سعودی عرب میں فوجی تبدیلیاں۔۔ڈاکٹر ندیم عباس

سعودی معاشرہ دہائیوں تک ایک خاص انداز میں چلایا گیا ہے، جہاں کی خبریں بھی ایک سی ہی ہوتی تھیں۔ ایک خاموش معاشرہ جس میں نہ مظاہرہ ہے، نہ احتجاج ہے، نہ الیکشن ہے، نہ ہلہ گلہ ہے۔ جیسے صحرائی سفر میں ایک وقت کے بعد دونوں طرف نظر آنے والی ریت انسانی آنکھوں کو اتنا متاثر کرتی ہے کہ وہ سوچنے لگتا ہے، گاڑی چل رہی ہے یا رکی ہوئی ہے؟ سعودی عوام کی زندگی بھی یونہی رکی ہوئی تھی۔ پاکستان کا شائد اقوام متحدہ میں سفیر ہی ایسا عہدہ ہوتا ہے، جو شائد تھوڑا لمبے عرصے تک رہتا ہے، ورنہ ہر چیز میں اکھاڑ پچھاڑ جاری رہتی ہے۔ سعودی عرب کے بارے میں بچپن سے سننا شروع کیا اور چند سال پہلے تک سنتے رہے کہ شاہ عبداللہ سعودی عرب کے بادشاہ ہیں، اسی طرح شائد سعود الفیصل وزیر خارجہ ہیں، مکہ، ریاض اور مدینہ کے گورنر، امریکہ میں سفیر، غرض ہر جگہ ایک ہی چہرہ براجماں رہتا تھا۔ وہاں کے اخبارات میں بھی کوئی خاص خبر نہیں ہوتی تھی، بلکہ ہر ادارے میں دہائیوں سے مقیم لوگوں کے متعلق لوگوں کو پتہ ہوتا تھا کہ اس مسئلہ میں ان کا کیا بیان ہوگا۔ شائد سعودی عوام کے لئے موسم وہ واحد چیز تھی، جس میں وقت کے ساتھ ساتھ تبدیلی آتی رہتی تھی، مگر وہ بھی ایک چکر ہی ہوتی ہے۔ گرمی کم ہے یا زیادہ ہے؟ طوفان آئے گا یا نہیں آئے گا؟ بارش بھی کم ہی برستی ہے، برف باری وغیرہ تو خیر اتنی ہی دور کی خبر ہے، جتنی کراچی والوں کے لئے ہر روز کے نو بجے والے خبر نامے کے بعد خبروں میں شمالی علاقوں کا مطلع ابر آلود ہونے کی خبر ہے۔

یہ بھی پڑھیں :سعودی عرب میں مذہب کا نیا فہم۔۔ثاقب اکبر

یہ سب پرانی باتیں ہوگئی ہیں، اب نیا دور ہے، جس میں بعض سیاسی ماہرین کے مطابق شہزادہ محمد بن سلمان ہر روز ایک نیا جوا کھیلتے ہیں، جو ملک سلمان کے بعد ان کے لئے تخت کی راہیں قریب بھی کرسکتا ہے اور انہیں ہمیشہ کے لئے اس سے محروم بھی کرسکتا ہے۔ ایک اہم وقت میں، ایک اہم اسلامی ملک کی سربراہی ایک ایسے بتیس سالہ نوجوان کے ہاتھوں میں ہے، جو خطرناک تیز رفتار ہے۔ سعودی عرب میں شاہ عبداللہ کے بعد قیادت کی تبدیلی کے ساتھ ہی پہلا فیصلہ یمن پر حملے سے کیا گیا۔ یمن پر حملہ ایک ایسا بلیک ہول بنا ہوا ہے، جو سعودی عرب کی تمام تر چالوں کے باوجود ناکامی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یمن کے نہتے عوام پر مسلسل بمباری نے دنیا بھر میں سعودی امیج کو خراب کیا ہے۔ دنیا بھر میں بہت سے سادہ لوح عام مسلمان یہ سمجھتے تھے کہ سعودی عرب مسلمانون کا محافظ ہے، مگر یمنی عوام کے قتل عام نے ان کے اصل چہرے کو عوام کے سامنے آشکار کر دیا ہے۔ ویسے بھی مفادات کی دنیا میں مذہب، زبان اور علاقے کو ایک نعرے کے طور پر گمراہ کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔

یمن کے بعد شام میں بشار الاسد کی مخالفت میں بین الاقوامی استعار اور سعودی سرمایہ کاری سے داعش اور النصرہ جیسی قوتوں کو گھڑا گیا، انہیں مذہبی بیانیہ فراہم کیا گیا، بشار کو ایک خونخوار کے روپ میں پیش کیا گیا اور پھر دنیا بھر سے جہادیوں کو جدید اسلحہ کے ساتھ میدان میں اتار دیا گیا۔ شام کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی، لاکھوں لوگ مہاجر بنے اور آج کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس تمام کا نتیجہ بھی نوجوان شہزادے اور ان کے اتحادیوں کے لئے اچھا نہیں رہا بلکہ یہ ساری سرمایہ کاری غارت گئی۔ دنیا بھر سے اکٹھا کیا گیا گند بھی بڑی حد تک صاف کر دیا گیا ہے، کچھ علاقوں میں ابھی تک لڑائی جاری ہے، جو عنقریب ختم ہو جائے گی۔ یہ ایڈوینچر بھی، ایک ناکام ایڈوینچر رہا، جس میں لاکھوں شامی عوام کا خون بہایا گیا اور ایک خوشحال ملک کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا گیا۔ اب آتے ہیں تازہ ترین ایڈوینچر کی طرف، شہزادہ محترم نے رات کو سعودی عرب کی فوج میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی ہیں۔ بری اور فضائی فوج کے سربراہ کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔ چند ماہ پہلے یہ خبر آئی تھی کہ سعودی نیشنل گارڈ کے سربراہ کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ شطرنج کا مقابلہ ہو رہا ہے، جس میں چالیں چلی جا رہی ہیں اور یاد رہے اس مقابلے میں فوج اور فوج کا سربراہ خصوصی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب کا سیاسی بھونچال۔منصور ندیم

Advertisements
julia rana solicitors london

مدمقابل کا سپہ سالار مارا جائے تو مقابلہ جیت کے بہت قریب پہنچ جاتا ہے۔ یہ اقدامات بتا رہے کہ شاہی خاندان زبردست ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے۔ محمد بن سلمان ہر صورت میں یہ مقابلہ جیتنا چاہتے ہیں اور اختیار کا مرکز بھی انہیں کے پاس ہے۔ کچھ عرصہ پہلے انہیں یہ خدشہ ہوا تھا کہ کہیں امیر شہزادے ان کے مدمقابل نہ آجائیں تو انہوں نے بڑے طریقے سے تمام ارب پتی شہزادوں کو ایک چار ستارہ ہوٹل کا مہمان بنا لیا تھا۔ نرم و نازک زندگی کے عادی اور شاہانہ زندگی گزارنے والے ارب پتی شہزادوں کی زمین پر بچھے گدوں پر آئی تصاویر نے عرب سوشل میڈیا پر بہت مقبولیت حاصل کی تھی۔ عوام خوش تھے کہ جیسے بھی ہوا، ان پر ستم ڈھانے والوں میں سے کچھ کو تو آزادی سے محروم ہونا پڑا۔ حسب سابق وہی ہوا، دولت انسان برے وقت کے لئے ہی کماتا ہے، سو اسی کے لئے خرچ ہوئی۔ بعض رپورٹس کے مطابق اربوں ڈالر ادا کرکے شہزادوں نے ڈیلز کی ہیں۔ یمن میں براہ راست جنگ جاری ہے، شام میں بھیجے گئے بہت سے جہادی واپس آچکے ہیں، تیل کی مارکیٹ بھی کافی نیچے آچکی ہے، ایک ایک کرکے آل سعود خاندان کے مختلف گروہوں کو ناراض کیا جا چکا ہے۔ ان تمام حالات میں حکمران خاندان کے لئے فوج بلکہ ہر وہ ادارہ جس کے پاس اسلحہ اور تربیت ہے، اس پر کنٹرول ضروری ہے۔ اسی لئے فوجی اسٹیبلشمنٹ کے توازن کو مکمل طور پر اپنے حق میں کرنے کے لئے فوج میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کی جا رہی ہیں، جس کسی پر تھوڑا سا بھی شک گزرتا ہے کہ یہ کسی سطح پر مخالفت کرسکتا ہے، اسی عزت کے ساتھ گھر کی راہ دکھلا دی جاتی ہے۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔؟

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply