ولادیمیر الیچ اُلیانوف لینن نے کہا تھا:
Imperialism strives for reaction everywhere.
“سامراجیت ہر جگہ رجعت پرستی کو بڑھاوا دیتی ہے”
جب سرمایہ داری کا بحران شدید ہوتا ہے تو یہ بنیاد پرستی اور فاشزم کے ذریعے سے استحصال زدہ طبقات اور کمزور ، مجبور اور پہلے سے کچلے جانے والے اور پسے ہوئے گروہوں پر حملہ آور ہوتی ہے ۔ خطرے میں گھری ہوئی جو مذہبی اور قومی اقلیتیں ہوتی ہیں ان پر یہ بنیاد پرستی اور فاشسٹ ہتھکنڈوں سے اور زیادہ جبر اور ظلم کرنے لگتی ہے ۔ بحران کے دنوں میں اس نظام کے تحت چلنے والی ایسی ریاستیں جو عالمی سرمایہ داری نظام کے حاشیے پر پڑی ہوتی ہیں ان ریاستوں میں یہ عورتوں پر بھی جبر کو اور زیادہ سخت کردیتی ہیں اور پدرسریت کے ہتھیار کو اور زیادہ خوفناک بنا دیتی ہیں ۔
جنوبی ایشیا میں بھارت کے اندر ہندو فاشزم کا ہندوتوا/ہندو بنیاد پرستی کے راستے ابھار یو یا پاکستان و بنگلہ دیش میں اسلامی بنیاد پرستی کے راستے اس کا پھیلاؤ ہو ان سب کی جڑیں عالمی سرمایہ داری کے شدید ترین بحران میں پیوست ہیں۔
بنیاد پرستی اور فاشسٹ رجحانات صرف نام نہاد دوسری اور تیسری دنیا کی سرمایہ دارانہ ریاستوں کا سماجی مظہر نہیں ہے بلکہ یہ نام نہاد ترقی یافتہ سرمایہ دار ریاستوں میں بھی عروج پر ہے ۔
بنیاد پرست پروپیگنڈے کا ایک مرکزی نقطہ جینڈر کے متعلق ایک قدامت پسند نظریہ ہے ۔ چاہے وہ امریکہ میں عیسائی فرقوں کے بنیاد پرست ہوں، ہندوستان میں ہندو بنیاد پرست، جاپان کے نئے مذاہب ہوں یا اسلامی بنیاد پرست قوتیں ہوں ۔ وہ سبھی خواتین کی زندگی میں خاندان اور گھر کی مرکزیت کو بحال کرنے اور ان کی صنفی آزادی پر پدرشاہی کنٹرول کے مخصوص ایجنڈے کا اعلان کرتے ہیں۔
امریکہ جو عالمی سرمایہ داری کا سب سے بڑا مرکز ہے اور عالمی سرمایہ داری کے بحران کی شدت اس ملک کی معشیت میں صاف دیکھی جاسکتی ہے وہاں بھی نہ صرف روایتی قدامت پرست ری پبلکن پارٹی میں نو قدامت پرست رجحان
Neo۔Conservative tendency
غالب ہے بلکہ یہ رجحان وہاں کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی ڈیموکریٹس میں بھی غالب ہے ۔
امریکہ میں فاشسٹ گروہ جھوٹے اخلاقی دلائل استعمال کرتے ہوئے پرو لائف مہم کو جارحانہ طور پر آگے بڑھا رہے ہیں۔ یہ مہم عدالت کے فیصلوں کے ردعمل کے طور پر شروع ہوئی تھی لیکن اب اس میں اسقاط حمل کے کلینکوں پر حملے اور پرو۔اسقاط حمل کارکنان اور ڈاکٹروں کے قتل شامل ہیں۔ یہ گروہ پرو لائف ہونے کے باوجود سزائے موت، زیادہ فوجی اخراجات، اور جارحانہ خارجہ پالیسی کی حمایت کرتے ہیں۔ یہ امریکی معاشرے کے سب سے قدامت پسند اور رجعتی طبقات میں شامل ہیں، سفید فام برتری کے نظریات رکھتے ہیں، کھلم کھلا نسل پرستی میں ملوث ہیں، اور فاشسٹ تنظیمی ڈھانچے اور پروپیگنڈا استعمال کرتے ہیں۔
اسلامی بنیاد پرستی ایک پیچیدہ سماجی Social phenomenon ہے جسے دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکی سامراجیت نے جمہوری اور سوشلسٹ تحریکوں کے مقابلے میں اپنی سرپرستی میں پھیلایا ، خاص طور پر عرب ممالک ، مسلم اکثریت کے افریقی ممالک اور پاکستان و بنگلہ دیش میں ۔
سوویت یونین اور چین میں سرمایہ داری کی بحالی اور جمہوری قومی آزادی کی تحریکوں کی قیادت کی ناکامی کے بعد، سامراجیت مخالفت روایتی اور اکثر مذہبی طریقوں سے ظاہر ہوئی۔
اسلام امریکہ مخالف تحریکوں کا نظریاتی ہتھیار بن گیا، جیسا کہ ایران اور پاکستان ، بنگلہ دیش اور مصر وغیرہ میں، یا یہ فلسطین میں مزاحمت کی علامت بن گیا۔
سابق سوویت یونین کے ممالک میں اسلامی بنیاد پرستی قومی مزاحمت کا لبادہ پہنے ہوئے ہے۔
افغانستان میں اسلامی بنیاد پرستی کا اثر اس وقت مضبوط ہوا جب جدیدیت اور خواتین کی آزادی کی کوششیں سوویت قبضے کے دوران عوامی حمایت حاصل نہ کر سکیں۔
سوویت انخلاء کے بعد افغانستان میں جنگجو رہنماؤں کا دور آیا جو طالبان کی طرح رجعت پسند تھے، اور خواتین کے حقوق کی حامی تنظیم RAWA نے ان کی بھی ویسے ہی مخالفت کی جیسے طالبان کی۔ ماضی قریب میں جب یہ جنگجو امریکی حمایت سے برسرِ اقتدار تھے تب بھی عورتوں بارے ان کے خیالات قدامت پرستانہ ہی تھے ۔
چاہے سعودی بادشاہت جیسے رجعت پسند حکمران ہوں یا اخوان ، حماس ، حزب اللہ یا ترکی کی جسٹس پارٹی کے تحت ابھرنے والی عوامی تحریکوں پر مبنی بنیاد پرست تنظیمیں ہوں ، ان سب نے خواتین کے لباس، ان کی نقل و حرکت اور عوامی زندگی میں ان کی شرکت پر کنٹرول کو اپنی مہم کا اہم حصہ بنایا ہے، جسے اسلامی بنیاد پرستی کی امریکی سامراجیت کی مخالف مہم کے تناظر میں زیادہ تشہیر ملی ہے۔ پاکستان میں جماعت اسلامی بھی اسی راستے پر عمل پیرا ہے ۔
آج کے دور میں بنیاد پرستی کا سیاسی کردار پیچیدہ ہے اور یہ طے کرتا ہے کہ ہمیں اس کے خلاف کس طرح جدوجہد کرنی چاہیے۔ ہر قسم کی مذہبی بنیاد پرستی پدرشاہی اور دیگر پسماندہ اقدار کو فروغ دیتی ہے، اس لیے جمہوری اور انقلابی قوتوں کو اس کی عمومی مخالفت کرنی چاہیے۔ تاہم، بنیاد پرستی کا کردار دوہرا ہے۔ امریکہ میں عیسائی بنیاد پرستی اور ہندوستان میں ہندوتوا بریگیڈ ، ریاست اور حکمران طبقے کی بڑھتی ہوئی فاشسٹ پالیسیوں کا حصہ ہیں اور انہیں اسی تناظر میں نشانہ بنانا ضروری ہے۔
دوسری طرف، مسلم بنیاد پرستی اکثر امریکی جارحیت اور ہندوستان میں ہندو فاشزم کے ردعمل اور پاکستان میں یہ ریاست کے ملٹری ازم ، وار ازم ، اس کی معاشی پالیسیوں میں پیٹی بورژوازی/درمیانے طبقے پر پڑنے والے زبردست دباؤ کے ردعمل اور ساتھ ساتھ پاکستان کے سیاسی جمہوری عمل میں منفی مداخلت کے کیے تحریک لبیک ، سپاہ صحابہ جیسی فرقہ پرست اور انتہائی مساجنسٹ رویے کی حامل مذھبی پیشوائیت کی ریاستی سرپرستی کے سبب بڑھ رہی ہے۔
جماعت اسلامی جیسی مذھبی بنیادوں پرست سیاسی جماعتوں کی انقلابی نعرے بازی اور خود کو اینٹی اسٹبلشمنٹ بناکر پیش کرنے کی کوشش کے پس پردہ بھی پاکستان میں پیٹی بورژوازی/درمیانے طبقے میں زبردست معاشی دباؤ سے پیدا فرسٹریشن اور فسطائی رجحانات کی طرف جھکاؤ کے سبب ہے ۔
اس لیے جہاں ہمیں بنیاد پرستی کے دائیں بازو کی حکومتوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے وہیں جہاں یہ اینٹی سامراجیت ، اینٹی امریکہ ، اینٹی ہندوتوا اور پاپولر عوامی نعروں کے ساتھ سامنے آ رہی ہے وہاں ہمیں اس کی پسماندہ پدرشاہی اور جاگیردارانہ سوچ کو بھی بے نقاب کرنا چاہیے اور اس میں جو فسطائی رجحانات چھپے ہوئے ہیں انھیں بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے ۔
پاکستان کے تناظر میں عورتوں کی جو سب سے بڑی اور فوری دشمن طاقت ہے وہ بنیاد پرست مذھبی ملائیت ہے ۔ اس وقت ملک میں جتنی مذھبی سیاسی جماعتیں وہ اسلامی بنیاد پرستی کی سب سے بڑی علمبردار ہیں ۔
اسلامی بنیاد پرستی اقدار کے جاگیردارانہ بوسیدہ، بدبو دار اور متعفن تالاب میں پروان چڑھتی ہے جو ہمارے سماج کی نیم جاگیردارانہ ، نیم نوآبادیاتی۔ اور کئی جگہ پر نری قبائلی یا نیم قبائلی ڈھانچے پر مبنی نظام میں فروغ پاتی ہیں ۔ اس نظام میں پہلے سے موجود برادری ازم ، قبائلیت پر مبنی جاگیردارانہ اور پدرشاہی اقدار اسلامی بنیاد پرستی کی آگ کے لیے خشک گھاس کا کردار ادا کرتی ہیں ۔ جبکہ ریاستی حکمران طبقات میں موجود قدامت پرست اشرافیہ اور ریاستی غالب فوجی و سول افسر شاہی میں موجود بنیاد پرست اور عدالتی اسٹبلشمنٹ میں موجود مولوی ججز اس زہریلے خون آشام عورت دشمن رجحان کے قدرتی اتحادی بن جاتے ہیں ۔ جبکہ سماج میں پھیلی عمومی پسماندگی، کمزور ترین جمہوری تحریک اور لبرل بورژوازی سیاسی جماعتوں کی قیادت میں موجود موقعہ پرستی کے سبب عوام کے بہت سے سیکشن بھی اسلامی بنیاد پرستی کے جارحانہ اور وسیع پروپیگنڈے کا شکار ہوجاتے ہیں ۔
اس وقت بلوچستان میں زبردست ریاستی جبر اور ظلم کے خلاف بلوچ قومی تحریک میں جس طرح سے عورتیں متحرک ہوئی ہیں اور نوجوان عورتیں اس تحریک کی قیادت کر رہی ہیں ان کے خلاف خود ریاست اور ریاستی حکمران طبقہ بھی اسلامی بنیاد پرستوں کی وہاں پر سرپرستی کر رہا ہے اور وہاں ملائیت کا ایک سیکشن اس تحریک کی مخالفت کرنے اور اسے غیر موثر بنانے کے لیے اسلامی بنیاد پرستی میں موجود مساجنسٹ، پدر شاہی ، قبائلی اور جاگیردارنہ اقدار کے سہارے اس تحریک میں سرگرم عورتوں پر حملہ آور ہو رہا ہے ۔
جنرل ضیاع الحق کی آمریت کے دور میں حدود آرڈیننس کا اجراء ، مخلوط تعلیم کی مخالفت ، سرکاری ٹی وی پر نیوز کاسٹرز اور اینکر خواتین پر دوپٹہ اوڑھنے کی پابندی ، اسلامی بنیاد پرستوں کی طرف سے عورتوں کے لیے مخصوص ڈریس کوڈ کے بفاذ کے مطالبے اور ڈنڈا بردار مذھبی فورس کے ذریعے عورتوں کے لباس پر اعتراضات ، پردے ،برقعے اور عربی و ایرانی طرز کے عبایا کو فروغ دینے کی کوششیں یہ سب اسلامی بنیاد پرستی کے پدر سری، جاگیردارانہ اور مساجنسٹ ایجنڈے پر مشتمل تحریک کی شروعات تھے۔ اسلامی بنیاد پرستی نے اس وقت سے لیکر اب تک اپنے عورت دشمن ایجنڈے کو اور زیادہ خوفناک شکل دی ہے ۔ اس نے ریپ کلچر ، غیرت کے نام پر عورتوں کے قتل ، کام کی جگہوں اور تعلیمی اداروں میں عورتوں کے ساتھ ہراسانی جیسے ایشوز پر وکٹم بلمینگ کلچر کو فروغ دیا ہے۔ عورتوں کے حقوق کے لیے فعال اور سرگرم کردار ادا کرنے والی ممتاز اور نمایاں خواتین ایکٹوسٹوں کے خلاف اپنا سب سے خوفناک بلاسفیمی ہتھیار بھی استعمال کیا ہے۔ یہاں تک کہ یہ ہتھیار معاشرے کی بظاہر طاقتور اور بلند سماجی رتبے کی حامل خواتین کے خلاف بھی استعمال کیا گیا ہے ۔ عاصمہ جہانگیر ، فوزیہ وہاب ، عرفانہ ملاح جیسی طاقتور اور مضبوط عورتوں کے خلاف بھی اس ہتھیار کو استعمال کیا گیا۔ حال ہی میں بلوچ یک جہتی کمیٹی کی سینئر وائس چیئرپرسن ڈاکٹر صبیحہ بلوچ کے خلاف بھی بلاسفیمی کا ہتھیار استعمال میں لایا گیا اور وہ بڑی مشکل سے اس وار سے بچیں۔ پشتون تحفظ موومنٹ کی کئی ایک سرگرم خواتین اسلامی بنیاد پرستی کے اس عورت دشمن کردار کش رجحان کا نشانہ بنیں ۔ اسلامی بنیاد پرستی کے اس عورت دشمن رویے کو پروان چڑھانے میں خلیل الرحمان قمر ، اوریا جان مقبول جیسے ٹی وی تجزیہ کاروں نے بھی بہت گندا کردار ادا کیا ۔
پاکستان کی لبرل کہلانے والی سیاسی جماعتوں اور جے یو آئی جیسی بنیاد پرست جماعتوں نے بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کرنے اور اپنے وقتی مفادات کے لیے عورت دشمن بیانیوں اور مخالف سیاسی جماعتوں کی فعال سرگرم عورتوں کے خلاف جنسیت زدہ پروپیگنڈے کو عام کیا ۔ یہاں تک کہ پیپلزپارٹی میں عبدالقادر پٹیل اور مسلم لیگ نواز میں خواجہ آصف سعید جیسوں نے جنسیت زدگی Sexism پر مبنی سیاسی ہتھکنڈوں اپنی تقریروں کا نمایاں حصہ بنایا اور ان جماعتوں کے آفیشل اور رضا کار سوشل میڈیا انھیں ویسے ہی استعمال کیا جیسے پی ٹی آئی کا آفیشل اور رضاکار سوشل میڈیا استعمال کر رہا تھا ۔ فیک وڈیوز وائرل کرنے کے پیچھے سیاسی جماعتوں کے خفیہ میڈیا سیل اور انٹیلی جنس اپریٹس کا ہاتھ بھی بتایا جاتا رہا ہے ۔ سیاسی جماعتوں کی اس موقعہ پرستانہ عورت دشمنی نے اسلامی بنیاد پرستی کی عورت دشمن تحریک اور مقدمے کو بہت طاقت بخشی ہے ۔
اسلامی بنیاد پرستی عورت کے وجود کو اس کے مرد رشتے داروں (شوہر، باپ، بھائی ، چچا، تایا، دیور ، جیٹھ ، ماموں اور برادری و قبیلوں کے سرپنچوں ) کے ساتھ تعلق اور ان کے تعصبات کی روشنی میں ہی دیکھنے پر اصرار کرتی ہے اور عورت کے خودمختار وجود کو نہ تو خاطر میں لاتی ہے اور نہ ہی اسے برداشت کرتی ہے ۔ وہ پدرسری اور جاگیردرانہ تعصبات اور ضابطوں کو ہر حال میں عورتوں پر مسلط رکھنا چاہتی ہے ۔ وفاشعار، باکردار، نیک اور پاکباز عورت وہ ہے جو ہرحال میں اپنے شوہر سے بندھی رہے یہاں تک کہ اسے یا تو قتل کردیا جائے یا جلاکر مار دیا جائے یا وہ گھٹ گھٹ کر مرجائے۔ عورتوں پر لازم ہے کہ وہ باکردار کہلانے اور بدکرداری اور بے حیائی کے الزام سے بچنے کے لیے پسماندہ پدرسری مردانہ بالادستی اور حاکمیت کے تحت ملنے والے کمتر مرتبے سے چمٹی رہیں اور اسلامی بنیاد پرستی اسی پسماندہ پدرسری نظریے اور ثقافت Backward Patriarchal ideology and culture کی سب سے بڑی محافظ ہے ۔ اس غیرانسانی پدر سری رجحان Anti۔human Patriarchalسب سے جارحانہ اور متشدد شکلیں ریپ، گینگ ریپ کی ہیں اور اسلامی بنیاد پرستی ریپ اور گینگ ریپ کا شکار متاثرہ خواتین سے ہمدردی اور یک جہتی دکھانے کے الٹا ریپ کرنے والوں کے ساتھ ہمدردی اور انھیں معذور محض بتانے کی کوشش کرتی ہے اور ریپ و گینگ ریپ کی متاثرہ خواتین کو الزام دیتی ہے ۔
اور یہ بات اس سیاق و سباق میں سمجھنی چاہیے کہ فاشسٹ ذہنیت خواتین کو کس نظر سے دیکھتی ہے۔ جب پسماندہ نظریہ خواتین کی مکمل تابعداری مردوں کے سامنے جائز قرار دیتا ہے اور اس کی وکالت کرتا ہے، تو خواتین کمیونٹی کی سماجی عزت کی علامت اور محافظ بن جاتی ہیں، اور اکثر ریاست کی خودمختاری کا مجسمہ سمجھی جاتی ہیں۔ ان کے نزدیک خواتین کمیونٹی کی نمائندہ، اس کی ثقافت اور اقدار کی امین اور محافظ ہوتی ہیں، اور وہ ذریعہ ہوتی ہیں جس کے ذریعے کمیونٹی کی نسل اور تسلسل برقرار رہتا ہے۔
اسلامی بنیاد پرستی اور اس کے بطن سے جنم لینے والا فاشزم اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے خواتین کا استعمال کر رہی ہے ، چاہے وہ انہیں متحرک کر رہے ہوں یا اقلیتی خواتین پر جنسی حملے کر رہے ہوں۔
یہ یاد رکھنا بہت ضروری ہے کہ اسلامی بنیاد پرستی چاہے مذہبی بنیاد پرستوں کی جماعت اسلامی، جے یو آئی ، جے یو پی ، مجلس وحدت المسلمین، تحریک لبیک ، سپاہ صحابہ جیسی سیاسی یا فرقہ پرست جماعتوں میں ہو یا مسلم لیگ، پی پی پی ، پی ٹی آئی جیسی جماعتوں کے اندر موجود ہو یہ عورتوں کے خلاف رجعت پرستانہ رویہ ہی رکھتی ہیں اور ان کا یہ مشترکہ وصف ہے ۔
زیادہ تر انفرادی معاملات میں بھی، ریپ اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ عورت محض ایک جنسی لذت کی شے ہے اور اس پر مرد کی طاقت کا اظہار ہے۔ لیکن جب ریپ سیاسی و مذھبی اور قبائلی غیرت کے سیاق و سباق میں ہوتا ہے جیسے مختاراں مائی کے ساتھ ہوا ، جہاں یہ اجتماعی حملوں کا حصہ ہو، تو یہ منظم جارحیت بن جاتا ہے، ایک دکھاوے کی رسم، ایک فتح کی رسم – جو دشمن کمیونٹی کی عزت کے خودمختار نشان کی بے حرمتی ہے۔
اجتماعی زیادتیوں یا فسادات اور ایسے حملوں میں انفرادی خواتین کے ساتھ زیادتی کا کوئی جنسی پہلو نہیں ہوتا، چاہے یہ فرقہ وارانہ قوتوں کی جانب سے ہو یا پولیس اور دیگر فورسز کے ذریعے۔ یہ ریپ سیاسی اقدامات ہیں، جن کا مقصد “دشمن” کو ذلیل کرنا ہوتا ہے – عورت کی بے حرمتی کمیونٹی کی بے حرمتی سمجھی جاتی ہے، اور یہ کمیونٹی کے مردوں کے لیے ایک چیلنج اور توہین ہے جو “خواتین کی عزت، یعنی کمیونٹی کی عزت کی حفاظت” نہ کر سکے۔ اس ساری طاقت کی جنگ میں عورت اور اس کے انسانی حقوق کی کوئی اہمیت نہیں رہتی۔(بنگالی خواتین سے پاکستانی فوجیوں کے ریپ اور ردعمل میں بہاری عورتوں کا ریپ اسی قبیل سے تھے ۔ اور ایسے جنسی حملے اور بدسلوکی کے الزامات بلوچستان میں آپریشن میں مصروف سیکورٹی فورسز پر بھی لگ رہے ہیں ) ۔
Facebook Comments
بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں