانیت توانا ہے، نہ قرآن فرسودہ ہوگا اور نہ اس کے مطالب، اور نہ اس کے مخاطب ناپید ہوں گے۔

Facebook Comments

حافظ صفوان محمد
مصنف، ادیب، لغت نویس

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply